... loading ...
مسلمانوں کی زبوں حالی دور کرنے کے لیے جب بھی سرکاری سطح پر کوئی قدم اٹھایاگیا تو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بی جے پی نے ہی کھڑی کی۔اس نے کانگریس حکومتوں پر الزام عائد کیا کہ وہ مسلمانوں کی ’منہ بھرائی‘کررہی ہیں،لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب خود بی جے پی ہی مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کی ’منہ بھرائی‘کے راستے پرچل پڑی ہے۔اس کا آغاز ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش سے ہوا ہے۔اطلاعات ہیں کہ رواں سال کے آخر میں اترپردیش میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی بڑی تعداد میں پسماندہ مسلمانوں کو امیدوار بنائے گی تاکہ ان کا ووٹ حاصل کیا جاسکے۔بی جے پی اقلیتی مورچہ نے پورے صوبے میں ایسے 44ہزار پولنگ بوتھوں کی نشاندہی کی ہے جہاں پسماندہ مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے۔بی جے پی کے ایک پسماندہ لیڈر کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میں ایسی متعدد برادریوں کو نشان زد کیا گیا ہے جو سماجی، معاشی اورتعلیمی طورپر دیگر برادریوں کے مقابلے میں پسماندہ ہیں۔ ان میں انصاری، منصوری،راعین، گوجر، گھوسی،قریشی،ادریسی، نائک، فقیر، سیفی، علوی اور سلمانی وغیرہ شامل ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت مسلمان اس ملک کی سب سے زیادہ پسماندہ قوم ہیں اور یہ پسماندگی سب سے زیادہ ان برادریوں میں ہے،جو ابتدائ سے محرومی کی زندگی گزارتی رہی ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے ان مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے نام پر ہمیشہ اپنا الّو سیدھا کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جو مسلمان تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طورپر پسماندہ ہیں ان کی حالت روزبروزبگڑتی چلی جارہی ہے۔ اب تک کسی بھی سیاسی جماعت نے مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ سبھی پارٹیاں انھیں دل فریب نعروں میں الجھاکر ان کا سیاسی استحصال کرتی رہی ہیں۔
اس ملک میں مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی ناپنے کا سب سے بڑا پیمانہ سچر کمیٹی کی وہ رپورٹ ہے، جوسابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور اقتدار میں تیار کی گئیتھی۔ یہ رپورٹ مسلمانوں کی دردناک تصویرپیش کرتی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس آنجہانی راجندر سچر کی قیادت میں ملک گیر سطح پر مسلمانوں کی زبوں حالی کا جائزہ لے کر اس رپورٹ جو کچھ کہا گیاہے، وہ ایسی تلخ حقیقت ہے جس کے آئینے میں اس ملک کے حکمرانوں کو اپنا چہرہ ضرور دیکھنا چاہئے۔ المیہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اس معاملے میں خودکو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے قصور ایک دوسرے کے سر ڈالتی رہی ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں بی جے پی کے پرچم تلے ہوئے پسماندہ مسلمانوں کے اجلاس میں ہوا۔ اس اجلاس میں یوپی کے نائب وزیراعلیٰ برجیش پاٹھک نے کہا کہ’’اب تک سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو بریانی میں تیزپات کی طرح استعمال کیا۔ بریانی تو خود کھا گئے اور تیزپات کو نکال کر باہر پھینک دیا۔‘‘ اس اجلاس کے کرتا دھرتا یوپی کے اکلوتے مسلم وزیردانش انصاری تھے۔ دانش انصاری کا جغرافیہ ہمیں معلوم نہیں ہے، اس لیے ہم ان کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کرپائیں گے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جنھیں بی جے پی مختلف مواقع پر مختلف عنوانات کے تحت تیزپات کی طرح ہی استعمال کرتی رہی ہے۔مسلمانوں کی محفل میں جب تک بریانی کا ذکر نہ ہو اس وقت تک بات مکمل نہیں ہوتی، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے بریانی میں استعمال ہونے والے تیزپات کا ذکر کیا ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں پسماندہ مسلمانوں کی سیاست نئی نہیں ہے۔ کانگریس کے دور اقتدار میں اس کے سب سے زیادہ جلوے تھے۔ ہرپسماندہ برادری کا ایک ’لیڈر‘کانگریس میں ہوا کرتا تھا۔ لیکن اس قسم کے لیڈروں نے اپنی برادری کو فیض پہنچانے کی بجائیہمیشہ اپنی ذات کو پیش نظر رکھا۔ان کی معراج وزارت کی کرسی،راجیہ سبھایا مختلف سرکاری محکموں کی چیئرمین شپ رہی۔ کانگریس کے دور اقتدار میں ’مومن کانفرنس‘ اس کا ایک ثبوت تھی، جس کے سربراہ کو سرکاری عہدہ ملتا تھا اور وہ اس عہدے پر براجمان ہوکر سب کچھ بھول جاتا تھا۔ وزارت وصدارت کے اس شوق میں اتنی زیادہ مومن کانفرنسیں بن گئی تھیں کہ یہ پہچاننا ہی دشوار ہوتھا کہ اصل کون ہے اور نقل کون؟اس کے بعد جب یوپی کے مسلمان کانگریس سے ٹوٹ کر سماجوادی پارٹی میں چلے گئے تو وہاں بھی یہی سلسلہ شروع ہوگیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب اس بی جے پی نے بھی یہی روش اختیار کرلی ہے،جس کے ایجنڈے میں مسلمان کہیں نہیں ہیں۔اطمینان بخش بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی پسماندہ برادریوں نے کبھی فرقہ پرست طاقتوں سے ہاتھ نہیں ملایا اور وہ ہمیشہ سیکولر پارٹیوں پر ہی تکیہ کرتی رہیں، لیکن جب سے بی جے پی نے پسماندہ ذاتوں کا راگ چھیڑا ہے تو کچھ مفاد پرست عناصر اس کی طرف راغب ہونے لگے ہیں۔ حقیقت میں بی جے پی کا بنیادی مقصد پسماندہ مسلمانوں کی خیرخواہی سے زیادہ مسلمانوں میں ذات برادری کا انتشار پھیلانا ہے۔حال ہی میں پسماندہ ذاتوں کی نمائندگی کے سوال پرمسلمانوں کی نصف صدی سے زیادہ پرانی ایک وفاقی تنظیم کا تیا پانچہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ کسی مسلم تنظیم کونامعلوم عناصر کے اشارے پر ذات برادری کے نام پر قربان کیا جارہاہے۔
دراصل وزیراعظم نریندر مودی نے تین ماہ قبل اپنی پارٹی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کہا تھا کہ پارٹی کارکنوں کو ہندوؤں کے علاوہ ہر فرقہ کے محروم اور پسماندہ لوگوں تک اپنی رسائی بڑھانی چاہئے۔ سیاسی حلقوں میں اس کا مطلب پسماندہ مسلمانوں سے لیا گیا تھا۔گزشتہ اتوار کولکھنؤ میں منعقدہ ’پسماندہ دانشوروں کا اجلاس‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا، جس میں نائب وزیراعلیٰ برجیش پاٹھک مہمان خصوصی کے طورپر شریک ہوئے اور انھوں نے بریانی سے تیزپات کے رشتے کی وضاحت کی۔ بی جے پی کی یہ پرانی ادا ہے کہ اس کے کیڈر کے لوگ ایسے کسی پروگرام میں شریک نہیں ہوتے جہاں ان کی کوئی جواب دہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس اجلاس میں برجیش پاٹھک کو بھیجا گیا جو بہوجن سماج پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔اگر واقعی بی جے پی اس معاملے میں سنجیدہ ہوتی تو اس اجلاس کا افتتاح وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو کرنا چاہئے تھا۔
جہاں تک مسلمانوں کو نمائندگی دینے کا سوال ہے توہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اس وقت مرکز کی بی جے پی سرکار میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں ہے۔یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ مرکزی حکومت نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے کسی نمائندے کو نمائشی نمائندگی کے قابل بھی نہیں سمجھا ہے۔ اتنا ہی نہیں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی بی جے پی کا کوئی مسلمان نہیں ہے۔ ہاں پچھلے دنوں سخت تنقیدوں کے بعد جموں وکشمیر سے کسی غلام علی کھٹانہ کو راجیہ سبھا میں نامزدکیا گیا ہے، جو لکھنؤ کے پسماندہ اجلاس میں شریک تھے۔ اس اجلاس میں شریک بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ایک عہدیدار نے ’انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ ہم یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ بی جے پی کی مرکزی اور صوبائی حکومت نے کس طرح چارکروڑپچاس لاکھ مسلمانوں کو مختلف سرکاری اسکیموں سے فائدہ پہنچایا ہے۔ انھوں نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’’یوپی میں تین کروڑپسماندہ مسلمانوں نے حکومت کی مفت راشن اسکیم کا فائدہ اٹھایا۔ ان میں سے سوالاکھ پسماندہ مسلمانوں کو آیوش مان اسکیم کے تحت طبی سہولتیں ملیں۔۷۵لاکھ کو وزیراعظم کی کسان سمان ندھی کے تحت فیض پہنچا۔چالیس لاکھ سے زیادہ پسماندہ مسلمانوں کو بجلی کنکشن ملے اور بیس لاکھ مسلمانوں کو مکان ملے۔‘‘اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے نزدیک مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کا پیمانہ کیا ہے۔وہ دراصل بحیثیت شہری مسلمانوں کو ملنے والی مراعات کو بھی ان کے اوپر احسان کے طور پر لادنا چاہتی ہے۔جبکہ مسلمانوں کی بدترین پسماندگی دور کرنے کے لیے حکومت کو ایسے ہی اقدامات کرنے چاہئیں جیسا کہ دلتوں کے لیے کئے گئے ہیں، کیونکہ مسلمان فی الوقت دلتوں سے زیادہ پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔