وجود

... loading ...

وجود

درجہ حرارت اور دباؤ بڑھ رہا ہے

اتوار 09 اکتوبر 2022 درجہ حرارت اور دباؤ بڑھ رہا ہے

میں  عمران خاں سے دوبار ہی ملا ہوں،پہلی بار وہ شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے فنڈ جمع کرنے کی مہم پر تھے،اور اسٹیٹ لائف انشورنس میں آئے تھے۔ وہ ورلڈ کپ کی جیت کا تمغہ سینے پر سجائے تھے اور انھیں قومی ہیرو کا درجہ حاصل تھا،دوسری بار کراچی پریس کلب میں وہ میٹ دی پریس سے خطاب کرنے آئے تھے، اور اقتدار سے گلے ملنے کے لیے تیار تھے، وہ وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ سنبھالنے والے تھے۔ان سے ہاتھ ملانا ایک کھلاڑی سے ہاتھ ملانا جیسا ہے، جو بے دلی سے اپنے مداحوں سے ہاتھ ملارہا ہوتا ہے۔ عمران خان ایک فائٹر ہے، لڑائی لڑنے میں اسے مزہ آتا ہے۔چاہے اس لڑائی میں خود کا بھی برا حال ہوجائے۔ نئے تنازعات بڑھتے جارہے ہیں، نومبر سے پہلے اکتوبر میدان جنگ میں بدل چکا ہے۔ 15 اکتوبر کو کیا ہوگا؟ کیا واقعی عمران خان فائنل کال دیں گے، اسلام آباد میں گبھراہٹ اور اداروں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے۔ اسلام آباد میں سب کچھ ریڈ زون نہیں ہے، وہاں عام لوگ بھی رہتے ہیں، اگر احتجاج میں شدت آگئی تو کیا ہوگا؟ عوام کی جان اور مال کیسے محفوظ رہیں گے۔ نئے انتخابات، سائفر، چیف سے عمران خان کی ملاقات ، وارنٹ گرفتاریسے بڑھ کر ، اب تو عمران خان اپنی جان کے خطرے کی بات بھی کررہے ہیں، انھوں نے بھی اپنے نہ ہونے پر ایک ٹیپ کی بات کی ہے، جس میں انھوں نے سب کچھ ریکارڈ کرادیا ہے۔ ایسی ہی ایک ٹیپ بے نظیر بھٹو نے بھی ریکارڈ کرائی تھی۔ پھر کیا ہوا، اس ٹیپ پر کوئی کاروائی ہوئی، جن پر الزام لگایا گیا تھا، ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا۔
راولپنڈی میں دو وزیر اعظم قتل ہوئے، پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل راولپنڈی ہی میں ہوا تھا، یہی اکتوبر کا مہینہ تھا،16 اکتوبر 1951 کے بعد سے آج تک اس بارے میں کیا ہوا، وہ جہاز جس میں
تحقیقات کی دستاویزات اور ثبوت تھے، تحقیقات کرنے والوں سمیت تباہ ہوگیا، پھر بے نظیر بھٹو کے قتل کی کونسی تحقیقات ہوئیں۔ سب کچھ ماضی کی نذر ہوگیا۔ تو اب خدا نخواستہ پھر کوئی سانحہ ہوا تو کیا ہوگا؟ کوئی اس پر نہیں سوچتا، سب اقتدار کے لیے مرے جارہے ہیں، کس قیمت پر ، عوام کی تباہی ، ملک کی تباہی، معیشت کی تباہی، معاشرہ کی تباہی۔ سیلاب نے جو تباہی مچائی ہوئی ہے، عوام جس طرح برباد اور تباہ حال ہیں، اس بارے میں کون سوچ رہا ہے، کون اس کے لیے کچھ کر رہا ہے، حکومت کے وہی اللے تھللے ہیں، کوئی دوسری شادی کی رنگینیوں میں مگن ہے، کروڑوں روپے کے اخراجات ، وہی عیاشیاں ، وہی شاہ خرچیاں، اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ چھ ماہ میں پچاس سے زائد جلسے ہوگئے ہیں، جلسے ایسے ہی تو نہیں ہوجاتے، کروڑوں روپے کے اخراجات ہوتے ہیں، کہاں سے آرہے ہیں، یہ پیسے، کون سرمایہ کاری کررہا ہے، مسلسل مقتدر حلقوں کو باور کر ایا جارہا ہے، ہمیں لاؤ، ہم پر بھروسہ کرو، ہم ہی حکومت کے اہل ہیں، عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ ہماری شرائط پر انتخابات کراؤ۔ ورنہ صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوں گے۔ نئے آرمی چیف کو بھی ابھی نہ لگایا جائے۔ انتخابات کے بعد نئی حکومت بننے تک یہ اہم تعیناتی ملتوی کر دی جائے۔ کیوں کردی جائے، اس کا کوئی جواب نہیں ہے، گو زبان سے بار بار کہا جارہا ہے کہ میں توسیع کا خواہش مند نہیں وقت مقررہ پر چلا جاؤں گا۔ لیکن نومبر سے پہلے یہ گھمسان کا رن پڑ رہا ہے۔ اس سے لگ رہا ہے، جانے والے اتنی آسانی سے نہیں جائیں گے۔ پہلے بھی راحیل شریف کے جانے سے پہلے انھیں بہت سے یقین دہانی کرائی گئی تھیں، ان کی اچھی ملازمت کا انتظام کیا گیا تھا، ان کے بہت سارے تحفظات کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اب بھی کچھ ایسا ہی انتظام ہوگا، یہاں سے نہیں ہوگا تو کہیں اور سے ہوگا، ایک کھلاڑی عوامی ردعمل کو دیکھ کر پرجو ش ہوجاتا ہے۔ اسے تماشائیوں کی داد جیت کے لیے سب کچھ لگا دینے پر ابھارتی ہے۔ اس لیے کپتان بھی اب فائنل کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فائنل کی نوبت نہیں آئے گی، تحریک انصاف کو اس سے پہلے ایوان میں جانا ہوگا۔ بہت سے لیڈر عوامی پذیرائی سے غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں، بھٹو اپنے جلسوں میں مخالفین کو للکارتے، عوام سے کہتے ، ’’لڑو گے گے‘‘گھروں سے نکلو گے، قربانی دو گے۔ لیکن پھر کیا ہوا، لاکھوں کے جلسے کرنے والے لیڈر کو پھانسی دے دی گئی۔ نہ خون کی ندیاں بہتی نظر آئیں، نہ پہاڑ روئے، عمران خان کہتے ہیں کہ ’’وہ جھوٹ بولنا نہیں چاہتے اور سچ وہ بتا نہیں سکتے۔‘‘ سچ کیا ہے، کیا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات ، ’’بیک ڈور ڈپلومیسی ‘‘گاجر اور اسٹک کا کھیل نہیں ہورہا ہے،’’عوامی آگاہی مہم‘‘سے دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔تحریک انصاف کی صرف ایک ڈیمانڈ ہے کہ عام انتخابات کا اعلان کیا جائے اور پھر وہ تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں۔ کیونکہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔اس سے زیادہ ساز گار موقع کبھی نہیں آئے گا، عمران خان کو یقین ہے کہ اگر ابھی انتخابات کرائے گئے تو وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ اس لیے وہ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتے۔لیکن بڑے بڑے بہادر اور انقلابی ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھی اپنے آخری وقت میں ، چی گویرا کی طرح گھگیاتے نظر آتے ہیں، اور اپنی زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں ،’’پلیز گولی مت مارنا۔ میں چے گویرا ہوں۔زندہ رہنے کی صورت میں زیادہ مفید ثابت ہوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر