وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان حکومت ،اضطراب ابھی باقی ہے!

بدھ 05 اکتوبر 2022 بلوچستان حکومت ،اضطراب ابھی باقی ہے!

بلوچستان حکومت میں جمعیت علماء اسلام کی شمولیت کا ارادہ پکا دکھائی دیا تھا ۔ چند دن بڑی گہما گہمی رہی ۔ اسلام آباد اور کوئٹہ میں تواتر سے ملاقاتیں ہوئیں۔ عبدالقدوس بزنجو ان کے بڑوں مولانا فضل الرحمان اور مولانا عبدالواسع سے ملے۔ رابطہ پیہم جاری رکھے ہوئے تھے۔ پھر یکا یک سکوت طاری ہوا۔جس کے بعد سردار اختر مینگل اورجے یو آئی کے درمیان رابطہ ہوا حزب اختلاف کی ان دو جماعتوں کا مؤقف بہ زبان سردار اختر مینگل سامنے آیا ہے کہ دونوں جماعتوں کے حکومت میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں کیا جا ئے گا۔حاضر وقت لگتا ایسا ہے کہ جیسے عبدالقدوس بزنجو اپنی جماعت کے چندناراض ارکان اسمبلی کو کابینہ میں شامل کرنے کے بعد مزید کسی کی حاجت نہ رہی ہے۔ سردار اختر مینگل کی جانب سے ہفتہ یکم اکتوبر کو اخبارات میں شائع خبر میں منفی اشارے ملے ہیں۔ سردار اختر مینگل کے الفاظ میں کہ، وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت جاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ’’جام کمال اور عبدلقدوس بزنجو ملاقات بارے کہا ہے کہ ’’سیاسی لوگوں کے درمیان ملاقاتیں ہونی چاہیئں۔ لیکن وزیراعلیٰ کو بھی مشکل وقت میں ساتھ دینے اور ان کی کشتی ڈوبنے سے بچانے والوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ کہیں انہیں کشتی سے اتار کر وہ خود اپنی کشتی میں سوراخ نہ کر بیٹھیں۔ ‘‘سردار اختر مینگل کے یہ جملے ان کی قدوس سے خفگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ان ہی دنوں سردار اختر مینگل ،چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی بھی ملے ۔سردار اختر مینگل نے یہ باتیں تب کیں جب29ستمبر کو عبدلقدوس بزنجو نے جام کمال خان کی رہائشگاہ جاکر ملاقات کی۔ یہ ملاقات عبدالقدوس بزنجو کی بارہا خواہش یا جتن کے بعد ہوئی ہے۔ جہاں عبدالقدوس بزنجو نے جام کمال خان سے ضلع لسبیلہ کی دو اضلاع میں تقسیم کے نوٹیفکیشن پر معذرت بھی کرلی ہے۔ جام کمال خان عالیانی اور عبدالقدوس بزنجو کے درمیان ملاقات البتہ بری سیاست کا مظہر سمجھی جاتی ہے۔جام کمال حکومت اور حزب اختلاف کے منظر نامے کو صوبے کے مفاد کے خلاف گردانتے ہیں۔ جام کمال خان بارے بہر حال اچھی رائے پائی جاتی ہے۔ مگر کیا کہا جائے کہ سیاسی قبلہ درست سمت نہیں۔
لسبیلہ سے حب ضلع کے طور پر الگ کیا جانا جام کمال کی سیاسی ضعف کا باعث بنتا۔ بلوچستان میں خصوصاً سیاستدان صوبے کے وسیع مفاد سے زیادہ اپنے آبائی علاقوں اور حلقہ ہائے انتخاب کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ لسبیلہ کی تقسیم کی صورت میں واقعی جام کمال خان کو سیاسی نقصان سے دو چار ہونا پڑتا۔ اس بنا نا معقولیت ان کی سیاسی مجبوری بن گئی ہے۔ اب جام کے ہم خیال اراکین متوقع طور پر کابینہ میں داخل ہوں گے۔ عبدالقدوس بزنجو نے ذات کی نفع کی خاطر بھوتانی برادران یعنی سردار صالح بھوتانی اور ایم این اے اسلم بھوتانی کو پیٹھ دکھائی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے مخالف حلقہ کو راضی کرنے کے بعد شاید عبدالقدوس بزنجو کو جے یو آئی کی ضرورت نہ پڑی ہے۔ مگر عبد القدوس بزنجو کا اضطراب ابھی ختم نہیں ہوا ہے، ہاتھ پیر ماررہے ہیں۔ پھر جاکر اسلام آباد میں دیرے ڈال دیے۔ 3اکتوبر کو اسلام میں سردار اختر مینگل سے ملاقات کرلی ۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بی این پی کے ثناء بلوچ بھی موجود تھے۔ اور اسلام آباد ہی میں جے یوآئی بلوچستان کے امیر وفاقی وزیر مولانا عبد الواسع ملے ہے۔ دراصل بلوچستان کے اندر وزیراعلیٰ کی تبدیلی جمہور عوام کی منشا ہے ۔یقینا گورننس کو ابتری سے بہتری کی پٹری پر لگانا از حد ضروری ہے۔ کہ شفاف سیاست او رشرعی تقاضا بھی یہی ہے۔ چناں چہ اگر جے یو آئی از خود اس تناظر میں کردار کے لیے آگے بڑ ھتی ہے تو اسے عوام میں پسند کیا جائے گا۔ یہی تمنا سردار اختر مینگل کی جماعت سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ بلوچستان کا چہرہ مسخ ہوچکا ہے۔ اوچھی سیاست اور مزاج ہر گزرتے دن کے ساتھ جڑی پیوست کررہی ہے۔ شرافت،شائستگی ،صفات اور اخلاقیات پر برائیاں حاوی اور چھائی ہوئی ہیں ۔ ٹرانسفر پوسٹنگ معمول کا سرکاری ضابطہ کی بجائے معاوضہ لے کر کیاجاتا ہے۔ پاک افغان سرحد اور پاک ایران سرحد پر اسمگلنگ میں حکومتی لوگ شامل ہیں۔ بڑی بڑی رقومات ان مدات میں کمائی جاتی ہے۔ ان دھندوں کے لئے لوگ منتخب کئے گئے ہیں ۔سالانہ صوبائی ترقیاتی فنڈز کشید کرنے کے الگ حربے اور کلیے بنائے جاچکے ہیں۔ خالص اور اصولوں پر مبنی سیاست ہوتی تو حکومت زمام کار اسمگلروں ، ٹھیکیداروں اور عوام کا حق فروخت کرنے والوں کے ہاتھ میں نہ ہو تی۔ صوبے کے اندر کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کی تعیناتی کلی طور وزرا ء اور رکن اسمبلی کی خواہش پر ہوتی ہے۔ بلکہ انتظامی افسران ان کے دست نگر بن چکے ہیں۔ چیف سیکریٹری کا کام محض رسمی کارروائی تک محدود ہے ۔
ذرا قانون اور ضابطے کی بات کی جائے تو اگلے لمحے ایس ڈی او بنادیا جاتاہے۔27ستمبر کو ضلع چاغی کے ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ اور اسسٹنٹ کمشنر عصمت اللہ کی معطلی تازہ مثال ہے ۔ معطلی کا نو ٹیفیکیشن چیف سیکریٹری نے جاری کیا۔ یقینا ان سے جاری کروایا گیا ہے۔یہ قضیہ دانشمندی سے حل کرنے کا متقاضی تھا، مگر عجلت کی گئی ۔ قصہ یوں ہے کہ 2ستمبر کو پاک ایران تفتان سرحد کے راہدی گیٹ پر ضلعی انتظامیہ کے افسران اور لیویز اہلکاروں نے راہداری گیٹ کے تالے توڑ کر ریلوے آفیسر کو ایران جانے دیا تھا۔ اس پر وہاں تعینات فورسز نے چیف سیکریٹری سے آفیسران کے خلاف کارروائی کا کہا۔ چیف سیکریٹری نے چیئرمین وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم عبدالصبور کاکڑ اور ممبر سید ظفر بخاری کو خصوصی طیارے کے ذریعے تفتان بھیجا۔ ٹیم نے بیانات سنے، موقع کا جائزہ لیا۔ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو بھی سنا ۔مگر سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی ان افسران کو معطل کردیا گیا۔ ریلوے افسر ایران سے سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سامان ٹرین کے ذریعے پاکستان پہنچانے کے سلسلے میں ایرانی حکام سے مشاورت کے لیے ایران جارہے تھے۔ سرحد کے اس پر ایرانی حکام انتظار میں کھڑے تھے۔ اس ملاقات کا فیصلہ 14ستمبر کو این ڈی ایم اے کی جانب سے آن لائن اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اس مقصد کی خاطر ریلوے آفسر کو ریلوے ایران جانے کی راہداری دی گئی تھی۔ راہداری دینے کا اختیار دراصل ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو حاصل ہے ۔اور راہداری گیٹ کا انتظام و انصرام بھی ضلعی انتظامیہ کے فرائض میں شامل ہے۔ دراصل یہ رویے بیورو کریسی کی بے وقعتی پر منتج ہورہے ہیں۔ سرکار ی امور متاثر ہورہے ہیں۔انتظامی افسران کا مورال پست ہوا ہے ۔وہ خود کو پابند اور اسیر سمجھتے ہیں۔ ایسی فضاء میں صوبہ مزید گراوٹ کا شکار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر