... loading ...
آج کل عالمی ذرائع ابلاغ میں سب سے زیادہ یہ خبر موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت پولیس کی حراست میں ہوئی تھی یا اُن کا انتقال حرکت قلب بند ہونے سے ہواتھا۔ عالمی تجزیہ کاروں کے نزدیک مہسا امینی کی موت ایک ایساگنجلک معمہ بن چکی ہے ،جسے وہ جتنا حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ معمہ اُتنا ہی پیچیدہ اور لاینحل بنتا جاتاہے ۔ مہسا امینی کے لواحقین کا اصرار ہے کہ اُن کی معصوم صاحب زادی ایرانی پولیس کے معاندانہ جبر و استبداد شکار ہوئی ہے ۔ جبکہ ایرانی حکومت مہسا امینی کی ہلاکت کو ایک طبعی موت ثابت کرنے پر بضد ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسے کا اس قدر فقدان ہے کہ کوئی بھی فریق ،دوسرے فریق کی جانب سے پیش کردہ کسی بھی نوعیت کی دلیل یا شہادت کو قبول کرنے سے یکسر انکاری نظر آتا ہے ۔ جب فریقین کے مابین ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی ایسی نازک صورت حال ہو تو تب یہی کہا جاسکتاہے کہ شاید پورا اور مکمل سچ کسی بھی فریق کے پاس موجود نہیں ہے ،بلکہ سچائی کہیں درمیان میںکھو گئی ہے ۔جس کی کھوج لگانے کے لیئے ازحد ضروری ہے کہ ہم فریقین کے بیانات ،الزامات اور دعووں کا خوب اچھی طرح اور پوری غیر جانب داری سے محاکمہ کریں۔تب ہی جا کر ہم مہسا امینی کی مبینہ ہلاکت یا طبعی موت کی اُلجھی گتھی کو سلجھا سکیں گے ۔
مہسا امینی کی موت کے معمہ کو حل کرنا اس لیے بھی ضرور ی ہے کہ اُن کی ہلاکت کی خبر نے پورے ایران کے نظم و نسق کو تہہ بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ یعنی وہ ایرانی معاشرہ جو چند ہفتوں تک دنیا کو انتہائی پرسکون دکھائی دیتا تھا ،گزشتہ دوہفتوں سے سخت سیاسی ہیجان خیز حالات و واقعات کے مقابل ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ اگر مہساامینی کے الم ناک موت کے نتیجہ میں پیدا ہونے ہنگامہ خیز حالات کو جلد ازجلد قابو میں نہ کیا گیا تو ایرانی معاشرہ میں بھڑکنے والے احتجاجی آگ کے شعلے دیگر دنیا ، خاص طور پر ایران کے پڑوسی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے ۔یاد رہے کہ ایرانی پولیس کی مبینہ حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے دو ہفتے بعد بھی ایران بھر میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور اِن مظاہروں میں ہرگزرتے دن کے ساتھ تشدد کا رنگ نمایاں ہوتا جارہا ہے ۔اس وقت تک مظاہرے ایران کے 31 صوبوں تک پھیل چکے ہیں ۔نیز ایرانی حکام کی جانب سے اِن مظاہروں میں کم ازکم 35 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق بھی کی جاچکی ہے ۔
واضح رہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ بعض مبینہ خبروں کے مطابق مہسا امینی کو 13ستمبر کے دن تہران میں اخلاقی پولیس،جسے گشتِ ارشاد کہا جاتاہے کی جانب سے اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا ،جب اُن کے سر کے ا سکارف سے کچھ بال نظر آ رہے تھے ۔مہساامینی کو حجاب پہننے سے متعلق قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ پولیس حراست کے دوران مبینہ تشدد کے بعد دل کا دورہ پڑنے کے باعث کوما میں چلی گئی تھیں اور تین دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گئی تھیں۔مہسا امینی کی موت کے خبر ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر چلنے کے بعد سے ایران بھر میں ایرانی خواتین کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا تھا، جو تاحال جاری ہے ۔ڈیجیٹل میڈیا ایپلی کیشن، ٹک ٹاک پر خواتین کی جانب سے ایسی ویڈیوز بھی پوسٹ کی گئی ہیں جس میں انہوں نے اپنے بال کاٹ کر احتجاج کیا ہے۔ نیز برطانوی خبررساں ادارے نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ کردستان کے علاقے صاقیز میں مہسا امینی کے جنازے میں شامل خواتین نے اپنے سر سے اسکارف اُتار دیا اور ظالم کو موت دو کی صدائیں بلند کیں۔
دوسری جانب ایرانی حکومت کا موقف ہے کہ مہسا امینی پر کسی بھی قسم کے تشدد ہونے کے شواہد موجود نہیں ملے ہیں اور انھیں بس اچانک دل کا دورہ پڑا تھا ۔ نیز ایرانی وزیرِ داخلہ احمد واحدی کا کہنا ہے کہمہسا امینی پر ایرانی پولیس کی جانب سے تشدد نہیں کیا گیا تھا۔ہمیں تما م خفیہ اداروں کی رپورٹس موصول ہوچکی ہیں ، عینی شاہدین کے انٹرویو کیے گئے ہیں اور ویڈیوز کا جائزہ لیا گیا، فرانزک تجزیے بھی حاصل کیے گئے جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ان پر تشدد نہیں کیا گیابلکہ اِن کی موت دل کا دورہ پڑنے کے باعث بالکل طبعی انداز میں ہوئی ہے ۔ جبکہ ایرانی صدر،ابراہیم رئیسی نے ان مظاہروں کوفسادات کا نام دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو ایسے افراد کے ساتھ فیصلہ کن انداز میں نمٹنا ہو گا جو ملک کی سکیورٹی اور امن کو نقصان پہنچاتے ہیں۔سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا جاچکاہے ۔
یاد رہے کہ مہسا امینی، جنہیں اُن کے قریبی دوست ،احباب کے درمیان جینا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، ایران کے صوبہ کردستان کے مغربی شہر ساقیز سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ نوجوان خاتون تھی اور اُنہیں ایرانی اخلاقی پولیس گشتِ ارشاد نے ملک میں حکومت کی جانب سے نافذ العمل ایرانی ڈریس کوڈ کے قانون کی مبینہ خلاف ورزی کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ تاہم، مہسا امینی کی والدہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی بیٹی نے حجاب کے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی تھی ،کیونکہ جس وقت میری بیٹی کو ایرانی پولیس گشت ارشاد نے گرفتار کیا اُس وقت مہسا امینی نے لمبا اور ڈھیلا لباس پہن رکھا تھا۔
یہاں ہمارے وہ قارئین جنہوں نے ایرانی گشتِ ارشاد نامی پولیس کا نام پہلی با ر سُنا ہے ۔ اُن کی معلومات میں اضافہ کے لیے عرض ہے کہ ایران میں خواتین سپاہیوں پر مشتمل گشت ارشاد پولیس کی خصوصی یونٹ ملک کے چپے چپے میں قائم ہیں ۔ ایرانی حکومت کی جانب گشتِ ارشاد پولیس کو ملک بھر میں اسلامی اخلاقیات کے احترام کو یقینی بنانے اور‘ ‘غیر مناسب لباس پہن کر سرعام بازاورں میں پھرنے والی خواتین کو حراست میں لینے کا کام سونپا گیا ہے ۔دراصل،ایرانی قانون کے تحت، جو اسلامی شریعت کی ایرانی تشریح پر مبنی ہے ، خواتین کو اپنے بالوں کو حجاب (سر پر ا سکارف) سے ڈھانپنا چاہیے اور اُن کے لیے عوامی مقامات پر ایسا چست لباس پہننے پر سخت پابندی ہے ،جسے زیب تن کرنے کے بعد جسم کے خدو خال نمایاں ہونے کا امکان ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1981 تک، ایران میں خواتین اور لڑکیوں کو قانونی طور پر سادہ اسلامی لباس پہننے کی عام اجازت تھی یعنی گھر سے باہر جاتے وقت ہر ایرانی خاتون پر پورے جسم کو ڈھاپنے والی ایک لمبی چادر اوڑھنے اور سر پر ا سکارف پہننا لازم قرار دیا گیا تھا۔تاہم اگر کوئی شخص ایرانی حکومت کا طے کردہ مذکورہ لباس پہننے سے اجتناب کرتا تو اُسے بہرحال اِس جرم کی پاداش میں زیادہ سے زیادہ بس تنبیہ یا وارننگ ہی دی جاسکتی تھی۔مگر 1983 میں ایرانی پارلیمان نے فیصلہ کیا کہ جو خواتین سرعام اپنے بال نہیں ڈھانپتی ہیں، انہیں نہ صرف گرفتار کیا جاسکتاہے بلکہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والی مجرم خواتین کو 74 کوڑوں کی سزا بھی دی جا سکتی ہے ۔یاد رہے کہ گشت ِ ارشاد پولیس کا قیام بھی اسی قانون کانفاذ ملک بھر میں یقینی بنانے کے لیئے کیا گیا تھا۔ چند ماہ قبل، اس قانون میں 60 دن تک قید کی سزا کا اضافہ بھی کیا گیا تھا۔مگر اس قانون کے نفاذ کے بعد بھی ہمیشہ سے ایک اچھی بات یہ دیکھنے میں آتی تھی کہ ایک سال پہلے تک بھی اِس قانون پر زیادہ سختی کے عمل درآمد کرنے سے حتی المقدور اجتناب ہی برتاجاتا تھا۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات ایرانی خواتین، شہروں میں شوخ رنگوں کے ا سکارف میں آدھے سر کے بالوں کو ڈھانپے اور چست لباس پہنے ہوئے بھی نظر آجایا کرتی تھیں۔لیکن گزشتہ برس، ایک سخت گیر عالم کی شناخت رکھنے والے ابرہیم رئیسی،ایران کے نئے صدر منتخب ہوجانے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوگئے اور ابراہیم رئیسی نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی مذکورہ قانون کو مزید موثر بنانے کے لیے 15 اگست کو پابندیوں کی ایک نئی فہرست کو مذکورہ قانون میں شامل کرنے کے حکم پر دستخط کردیئے تھے ۔ نئے قانون میں حجاب کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیئے نگرانی کرنے والے کیمروں کو شامل کیا گیا تھا تاکہ نقاب نہ کرنے والی خواتین کی نگرانی اور جرمانے کیے جا سکے یا انھیں اخلاقی تربیت کے لیے سرکار ی تربیتی گاہوں میں بھیجا جا سکے ۔نیز نئے قانون میں یہ شق بھی شامل کی گئی تھی کہ کسی بھی ایرانی خاتون کو جو آن لائن حجاب کے قوانین کے خلاف سوال یا مواد پوسٹ کرے گی تو اُسے بھی گرفتار کیا جاسکے گا۔جبکہ ایک دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ مہسا امینی کی مبینہ ہلاکت ایران دشمن عالمی طاقتوں کی ایک منظم ساز ش ہے ۔اس نقطہ نظر کے حامل افراد اپنے اس موقف کے حق میں دلیل دیتے ہوئے اصرار کر رہے ہیں کہ ایران کی عورتیں، مردوں پر حاوی اور وہاں کا مذہبی طبقہ بھی عورتوں سے دبا ہوا ہے ۔ اس لیے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ وہاں ایک نوجوان خاتوں کو صرف حجاب کی پابندی نہ کرنے پر اس قدر تشدد سے گزارا جائے کہ اُس کی موت واقع ہو جائے ، قطعی طور پر ایک لغو اور فضول الزام ہے ۔
اس حوالے سے ایک مہسا امینی کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا میں شیئر کی جارہی ہے ۔ جس میں دیکھا جاسکتاہے کہ خواتین کا کوئی تربیتی سیشن ہے ، جس میں مہسا امینی بغیر کسی کی حراست میں آتے دکھائی دیتی ہے ۔پھر وہ اپنی ایک نشست پر بیٹھتی ہے اور پھر جلد ہی اُٹھ کر ایک دوسری عورت کے پاس کھڑی ہوکر اُسے کچھ بتاتی ہے ۔ وہ اُس کے ایک کپڑے کو پکڑ کر کچھ کہتی ہے اور ایک طرف ہوجاتی ہے ۔ اسی لمحے مہسا امینی نیچے گر جاتی ہے ،جسے وہی عورت اُٹھانے کی کوشش کرتی ہے ۔ اس کے بعد اُسے فوراً ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال پہنچایا جاتاہے ۔ جہاں اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔ مذکورہ ویڈیو کے اختتام پر اسے پوسٹ کرنے والے کی جانب سے اِس ویڈیوکو ملاحظہ کرنے والے
سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ اس ویڈیو میں مہسا امینی کی کون سی ہتک عزت ہوئی ہے ؟ ۔ کون سا تشدد ہوا ہے ؟۔پوری ویڈیو میں کوئی مرد نظر نہیں آرہا اور نہ ہی کہیں پولیس دکھائی دے رہی ہے ۔اگر یہ ویڈیو بالکل حقیقی ہے تو پھر واقعی دیکھنے والے کو ویڈیو پوسٹ کرنے والے کا سوالات اور ایرانی حکومت کا موقف بالکل درست لگنے لگتاہے ۔لیکن یہاں دو سوال ایسے ہیں جن کا فی الحال ایرانی حکومت کے پاس بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے ۔پہلا سوال یہ کہ مہسا امینی کے ساتھ اگر صرف وہی کچھ ہوا تھا ،جو مذکورہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے تو پھر یہ ویڈیو ملاحظہ کرنے کے بعد ایرانی عوام کیوں مطمئن نہیں ہوپارہے ؟ اور آخر کیوں ہر گزرتے دن کے ساتھ احتجاجی مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے ؟۔ جبکہ دوسرا سوال یہ ہے کہ گشتِ ارشاد نامی خصوصی پولیس کا ایک سپاہی آخر کس طرح عوامی مقامات پر چلتی پھرتی خاتون کے لباس کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا تعین کرسکتا ہے ۔بادی النظر میں گشت ِ ارشاد نامی پولیس کا وجود ہی مہسا امینی کی موت کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کا سب سے بڑا سبب ہے ۔ ہمارے خیال میں ایرانی مہسا امینی کی حمایت میں کم اور گشت ارشاد پولیس فورس کی مخالفت میں زیادہ احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭