وجود

... loading ...

وجود

کراچی ماسٹر پلان 2047

منگل 27 ستمبر 2022 کراچی ماسٹر پلان 2047

تین برس ،قبل عدالت عظمی نے کراچی رجسٹری میں شہر کراچی میں سرکاری زمین کے مبینہ غیر قانونی استعمال اور تجاوزات سے متعلقہ ایک اہم ترین مقدمہ کی سماعت کے دوران اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان، نے دنیا کے ساتویں بڑے شہر، کراچی کو اس کے اصل’’ ماسٹر پلان ‘‘کے مطابق بحال کرنے کے لیئے سندھ حکومت کو صوبائی کابینہ کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی ۔ عدالت عظمی کی واضح ہدایت کی روشنی میں سندھ حکومت نے کراچی کے لیئے ماسٹر پلان ترتیب دینے کے لیئے سندھ کابینہ نے مختلف اوقات میں کئی اجلاس منعقد کیے اور بالآخر آج کئی برسوں کے صبر آزما انتظار ے بعد خبر آئی ہی ہے حکومت سندھ، نے کراچی ماسٹر پلان 2047 تیار کرنے کا باضابطہ اعلان کردیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ سندھ حکومت کو کراچی شہر کے لئے ماسٹر پلان تیار کرنے کا سرکاری اعلان کے لیئے تین برس تک انتظار کرنا پڑا؟۔
دراصل، سندھ حکومت ماہرین کی معاونت سے ایک ایسا جامع ’’ماسٹر پلان ‘‘تشکیل دینا چاہتی تھی کہ جو ہر طبقہ فکر کے لیے قابل ِ قبول ہو ،خاص طور پر عدالت عالیہ میں ماسٹر پلان پر کوئی نقطہ اعتراض نہ اُٹھایا جاسکے۔ بہرحال دیر آید ،درست آید کے مصداق حکومت سندھ نے کراچی شہر کے ماسٹر پلا ن کی مدت کا تعین قیام پاکستان کی تاریخ سے کیا ہے اور اس فقید المثال منصوبہ کی پی سی ٹو کو جلد ازجلد عملی جامہ پہنانے کے لیے آٹھ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ جس کے چیئر مین اور ارکان میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی،کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی،ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ ،ایل ڈی اے،ایم ڈی اے سمیت دیگر اداروں سے بھی نمائندہ افراد کو شامل کیاگیا ہے۔ رواں ہفتہ ’’ماسٹرپلان2047 ‘‘ترتیب و تسویب کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہو ا ، جس میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سینئر اور غیرملکی اداروں کے ساتھ کام کا وسیع تجربہ رکھنے وا لے افسر نعیم وحید کو پروجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا ہے۔
کمیٹی کے مذکورہ اجلاس میں کئے جانے والے فیصلے کے مطابق بہت جلد کنسلٹنٹ ہائر کرنے کے لیے ٹی او آر بنائے جا ئیں گے اور کنسلٹنٹ منتخب ہوتے ہی اس منصوبہ کی فزیبلٹی اور ڈیزائن کی تیاری شروع ہو جائے گی۔ کراچی ماسٹر پلا ن2047 کی تیاری پر لاگت کا تخمینہ ایک ارب 69 کروڑ روپے لگایاگیا ہے۔ جو کلک کی زیرنگرانی ورلڈ بنک فراہم کرے گا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی کے ماسٹر پلان 2047 پر کام کا آغاز کر کے کراچی کے ناقص انفرااسٹرکچر کو مکمل طور پر بین الاقوامی معیار کے مطابق جدید ترین طرز پر بنانے اپنا پہلا انتظامی قدم بڑھا دیا ہے۔
یادر ہے کہ کراچی عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے جبکہ شہر کو ناقص انفرااسٹرکچر، پانی، گیس اور بجلی کی قلت اور سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے اَن گنت مسائل کا سامنا ہے۔خاص طور پر پاکستان کا سب سے بڑا شہر کسی بھی اچانک پیش آمدہ حادثہ یا قدرتی افتاد سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر کسی بھی کثیر المنزلہ عمارت میں آگ لگنے کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسنارکل تک نہیں ہے۔صرف اِس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ شہر کے انتظامی کس درجہ بدحالی اور بدنظمی کا شکار ہیں ۔لہٰذا ،ماہرین کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کراچی کو ایک بامقصد اور نتیجہ خیز ماسٹر پلان کی اشد اور فوری ضرورت ہے ۔لیکن ماسٹر پلان بھی ایسا جسے جلد از جلد وضع کیا جائے کیونکہ ہم کئی دہائیوں سے ماسٹر پلان کے بارے میں سن تو بہت رہے ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے کچھ دیکھ نہیں سکے۔
واضح رہے کہ ماسٹر پلان ایک لانگ ٹرم پلاننگ ڈاکومنٹ ہوتا ہے جس کی مدد سے ترقیاتی ادارے صفحہ قرطاس پر شہر کے مستقبل کی ایک تصویر کھینچتے ہیں۔ ماسٹر پلان کو ایک لانگ ٹرم دستاویز یا ڈاکومنٹ اس لیے کہا جاتاہے کہ اس میں بوقت ضرورت ترامیم وتنسیخ بھی کی جاتی ہیں اور بدلتے وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق اِس میں تغیر و تبدیلی کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے دنیا کے کسی بھی بڑے شہرکا ماسٹر پلان ایک بار ہی بنتا ہے اور بعد ازاں اس میں ہی اضافہ جات کیے جاتے ہیں۔ماسٹر پلان کسی بھی شہر کے سماجی و معاشی ماحول شہریوں کے لیے سازگار بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ماسٹر پلان ایک کثیر المقاصد دستاویز ہوتی ہے، جس کے متعدد حصے ہوتے ہیں۔ کسی بھی شہر کا ماسٹر پلان ہو، اُس کا آغاز فیزیبیلٹی اسٹڈی جسے عرفِ عام میں فیزیبلٹی رپورٹ بھی کہا جاتاہے، سے ہوتا ہے۔ ہر ماسٹر پلان میں دستیاب وسائل کے زیادہ سے زیادہ بہتر استعمال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تاکہ شہر کے جغرافیائی، تاریخی اور ماحولیاتی پس منظر کو ملحوزِ خاطر رکھتے ہوئے شہریوں کو تمام ضروری سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کراچی شہر کے لیے کئی ماسٹر پلان بنائے جاچکے ہیں ، لیکن شہر کے لیے بنائے گئے کسی ایک بھی ماسٹر پلان پر عمل نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر 1947ء میں جب یہ شہر پاکستان کا درالحکومت بنا تو اس کے انتظامی کاموں کو سائنسی خطوط پر استوار کرنے کی خاطر 1951ء میں’ ’گریٹر کراچی پلان‘‘ مرتب کیا گیا۔ اس ماسٹر پلان میں ، شہر کو درپیش ٹریفک مسائل کے مستقل حل کے لیے گڈاپ سے 20 کلومیٹر دور کیپیٹل کامپلیکس بنانے کی تجویر دی گئی تھی ۔مگر جب دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ ماسٹر پلان بڑی حد تک غیر مؤثر ہو گیا۔نیز 1958ء میں گریٹر کراچی ریسیٹل منٹ پلان مرتب کیا گیا، جس کا بنیادی مقصد شہر کی بڑھتی ہوئی آباد ی کو رہائشی سہولیات فراہم کرنا تھا۔مگر یہ پلان سیاست کی نذر ہوگیا۔ بعد ازاں1973ء میں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ماسٹر پلان محکمے نے اعداد شمار اکھٹا کرنے اور تجزیوں کے ایک طویل مرحلے کے بعد ایک جامع ترقیاتی پلان مرتب کیا تھا، لیکن یہ بھی فائلوں کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کراچی ڈویلمپنٹ اتھارٹی نے ہی 1986 تا2000کے لیے اگلا ماسٹر پلان بھی مرتب کیا جس میں قومی و بین الاقوامی ماہرین کی رائے کو بھی شامل رکھا گیا۔ مگر صد افسوس کہ اِس پلان پر بھی کبھی عمل کی نوبت نہ آسکی۔آخری ماسٹر پلان 2007 میں سابق ناظم شہر ، مصطفی کمال کے دور میں منظور کیا گیا تھا۔جس کی مدت 2020 تک تھی ، بظاہر بلدیہ عظمی کراچی نے اس پلان پر عمل درآمد کرنا شروع تو کیا، مگر پھر کچھ سالوں بعد صوبائی حکومت کی جانب سے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے پلان کے خاتمے کے ساتھ ہی ماسٹر پلان بھی اپنی موت آپ مرگیا۔شہر کراچی کے لیے بنائے گئے ماسٹر پلانز کی الم ناک داستان پڑ ھ کر آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ شہر کراچی کے لیے ماسٹر پلان بنانا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اصل بڑی بات یا کارنامہ تو یہ ہے کہ کراچی کے لیے بنائے گئے ماسٹر پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔یہاں سندھ حکومت کا سب سے بڑا امتحان بھی یہ ہی ہوگا کہ وہ ماسٹر پلان 2047 کے مطابق شہرکراچی کے انتظامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرپاتی ہے یا نہیں ؟۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر