... loading ...
تین برس ،قبل عدالت عظمی نے کراچی رجسٹری میں شہر کراچی میں سرکاری زمین کے مبینہ غیر قانونی استعمال اور تجاوزات سے متعلقہ ایک اہم ترین مقدمہ کی سماعت کے دوران اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان، نے دنیا کے ساتویں بڑے شہر، کراچی کو اس کے اصل’’ ماسٹر پلان ‘‘کے مطابق بحال کرنے کے لیئے سندھ حکومت کو صوبائی کابینہ کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی ۔ عدالت عظمی کی واضح ہدایت کی روشنی میں سندھ حکومت نے کراچی کے لیئے ماسٹر پلان ترتیب دینے کے لیئے سندھ کابینہ نے مختلف اوقات میں کئی اجلاس منعقد کیے اور بالآخر آج کئی برسوں کے صبر آزما انتظار ے بعد خبر آئی ہی ہے حکومت سندھ، نے کراچی ماسٹر پلان 2047 تیار کرنے کا باضابطہ اعلان کردیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ سندھ حکومت کو کراچی شہر کے لئے ماسٹر پلان تیار کرنے کا سرکاری اعلان کے لیئے تین برس تک انتظار کرنا پڑا؟۔
دراصل، سندھ حکومت ماہرین کی معاونت سے ایک ایسا جامع ’’ماسٹر پلان ‘‘تشکیل دینا چاہتی تھی کہ جو ہر طبقہ فکر کے لیے قابل ِ قبول ہو ،خاص طور پر عدالت عالیہ میں ماسٹر پلان پر کوئی نقطہ اعتراض نہ اُٹھایا جاسکے۔ بہرحال دیر آید ،درست آید کے مصداق حکومت سندھ نے کراچی شہر کے ماسٹر پلا ن کی مدت کا تعین قیام پاکستان کی تاریخ سے کیا ہے اور اس فقید المثال منصوبہ کی پی سی ٹو کو جلد ازجلد عملی جامہ پہنانے کے لیے آٹھ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ جس کے چیئر مین اور ارکان میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی،کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی،ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ ،ایل ڈی اے،ایم ڈی اے سمیت دیگر اداروں سے بھی نمائندہ افراد کو شامل کیاگیا ہے۔ رواں ہفتہ ’’ماسٹرپلان2047 ‘‘ترتیب و تسویب کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہو ا ، جس میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سینئر اور غیرملکی اداروں کے ساتھ کام کا وسیع تجربہ رکھنے وا لے افسر نعیم وحید کو پروجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا ہے۔
کمیٹی کے مذکورہ اجلاس میں کئے جانے والے فیصلے کے مطابق بہت جلد کنسلٹنٹ ہائر کرنے کے لیے ٹی او آر بنائے جا ئیں گے اور کنسلٹنٹ منتخب ہوتے ہی اس منصوبہ کی فزیبلٹی اور ڈیزائن کی تیاری شروع ہو جائے گی۔ کراچی ماسٹر پلا ن2047 کی تیاری پر لاگت کا تخمینہ ایک ارب 69 کروڑ روپے لگایاگیا ہے۔ جو کلک کی زیرنگرانی ورلڈ بنک فراہم کرے گا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی کے ماسٹر پلان 2047 پر کام کا آغاز کر کے کراچی کے ناقص انفرااسٹرکچر کو مکمل طور پر بین الاقوامی معیار کے مطابق جدید ترین طرز پر بنانے اپنا پہلا انتظامی قدم بڑھا دیا ہے۔
یادر ہے کہ کراچی عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے جبکہ شہر کو ناقص انفرااسٹرکچر، پانی، گیس اور بجلی کی قلت اور سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے اَن گنت مسائل کا سامنا ہے۔خاص طور پر پاکستان کا سب سے بڑا شہر کسی بھی اچانک پیش آمدہ حادثہ یا قدرتی افتاد سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر کسی بھی کثیر المنزلہ عمارت میں آگ لگنے کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسنارکل تک نہیں ہے۔صرف اِس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ شہر کے انتظامی کس درجہ بدحالی اور بدنظمی کا شکار ہیں ۔لہٰذا ،ماہرین کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کراچی کو ایک بامقصد اور نتیجہ خیز ماسٹر پلان کی اشد اور فوری ضرورت ہے ۔لیکن ماسٹر پلان بھی ایسا جسے جلد از جلد وضع کیا جائے کیونکہ ہم کئی دہائیوں سے ماسٹر پلان کے بارے میں سن تو بہت رہے ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے کچھ دیکھ نہیں سکے۔
واضح رہے کہ ماسٹر پلان ایک لانگ ٹرم پلاننگ ڈاکومنٹ ہوتا ہے جس کی مدد سے ترقیاتی ادارے صفحہ قرطاس پر شہر کے مستقبل کی ایک تصویر کھینچتے ہیں۔ ماسٹر پلان کو ایک لانگ ٹرم دستاویز یا ڈاکومنٹ اس لیے کہا جاتاہے کہ اس میں بوقت ضرورت ترامیم وتنسیخ بھی کی جاتی ہیں اور بدلتے وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق اِس میں تغیر و تبدیلی کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے دنیا کے کسی بھی بڑے شہرکا ماسٹر پلان ایک بار ہی بنتا ہے اور بعد ازاں اس میں ہی اضافہ جات کیے جاتے ہیں۔ماسٹر پلان کسی بھی شہر کے سماجی و معاشی ماحول شہریوں کے لیے سازگار بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ماسٹر پلان ایک کثیر المقاصد دستاویز ہوتی ہے، جس کے متعدد حصے ہوتے ہیں۔ کسی بھی شہر کا ماسٹر پلان ہو، اُس کا آغاز فیزیبیلٹی اسٹڈی جسے عرفِ عام میں فیزیبلٹی رپورٹ بھی کہا جاتاہے، سے ہوتا ہے۔ ہر ماسٹر پلان میں دستیاب وسائل کے زیادہ سے زیادہ بہتر استعمال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تاکہ شہر کے جغرافیائی، تاریخی اور ماحولیاتی پس منظر کو ملحوزِ خاطر رکھتے ہوئے شہریوں کو تمام ضروری سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کراچی شہر کے لیے کئی ماسٹر پلان بنائے جاچکے ہیں ، لیکن شہر کے لیے بنائے گئے کسی ایک بھی ماسٹر پلان پر عمل نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر 1947ء میں جب یہ شہر پاکستان کا درالحکومت بنا تو اس کے انتظامی کاموں کو سائنسی خطوط پر استوار کرنے کی خاطر 1951ء میں’ ’گریٹر کراچی پلان‘‘ مرتب کیا گیا۔ اس ماسٹر پلان میں ، شہر کو درپیش ٹریفک مسائل کے مستقل حل کے لیے گڈاپ سے 20 کلومیٹر دور کیپیٹل کامپلیکس بنانے کی تجویر دی گئی تھی ۔مگر جب دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ ماسٹر پلان بڑی حد تک غیر مؤثر ہو گیا۔نیز 1958ء میں گریٹر کراچی ریسیٹل منٹ پلان مرتب کیا گیا، جس کا بنیادی مقصد شہر کی بڑھتی ہوئی آباد ی کو رہائشی سہولیات فراہم کرنا تھا۔مگر یہ پلان سیاست کی نذر ہوگیا۔ بعد ازاں1973ء میں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ماسٹر پلان محکمے نے اعداد شمار اکھٹا کرنے اور تجزیوں کے ایک طویل مرحلے کے بعد ایک جامع ترقیاتی پلان مرتب کیا تھا، لیکن یہ بھی فائلوں کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کراچی ڈویلمپنٹ اتھارٹی نے ہی 1986 تا2000کے لیے اگلا ماسٹر پلان بھی مرتب کیا جس میں قومی و بین الاقوامی ماہرین کی رائے کو بھی شامل رکھا گیا۔ مگر صد افسوس کہ اِس پلان پر بھی کبھی عمل کی نوبت نہ آسکی۔آخری ماسٹر پلان 2007 میں سابق ناظم شہر ، مصطفی کمال کے دور میں منظور کیا گیا تھا۔جس کی مدت 2020 تک تھی ، بظاہر بلدیہ عظمی کراچی نے اس پلان پر عمل درآمد کرنا شروع تو کیا، مگر پھر کچھ سالوں بعد صوبائی حکومت کی جانب سے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے پلان کے خاتمے کے ساتھ ہی ماسٹر پلان بھی اپنی موت آپ مرگیا۔شہر کراچی کے لیے بنائے گئے ماسٹر پلانز کی الم ناک داستان پڑ ھ کر آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ شہر کراچی کے لیے ماسٹر پلان بنانا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اصل بڑی بات یا کارنامہ تو یہ ہے کہ کراچی کے لیے بنائے گئے ماسٹر پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔یہاں سندھ حکومت کا سب سے بڑا امتحان بھی یہ ہی ہوگا کہ وہ ماسٹر پلان 2047 کے مطابق شہرکراچی کے انتظامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرپاتی ہے یا نہیں ؟۔