... loading ...
طاقتور ممالک اپنے مفادکو مدِ نظر رکھ کر تنازعات ختم کراتے ہیں عالمی امن کی راہ میں خودغرضی پر مبنی یہ رویہ بڑی رکاوٹ ہے کشمیر،شام اور میانمارجیسے مسائل اسی بناپر حل نہیں ہورہے سرد جنگ کے دور میں امریکہ کا مدِ مقابل روس تھا پھر گورباچوف نے دنیا کو جنگ کے خوف سے آزاد کرانے کا فیصلہ کیا اُن کے فیصلے سے دنیا کو جنگ کے خوف سے آزادی نہیں مل سکی اورسرد جنگ کے خاتمے کے باوجود آج بھی دنیاکو جنگ و جدل کے روح فرساواقعات کا سامناہے البتہ گوربا چوف کے فیصلے سے روس کے حصے بخرے ضرور ہوگئے آج روس کے گردونواح کا علاقہ بدترین بدامنی کا شکار ہے وسائل سے مالا مال یہ ریاستیں کسی بیرونی طاقت سے نبردآزمانہیں بلکہ ایک دوسرے کوتباہ کررہی ہیں حالت یہ ہے کہ لڑائی اگر ایک علاقے میں رُکتی ہے تو دوسرے میں شروع ہوجاتی ہے اور بظاہردنیا یہ لڑائیاںختم کرانے میں سنجیدہ نظرنہیں آتیں شایداِن لڑائیوں کے نقصانات کااقوامِ عالم کودرست اندازہ نہیں ممکن ہے یاپھر وہ دانستہ طورپر روس سے آزادی حاصل کرنے والی ریاستوں کو اِس حدتک کمزور اور لاغر کردینا چاہتی ہیں کہ وہ اپنے وسائل کے استعمال سے بھی قاصر ہوجائیں دوم یہ خطہ غربت و افلاس کااِتنا بڑامرکز بن جائے کہ کسی کی خطے میں دلچسپی ہی نہ رہے مگر یہ صحت مندانہ نہیں بیمارسوچ ہے کیونکہ روس اور اُس کاقُرب وجوارجوہری ہتھیاروں کے ذخائر رکھنے کے ساتھ ساتھ خوراک کی پیداوار کے حوالے سے بھی نمایاں مقام کاحامل ہے حالیہ شورش نے خوراک کا عالمی بحران شدیدترکردیاہے اگر جلد حل تلاش کرنے اور دیرپا امن قائم کرنے کا فرض ادا نہیں کیا جاتا تو بھوک و افلاس کے سائے مزیدگہرے ہو تے جائیں گے دیرپا امن کے لیے لازم ہے کہ خودغرضی پر مبنی رویہ بالائے طاق رکھ کرامن کے لیے کام کیاجائے نیز امریکہ اپنی حریف ریاستوں کوعبرت کا نشان بنانے کی پالیسی پر نظرثانی کرے۔
آرمینیا اور آزربائیجان ،تاجکستان اور کرغیزستان کے علاوہ روس اور یوکرین میں وقفے وقفے سے فوجی جھڑپیں جاری ہیں ابھی چند ہفتے پیشتر ہی قازقستان میں ہونے والے خون ریز ہنگاموں نے ریاست کی بنیادیں ہلادی تھیں مگر سوائے روس کے دیگر اقوام نے امن لانے امن قائم کرنے میں رتی بھر دلچسپی نہیں لی آرمینیا ،آزربائیجان اور تاجکستان،کرغیزستان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور تصفیہ طلب مسائل کو گفت وشنید سے حل کرنے میں روسی صدر ولادیمیرپوٹن نے جتنی سُرعت کا مظاہرہ کیا وہ جذبہ یا سوچ دیگر ریاستوں کے رویے میں ناپیدہے مگر یوکرین تنازع کی بات ہوتو روس بھی امن بحال کرنے میں پس و پیش سے کام لیتاہے اسی لیے پوٹن کوکچھ حلقے امن پسند تصور نہیں کرتے جب سے انھوں نے چین سے ملکر معاشی و تجارتی سرگرمیوں کی بات کی ہے امریکا کے مزید معتوب و ناپسندید ہ بن گئے ہیں اسی لیے امریکا کی کوشش ہے کہ کسی طرح یوکرین میں روس کو اتنا الجھا دیاجائے کہ افغانستان کی طرح یہاں سے بھی اُسے بھاگنا پڑے کچھ ایسی ہی کیفیت میں وہ خود بھی گزشتہ اگست میں کابل سے نکل چکا ہے یوکرین کوروس کے مقابلے میں جدیدترین ہتھیاروں کی فراہمی میں جتنی دلچسپی اور بے قراری نظر آتی ہے اتنی شدت امن کے اقدامات اُٹھانے میں نظر نہیں آتی بڑے پیمانے پر یوکرین کوامریکی ہتھیاروں کی فراہمی سے روس کو توقع کے مطابق فتوحات نہیں ہو سکیں بلکہ کئی علاقوں سے قدم اُکھڑنے لگے ہیں اسی پسپائی نے اُسے یوکرینی قیادت کو بات چیت کی پیشکش کرنے پرمجبور کیا ہے مگر کچھ حلقے خدشات کا اظہار کررہے ہیں کہ یہ پسپائی اُسے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی طرف لے جا سکتی ہے نیز روسی پیشکش کو قبول کرنے سے امریکاہر ممکن طریقے سے یوکرین کو منع کرسکتاہے حاانکہ دنیا کا مفاد اِس میں ہے کہ نیٹو کے ساتھ ملکر امریکاروس کو نیچا دکھانے کے حربے کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کردے اور امن کے قیام کو ترجیح بنائے ۔
روس کو مغرب میں خطرہ تصور کیا جاتا ہے لیکن اب فوجی خطرے والی بات قصہ پارینہ ہو چکی ویسے بھی خطرے کی نوعیت بدل چکی ہے اگر زیبِ داستاں کے طور پر کچھ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بجائے حقائق کو مدنظر رکھاجائے تو روس مغرب پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا البتہ وہ چاہے تو یوروزون میں خوراک اور توانائی کا بحران پیدا کر نے پر قادرہے اِس وقت مغرب کو توانائی کے ایسے بحران کا سامنا ہے جو ترقی کی رفتارکو متاثرکر رہا ہے جس سے کسادبازاری کابڑھنے کا خدشہ ہے مگر مغربی ممالک خدشات کو اہمیت دینے کو تیار نہیں بلکہ متبادل زرائع سے توانائی کے بحران کی شدت کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں ماہرین یہ بھی خدشہ ظاہرکرنے لگے ہیں کہ دنیا اگر یوکرین میں جاری لڑائی ختم کرانے میں دلچسپی نہیں لیتی توروس زچ ہوکر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی طرف آسکتا ہے بہتر یہی ہے کہ جاری لڑائی کے نقصانات کو امریکااور مغربی ممالک نظر انداز نہ کریں جو ں جوں روس کو سخت مزاحمت کا سامناکرناپڑرہا ہے دنیا میں ایسی قیاس آرائیاں بڑھتی جارہی ہیں کہ جس طرح امریکا نے جاپان پر جوہری بم گرا کر جنگ کے نتائج کو اپنے حق میں کر لیاتھا روس کی طرف سے بھی ایسا ممکن ہے قبل اِس کے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے امن کے لیے فریقین کوفوری طورپر مذاکرات کی میز پر لایا جانا ازحدضروری ہے۔
آرمینیا،آزربائیجان اور تاجکستان ،کرغیزستان میں جاری جھڑپیں روکنا روسی صدرپوٹن کے لیے زیادہ مشکل نہیں بلکہ اُن کی معمولی کاوش سے جھڑپوں کاسلسلہ ختم ہو سکتا ہے مگر دیگر عالمی اقوام کی لاپرواہی،بے حسی و عدم توجہی کی وجہ سے یوکرین بحران طویل ہوتا جارہا ہے عالمی بینک نے حال ہی میں ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق دنیا کی تین بڑی معیشتیں امریکا،چین؎ اور یوروزن تیزی سے سست روی کا شکارہیں اور حالات کوجلد سنبھالا نہ گیا توآمدہ برس دنیاعالمی کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے ایسا خدشہ دیگر عالمی اِداروں کی طرف سے بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ 1970میں تو دنیا کساد بازاری کا شکارضرورہوئی مگر جلد ہی لگنے والے جھٹکے سے سنبھل گئی مگر بڑھتے عالمی تنازعات سے عالمی معیشت سخت بحران کی طرف جاتی نظر آتی ہے کیونکہ صارفین کا اعتماد گزشتہ عالمی کساد بازاری کی بہ نسبت زیادہ تیزی سے گر نے لگاہے حل کے طورپر دنیا بھر کے بینک شرح سود میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے بھی عالمی ترقی کے عمل کی تیزی سے سست ہونے کی نشان دہی کرتے ہوئے اِس رجحان میں مزیدگراوٹ آنے کا امکان ظاہر کیا ہے مگر ماہرین کی طرف سے باربار توجہ دلانے کے باوجود عالمی طاقتیں تنازعات ختم کرانے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہیں روس کوتوڑنے کے باوجود بے اطمنانی کاشکار مغربی ممالک شاید کسادبازاری کا کڑوا گھونٹ پینے کو آمادہ اور توانائی بحران کی سختیاں جھیلنے کو تیار ہیں مگر امن کی روش پر چلنے سے گریزدراصل تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔