وجود

... loading ...

وجود

خوشبو کہاں سے آرہی ہے؟

جمعه 16 ستمبر 2022 خوشبو کہاں سے آرہی ہے؟

 

چوری اور منافع خوری کی عادت پڑ جائے تو پھر اس کا کوئی انت نہیں ہوتا۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، گھر میں کوئی چوری کرنا شروع کردے تو گھر برباد ہوجاتے ہیں، اور معاشرے اگر چوری کی لت میں پڑ جائیں تو قومیں برباد ہوجاتی ہیں۔ سیلاب کیا آیا ، امداد اور امداد جمع کرنے والے، سب ہی نکل آئے، اچھے اور برے ، اچھوں کاذکر کم ہوتا ہے، دیر سے ہوتا ہے، تھوڑا تھوڑا ہوتا ہے، لیکن پھولوں کی خوشبوں کی طرح پھیلتا ہے، سارے باغ میں پھیلی خوشبو بتا دیتی ہے کہ خوشبو کہاں سے آرہی ہے، کونسا خوش رنگ پھول ہے، جس سے سار چمن مہک اٹھا ہے،الخدمت تو پہلے بھی تھی، برسوں سے ہے، 2005 میں بھی تھی، 2010 میں تھی، جب زلزلہ آیا ، تو کیمپ لگائے، امداد دی، میڈیکل کیمپ قائم کیئے، خیمے بستر کھانے، دوائیاں، سب کچھ ہی کیا۔ زلزلے میں جو یتیم ہوئے، انھیں بے سہارا نہ چھوڑا، آغوش جیسا ادارہ بنایا، بچوں کو پڑھایا لکھایا، اب تک یہ کام جاری ہے،پچھلے سیلاب میں بھی خوب امدادی کام کیا، اب بھی کرہے ہیں۔آئندہ بھی کرتے رہیں گے، یہ لوگ خدمت ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ حکمرانی تو ووٹوں اور نوٹوں سے آتی ہے۔ اس لیے اس کا امکان ذرا کم ہی ہے۔ اس کے لیے یو ٹرن لینے پڑتے ہیں، پہلے جنہیں غدار کہتے تھے، انھی پراعتماد کرنا پڑتا ہے۔ پہلے جن پر ووٹ چوری کا الزام لگاتے تھے، انھی کو ووٹ کا رکھوالا بنانا پڑتا ہے، تھوکا ہوا چاٹنا پڑتا ہے، بوٹ صاف کرنے پڑتے ہیں۔ جن کی ایمپائرینگ پر انگلی اٹھائی جاتی تھی، غدار کہا جاتا تھا، ان کو الیکشن تک رہنے دینے اور مدت ملازمت میں توسیع دینے کی سفارش کی جاتی ہے۔
سیلاب پہاڑوں کے رونے سے آتے ہیں اور بستیاں غرق کرجاتے ہیں۔ کچھ سیلاب بد دیانتی، بدنیتی، چوری، مال مفت سمیٹنے کی ہوس، اپنی زمینوں کو بچانے، دوسروں کو ڈبونے، امداد کے لیے جھولی پھیلانے، امدادی سامان کو ذخیرہ کرنے، مسکین کے ہاتھ جھٹکنے، لوگوں کو در بدر کرنے، ترقیاتی کام نہ کرنے، منصوبہ سازی نہ کرنے سے بھی آتے ہیں۔ ایسے سیاست دان اور حکمران ہمیشہ جھولی پھیلائے رہتے ہیں، ان کے کشکول کا سوراخ، اور پیٹ کا دوزخ کھبی نہیں بھرتا، میرے گھر میں تین افراد ڈینگی کا شکار ہیں۔ بخار کی شدت، درد کی اذیت، اور سب سے بڑھ کر مریض کو دیکھ کر انسان جس اذیت کا شکارہوتا ہے،وہ بھی ایک عذاب ہے۔ ڈینگی کا علاج کیا ہے۔ برداشت، پیناڈول کی گولی، اور انتظار، کہ کب یہ اذیت ناک دن ،اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ کیسے ظالم لوگ ہیں۔ پیناڈول جیسی عام سے دوا مارکیٹ سے غائب کردی، گودام بھرے ہوئے ہیں، بلیک میں فروخت کرکے مال کمارہے ہیں، اجناس کے ریٹ بڑھا دیئے، خیموں کے ریٹ بڑھا دیئے، چاول ، آٹا، سبزیاں سب پر منافع کمارہے ہیں، تجوریاں بھر رہے ہیں، اپنی قبروں میں آگ بھر رہے ہیں، اور جہنم میں اپنے حصے کی آگ بھی لے جانے کا سامان کر رہے ہیں۔ سندھ میں بھوک سے بچے مر رہے ہیں، جانوروں کے کھانے کو چارہ نہیں ہے، وہ بھی مر رہے ہیں، بچوں کو دودھ نہیں مل رہا، عورتیں اور بچے بیماریوں کا شکار ہیں، برسوں سے یہاں کبھی مچھر مارنے کا اسپرے نہیں ہوا، کبھی اس کو کام ہی نہیں سمجھا گیا، اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی، اب خیال آرہا ہے، اسپرے مشینیں خریدی جارہی ہیں کروڑوں روپے خرچ کرکے سندھ کے 20 اضلاع میں مشینں آئیں گی۔ کراچی بھی ایک ضلع ہے۔ تین کروڑ آبادی کا شہر، جس کے ایک ضلع کے لیے ایک مشین آئے گی۔ جس سے ڈینگی ختم ہوجائے گا۔ جانے کب نو من تیل ہوگا، اور رادھا ناچے گی۔ انسان تو ان دھوئیں پھینکنے والی مشینوں کے آنے سے پہلے ہی درگور ہوجائیں گے، علاج کا انتظام کیوں نہیں کرتے، لوگوں میں دوائیاں کیوں نہیں تقسیم کرتے، ڈاکٹر اور اسپتالوں کا بندوبست کیوں نہیں کرتے۔ شائد اس میں کوئی کمائی کا چانس نہیں ہے، کون ہے جو وقت گذرنے کے بعد پوچھے گا، کہ یہ مشینیں کب آئیں، کب کب کہاں کہاں اسپرے ہوا، کتنی دوا خرچ ہوئی، سب کچھ دھوئیں میں اڑ جائے گا، اور ساری رقم بھی۔ جیسے کرونا کے زمانے میں ایکسپو سنیٹر میں ایک نمائشی کیمپ لگا کر اربوں روپے کے اخراجات دکھا دیئے گئے۔ انجکشنوں کا حساب کون دیکھے گا، چین پر یہ آفت آئی تو انھوں نے ایسا عظیم الشان اسپتال رات دن میں بنایا کہ دنیا ششدر رہ گئی، قومیں اپنے روئیے سے پہچانی جاتی ہیں۔ اپنے ویڑن سے ان کا نام ہوتا ہے، اور اپنے کام سے وہ دنیا میں قائم و دائم رہتی ہیں،ہمارے پاس نہ منصوبہ ہے، نہ کوئی ویڑن، نہ کوئی ادارہ، نہ کوئی لیڈر شپ۔ سب کچھ باتیں ہیں، ہوائی باتیں، ہوائی منصوبے، سب خاک میں ، ہوا میں اڑ جائیں گے اور ہم پھر ایک نئے سیلاب ، نئے زلزلے، نئی آفت یا کوئی کرائے کی جنگ کا انتظار کررہے ہوں گے کہ کب کوئی ایسا موقع آئے، ہم جھولی پھیلائیں، کشکول اٹھائیں، دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر