... loading ...
قومی ریاستوں میں سیاست کا فعال عامل محض قوت کا حصول ہے ۔ یہی اس کی نظریاتی اور عملی جہت رہتی ہے۔ اگرچہ اس کھیل کو مختلف نظریات سے” اخلاقی” بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگرقومی ریاست میں سیاست، طاقت کے حصول کی چھینا جھپٹی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پچھلے سوا سو برسوں میں دنیا کی صورت گری جو بھی ہوئی ہے، وہ اس فعال عنصر سے ہوئی ہے۔ پاکستان میں مختلف گروہ طاقت کے حصول میں جُتے ہوئے ہیں۔ سیاسی کھیل مستقبل میں حصہ بٹورنے کے لیے جاری ہیں۔ مگر اس کھیل کی بساط بچھانے اور اُٹھانے والے پہلی مرتبہ سنجیدہ نوعیت کے خطرات سے دوچار ہیں۔
قومی سیاست کی بساط پر گرفت رکھنے والے طاقت ور حلقے پہلی مرتبہ کھلے عام موضوع بحث بن چکے ہیں۔ ماضی میں اسی نوع کے کھیل ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ مگر اس دفعہ نیا اگر کچھ ہے تو وہ متوازی ذرائع ابلاغ کی موجودگی کے ساتھ ایک فعال اور مزاحمانہ بحث ہے۔ مقتدر حلقے پہلے قومی سیاست میں نئے عوامل داخل کرنے یا کسی بھی متحرک عامل کو نوچ پھینکنے پر قادر رہے ہیں۔ مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہ قومی سیاست میں اپنی یہ حیثیت مدہم پڑتی دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان اس کی ایک مثال ہے۔عمران خان مختلف مقدمات کا سامنا کررہے ہیں، مگر اُن کے ساتھ جو بحث جڑی ہوئی ہے، وہ یہ کہ کیا وہ نااہل قرار پاسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اُن کی عوامی مقبولیت کا حوالہ سامنے آتا ہے، جس کے ساتھ ایک احتجاجی تحریک کا خدشہ سر اُٹھاتا ہے۔اگر چہ پاکستان میں عوامی مقبولیت کوئی زیادہ قابل انحصار عامل نہیں۔ مگر عمران خان کی مقبولیت کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ مختلف فشاری یا فعال طبقات کی حمایت کے ساتھ ہے، جسے بآسانی تحلیل نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ فعال طبقات تاریخ اور نظریات کے آمیختہ سے اپنے موقف بناتے ہیں، اوراس قسم کی آراء جلد بدلتی نہیں۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے کوئی ان دیکھا نہیں کرسکتا کہ اب طاقت ور حلقوں کے سیاسی کردار کے خلاف فعال طبقات میں ایک سخت رائے پیدا ہو چکی ہے جو مائل بہ مزاحمت ہے۔ اس ایک پہلو سے نوازشریف بھی وہی سوچتے ہیں جو عمران خان سوچتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی رائے بھی مختلف نہیں۔ اگرچہ ان تینوں شخصیات کے اہداف کے دائرے میں ابھی اس نکتے کو فعال حیثیت حاصل نہیں ہوئی، مگر یہ سوچ ملتی جلتی حالت میں اُن کی سیاست میں پہلو بہ پہلو اُبھرتی، اُچھلتی، اُبلتی رہتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ قومی سیاست میں تین مختلف حریف ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے باوجود طاقت ور حلقوں کے حوالے سے یکساں سوچ کیوں رکھتے ہیں؟اس کا سادہ جواب ہے۔ طاقت کے ساتھ معاملات میں یکساں تجربہ۔ طاقت اگر اخلاقی بندش قبول نہ کرے تو منہ زور ہوتی ہے اور منہ زور طاقت کا ہدف وقتی نتائج کا حصول ہوتا ہے، چاہے وہ کیسے بھی حاصل ہوں۔ یاد رکھیں، اخلاقی بندش سے عاری طاقت اپنے اہداف میں اور نہ ہی اُن اہداف کے حصول کے طریقوںمیں کبھی یکساں ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسی ہر طاقت تضادات میں لتھڑی ، اخلاق سے عاری اور تعلق میں ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔ یہی مسئلہ طاقت کے لیے سب سے بڑا بوجھ بنتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ عمران خان، نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کے طاقت ور حلقوں سے تجربات یکساں نوعیت کے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ دوسرے کسی بھی فریق کے معاملات خود عمران خان، نوازشریف ، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہیں، رہے ہیں یا رہیں گے، تو وہ بھی کچھ اسی نوع کے تجربات کے حامل ہوں گے۔ کیونکہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ بھی سیاسی طاقت یا حکومت حاصل کرنے کے لیے وہی طریقے اختیار کرتی ہیں، جو نری طاقت یا مجرد قوت کرتی ہے۔ اس میں کوئی خاص نوعیت کا فرق نہیں۔ چنانچہ ان سیاست دانوں سمیت پاکستان کے کسی بھی سیاست دان کو اُٹھا لیں ، وہ تضادات میں لتھڑا ملے گا۔ اُس میں کوئی اخلاقی وصف نہیں ہوگااور اُس کے کوئی مستقل دوست ، دشمن نہیں ہوں گے۔پی ڈی ایم جماعتوں پر ہی غور کرلیں۔ جن کا ماضی ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرتے گزرا ہے۔ ان جماعتوں نے عمران خان پر ایسا کون سا الزام لگا یا ہے جو انہوں نے اپنی اتحادی جماعتوں پر نہ لگایا ہو۔ نواز لیگ پیپلزپارٹی کو سیکورٹی رسک قرار دیتی تھی۔ پیپلز پارٹی نے بھی نوازشریف کے خلاف سنجیدہ نوعیت کے الزامات لگا رکھے ہیں۔یہ دونوں جماعتیں طاقت ور حلقوں کے سامنے بھی ایک طرح کے حالات سے گزرتی رہی ہیں۔ کبھی ایک کے ذریعے دوسرا دفع کیا جاتا رہا۔ اور کبھی دوسرے کے ذریعے پہلا کھدیڑا جاتا رہا۔یہ واقعات سیاست کی سطح پر عام لہریں پیدا کرتے رہے۔ مگر تاریخ کے بہاؤ میں اب یہ نہایت معنی خیز بن چکے ہیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا ۔ نوازشریف پی ڈی ایم کے جلسوں میں طاقت ور حلقوں پر براہِ راست اعتراضات اُٹھا رہے تھے۔ اس سے ذرا پہلے جناب زرداری کو آپ اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے بھی سن چکے ہوں گے۔ اس کے باوجود پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اصل میں ”سلیکٹڈ” ہیں، گزشتہ سترہ اٹھارہ برسوں کی سیاست میں خفیہ تال میل کا سارا کھیل ان کے ذریعے کھیلا گیا ہے۔ کبھی یہ” فریضہ” نہایت خشوع و خضوع سے چودھری برادران ادا کرتے رہے ہیں۔ اس کھیل میںاتارچڑھاؤ ایک ردِ عمل بھی پیدا کرتا ہے ، جس کے باعث زرداری ایسے لوگ دانت کچکچاتے ہوئے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔ پھر الّو سیدھا ہو جائے تو ”قومی مفاد ”کے آگے مودب رہنے میں کوئی مضائقہ محسوس بھی نہیں کیا جاتا۔جناب زرداری اور نوازشریف کبھی ایک دوسرے کے مقابل تھے، اب عمران خان کے خلاف متحدہو کر بروئے کار ہیں۔ فرق کیا پڑتا ہے؟ اصل ہدف سیاسی طاقت ہے جو سیاسی تضادات کے باوجود کسی بھی طریقے کے ساتھ حاصل ہو جائے۔ آپ کسی بھی سیاست دان کی آج کی کیفیت دیکھ لیں، اس کے بالکل برخلاف اس کا ماضی مل جائے گا۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کو دیکھ لیں، کل پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں اس کا ہدف تھیں، آج اُن کی مدد سے وہ اقتدار میں ہیں۔ کل عمران خان محبوب تھا، آج معتوب ہے۔ یہ عامیانہ مساوات طاقت کے کھیل میں پھر تبدیل ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔
اس تناظر میں عمران خان کے اقداما ت کا جائزہ لیں تو سب سمجھ میں آجائے گا۔ عمران خان نے اقتدار کی سیاست میں خود کو کتنا اور کتنی بار تبدیل کیا، اس کا ٹھیک سے تعین ہی نہیں کیا جاسکے گا۔ وہ پہلے کیا سوچتے تھے، اور اب کیا سوچتے ہیں ، اس کو سمجھتے ہوئے زمین وآسمان ایک دکھائی دیں گے۔ اُنہیں اپنے موقف بار بار بدلنے پر” مسٹر یوٹرن” کہا گیا۔ صرف اسٹیبلشمنٹ کے لیے اُن کی بار بار بدلنے والی رائے پر نگاہ ڈالیں تو نکتہ سمجھ آجائے گا۔ ایسا کیوں ہے؟ سیاسی طاقت کا حصول خواہ کیسے ہی ممکن ہو۔ پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ آج اسٹیبلشمنٹ کے لیے کیا کہا، اور پہلے کیا کہا تھا۔عمران خان ایسا کیوں نہیں کریں گے؟ کیا وہ سیاسی طاقت( اقتدار) نہیں چاہتے؟ عمران خان کے تضادات پاکستان کی سیاست میں انوکھے نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی ماضی قریب کی تاریخ یہ سمجھاتی ہے کہ یہ تضادات بھی سیاسی طاقت حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ عمران خان جس پنگھوڑے سے برآمد ہوئے تھے، اُس میں جھولنے کے لیے وہ بے تاب ہوسکتے ہیں۔ طاقت کا نشہ ہی کچھ ایسا ہے۔عمران خان اُسی دوڑ میں ہیں ، جس میں نوازشریف ، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن ہیں۔ سیاسی طاقت ملے تو طاقت ور حلقوں کے سامنے ”حب الوطنی” کے وضو کے ساتھ سجدے کی حالت میں نظر آئیں گے اور طاقت نہ ملے تو پھر ان میں سے ہرایک آپ کو آج کا عمران خان دکھائی دے گا۔بھلے یہ اپنے الفاظ میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر اپنے اقدامات میں ایک جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔طاقت ور حلقوں کو ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس پُرانے کھیل میں نیا یہ ہے کہ طاقت کی اس چھینا جھپٹی میں جو فریق ناکام رہے گا، اب وہ نچلے ہو کر بیٹھنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ اگر عمران خان کے ساتھ معاملات طے ہو جائیں تو ایک نیا عمران خان کہیں اور سے برآمد ہو جائے گا۔ ایک ہی طرح کا کھیل بار بار کھیلنے کا نقصان یہ ہے کہ یہ سب کی سمجھ میں آجاتا ہے۔