وجود

... loading ...

وجود

غلام،جو ہوا کانگریس سے آزاد

بدھ 07 ستمبر 2022 غلام،جو ہوا کانگریس سے آزاد

برطانوی پارلیمانی جمہوری نظام کی جو مسخ شدہ صورت ، جنوبی ایشیاء میں رائج ہے، اس نے کئی ایسے لیڈروں کو بام عروج تک پہنچانے کا کام کیا ہے ، جن کی کبھی کوئی عوامی ساکھ نہیں تھی۔ مگر انہوں نے حکومت اور سیاسی پارٹیوں میں اتنے اہم عہدے حاصل کئے کہ منتخب نمائندے بھی ان کے آگے دم ہلاتے نظر آتے ہیں۔ بھارتی سیاست پر اگر نظر دوڑائی جائے، تو اس قبیل کے لیڈروں میں فی الفور آنجہانی ارون جیٹلی، سابق نائب صدر وینکیا نائیڈو، پریم چند گپتا، مکھن لال فوطیدار، آنجہانی امر سنگھ،راجیو شکلا ، مرحوم احمد پٹیل اور غلام نبی آزاد کا نام ذہن میں آتا ہے۔ ان میں سے بس چند ہی ایسے تھے، جوایک ا?دھ پنچایت یا لوکل کونسل کا انتخاب اپنے بل بوتے پر جیتنے کی سکت رکھتے ہوں، ورنہ یہ صرف اپنے جوڑ توڑ، مہربان قسمت اور حکمت عملی ترتیب دینے کی وجہ سے ’’ماسٹر اسٹریٹجسٹ‘‘کے نام سے مشہور ہوکر پارٹی اور اسکی اعلیٰ لیڈرشپ کیلئے نہایت ہی اہمیت حاصل کرگئے ہیں۔ گو کہ بھارت میں پچھلے کئی برسوں سے مقتدر اور عوامی لیڈروں کا اپوزیشن کانگریس پارٹی سے اخراج ہو رہا ہے، مگر ا?زاد جیسے شخص کا حال ہی میں پارٹی کو خیر باد کرنا اور پھر پارٹی صدر سونیا گاندھی اور انکے صاحبزادے راہول گاندھی کو اپنے خط میں معتوب ٹھہرانا، ایک ایسا واقعہ ہے جس سے کانگریس کو واقعی ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کیونکہ آزاد کی پوری سیاست ہی گاندھی خاندان کے اردگرد ٹکی ہوئی تھی، گھرکیوں کے باوجود وہ ان کا دست بستہ غلام تھا۔ اگر اس طرح کا لیڈر بھی اب گاندھی خاندان کو بے اثر ،بے وقعت اور اپنے کیریئر کا ذریعہ نہ سمجھتا ہو، تو معلوم ہوناچاہئے کہ اس پارٹی کی حالت واقعی قابل رحم ہے۔
تین سال یعنی 2005ء سے 2008ء تک جموں و کشمیر کے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے علاوہ غلام نبی بٹ المعروف آزاد نئی دہلی میں سینئر مرکزی وزیر اور کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کے برسوں تک ممبر اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ ان کا تعلق جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع یعنی چناب ویلی کے بھلیسہ علاقہ کے گنڈو تحصیل کے ایک دور دراز دیہات سوتی سے ہے۔یہاں جانے کے لیے ابھی تک باقاعدہ سڑک نہیں ہے۔ گو کہ 1973ء میں کانگریس نے انکو بھلیسہ بلاک کا سیکرٹری بنایا، مگر وہ اس علاقے میں نیشنل کانفرنس کے مقابلے بلدیاتی انتخاب تک جیت نہیں پائے۔1977ء کے اسمبلی انتخاب اندروال حلقہ سے 900ووٹ لیکر انکی ضمانت ضبط ہوئی۔ مگر اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور انکے صاحبزادے سنجے گاندھی نے شاید انکی پوشیدہ صلاحیتوں کا ادراک کرکے انکو پہلے جموں و کشمیر پردیش یوتھ کانگریس کا اور بعد میں 1980ء میں آل انڈیا یوتھ کانگریس کا صدر مقرر کیا۔ اسطرح و ہ سنجے گاندھی کے ان مصاحبین میں شامل ہوگئے، جو بعد میں ہوائی حادثہ میں انکی موت کے بعد نئے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے آنکھ اور کان بن گئے۔ چونکہ جموں و کشمیر سے ان کا جیتنا ناممکن تھا، اسلئے 1980ء اور 1984ء میں انکو کانگریس نے دوبار مغربی صوبہ مہاراشٹر کی واشم لوک سبھا نشست سے جتوا دیا۔ 1982ء میں ہی اندرا گاندھی نے انکو ڈپٹی منسٹر بنایااور تب سے وہ کانگریس دور میں مسلسل وزیر یا پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر براجمان رہے۔ انتہائی زیرک اور چالاک سیاستدان ہونے کے ناطے ان کو شاید علم تھا کہ کانگریس میں ان کا وجود کشمیری اور مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے، اس لیے وہ بھی پارٹی میں کسی دوسرے اپنے جیسے چالاک مسلمان سیاستدان کو برد اشت نہیں کرتے تھے اور انکو زچ کرکے باہر کی راہ دکھا کر یا آزردگی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور کرتے تھے۔
1990ء کے بعد وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے اکثر کانگریسی لیڈران جنہوں نے دہلی اور جموں میں پناہ لی تھی اور وہ مرکزی کانگریس میں کسی رول کے خواہاں تھے کا کہنا ہے کہ ان کا کیریئر آزاد نے برباد کردیا۔ 1998ء میں جب سونیا گاندھی نے کانگریس کی صدارت سنبھالی، تو ان کے سیاسی مشیر مرحوم احمد پٹیل کے ساتھ ان کی خاصی ان بن رہتی تھی، جس کی وجہ سے آزاد کو کئی بار ایک طرح سے بن باس بھیجا گیا۔ مگر ان کے معتقدین کا کہنا ہے کہ جس طرح ہندو دیوتا بھگوان رام 14سالہ بن باس کے بعد کامیاب و کامران لوٹ آئے، اسی طرح آزاد بھی بن باس سے کامیابی کے ساتھ واپس آتے گئے۔ غالباً سن 2000ء میں انکو جموں و کشمیر کی پردیش کانگریس کمیٹی کا صدر متعین کیا گیا۔ کئی ماہ تک وہ سرینگریا جموں اسکا چارج لینے کیلئے ہی نہیں جارہے تھے۔ وہ اپنے آپ کو کشمیری کے بجائے ایک مرکزی لیڈر کہلوانا پسند کرتے تھے۔ اس لیے اب ایک طرح سے یہ طے تھا کہ انکا کیریئر بطور مرکزی لیڈر اختتام کو آپہنچا ہے اور چونکہ جموں کے ہندو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ چلے گئے تھے اور وادی کشمیر میں نیشنل کانفرنس کسی اور پارٹی کو سیاسی جگہ دینے کی روادار نہیں تھی، اس لیے کانگریس کیلئے سیاسی زمین ڈھونڈنا ناممکنات میںسے تھا۔ ویسے بھی اس خطے میں کانگریس بھی مسلمانوں کا خوف دلا کر ہی جموں کے ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کا کام کرتی تھی۔یہ کارڈ اب بی جے پی کے پاس تھا۔مگر اس کو قسمت کہیے کہ 2002ء کے انتخابات میں کانگریس کو 20 نشستیں حاصل ہوئی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ مل کر اس نے حکومت بنائی۔2005 ء میں یعنی تین سال بعد 1975ء کے بعد پہلی بار انہوں نے بطور کانگریسی وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھایا ، مگر 2008ء میں وادی کشمیر میں 99 ایکڑ جنگل اراضی ہندووں ‘شری امرناتھ جی یاترا’ کا انتظام و انصرام دیکھنے والے بورڈ کو منتقل کر دینے سے جب پرتشدد احتجاجی لہر شروع ہوئی ، تو ان کی اتحادی پی ڈی پی نے حمایت واپس لیکر ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ مگر اگلے ہی سال وہ پھر مرکزی سرکار میں بطور وزیر صحت نظر آئے اور پارٹی میں ان کے مخالفین زمین پر لوٹتے دکھائی دئیے۔ کشمیر کے بن باس سے واپسی کے بعد پارٹی میں انکے مخالفین نے ان کو مزید زچ کرنے کے لیے 2004ء کے عام انتخابات سے قبل ا?ندھرا پردیش کا انچارج بنوادیا۔ اس صوبہ میں ان دنوں وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کا طوطی بولتا تھا۔ ان کی تیلگو دیسم پارٹی (ٹی ڈی پی) مرکز میں بی جے پی کی ایک اہم حلیف جماعت تھی اور اسی کی وجہ سے ہی اٹل بہاری واجپائی کی حکومت ٹکی ہوئی تھی۔ معاشی پالیسیوں اور صوبہ کو کمپیوٹر صنعت کا مرکز بنانے کے لیے کئی بین الاقوامی جریدوں نے نائیڈو کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کور اسٹوریز کی تھیں۔ تقریباً تمام رائے عامہ کے جائزے واجپائی حکومت کی واپسی اور نائیڈو کی کامیابی کے اشارے دے رہے تھے۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر