... loading ...
سیاسی جماعتیں کبھی کارکردگی سے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کرتی تھیں اب صرف دشنام طرازی ہوتی ہے تمام سیاسی جماعتوں کے اطوار کا جائزہ لے لیںآپ یہی نتیجہ اخذ کر یں گے کہ عوامی بھلائی سے زیادہ انھیں انتخابی فتح غرض ہے چاہے ملک معاشی گرداب میں پھنسااور عوام غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے دوچار رہیں سیاسی رہنمائوںکو پرواہ نہیں البتہ انتخابی جیت کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیاجاتاتمام تر بدعنوانی کے باوجود اپنی نیک نامی کی ایسی ایسی داستانیں گھڑی اور سنائی جاتی ہیں کہ لوگ سن کر دنگ رہ جائیںحالانکہ اِن داستانوں میں رتی بھر صداقت نہیں ہوتی ملک میں ایسا کوئی سیاسی چہرہ نہیں جسے صیح معنوں میں نیک نام کہہ سکیں مزہبی قیادت پر بھی بدعنوانی کے الزامات ہیں دیگر مسائل بڑھنے کے ساتھ ایک اور سچ یہ ہے کہ ملک میں نیک نام سیاسی قیادت کا مسلہ بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے کوئی اور نہیں سیاستدان ہی ایک دوسرے پر غداری تک کے الزامات لگاتے ہیں جس سے رواداری اور برداشت ختم ہو رہی ہے دلیل سے نکتہ نظر منوانے کی بجائے اختلافِ رائے کا جواب گالی سے دیا جاتا ہے اخلاقی روایات کے خاتمے سے ملک کی سیاسی فضااتنی پراگندہ ہو چکی ہے کہ سیاست یکسرتبدیل ہو گئی ہے کوئی کسی کی سُننے کے لیے تیار نہیں صرف اپنی سنانے کی کوشش کرتے ہیں ضرورت اِس امرکی ہے کہ دشنام طرازی سے ایک دوسرے کو بدنام کرنے اور انتخاب جیتنے کے چورراستے تلاش کرنے کی بجائے کارکردگی سے عوام کا دل جیتا جائے سیاسی تقسیم کو ہوادینے کی روش چھوڑکر کارکنوں کی فکری تربیت پر توجہ دی جائے حریف سیاسی جماعتوں کی کمزوریاں اجاگر کرنے کی بجائے منشور اورخدمت سے عوام کی توجہ حاصل کریں کیونکہ قول و فعل کے تضاد سے ملکی مسائل حل نہیں ہور ہے۔
ٍٍ جون سے شروع ہونے والی طوفانی بارشوں سے ملک میں ایسی سیلابی کیفیت ہے جس سے تہائی حصہ پانی میں ڈوب چکاہے جانی و مالی نقصان کا درست اندازہ لگانا تو ایک طرف ابھی تک کئی علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کا آغاز تک نہیں ہو سکا بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت سب کچھ سیاست سمجھنے کی بجائے متاثرین کی بحالی کے لیے ایسی متفقہ اور مربوط سرگرمیاں شروع کرے جن سے متاثرین کے مصائب و مشکلات اگر ختم نہیں تو کسی حد تک کم ضرور ہوجائیں لیکن بے رحم سیاسی اشرافیہ بددستور اپنے اپنے مفاد کی آسیر ہے چند اِدارے سیلاب میں پھنسے لوگوں کی مددکے لیے متحرک ضرور ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ابھی تک ہرمتاثرہ فرد تک پہنچانہیںجاسکاجس کی وجہ سے نہ صرف اموات بڑھنے کا خدشہ ہے بلکہ وبائی امراض کا خطرہ بھی سر پر منڈلانے لگا ہے اِس کے باوجود پیش بند ی کے طور پر کوئی طریقہ کار نہیں بنایا جا سکاجس سے متاثرین کی مشکالات میں کچھ کمی آئے حکومتی اپیل کا مثبت جواب دیتے ہوئے کئی ملکوں نے امدادی سامان روانہ کیا ہے اقوامِ متحدہ نے بھی ابتدائی تخمینہ لگاکر عالمی برادری سے تعاون کی اپیل کردی ہے مگر مشکل کے اِن لمحات میں بھی سیاسی قیادت سب کچھ سیاست کو ہی سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو بدعنوان ثابت کرنے کی کوشش میں ہے حالانکہ اِس طرح عالمی امداد کے حصول میں رخنہ آسکتا ہے ہمارے ملک کی سیاست اتنی بدل گئی ہے کہ متاثرین کی بحالی سے زیادہ سیاسی قیادت کے لیے حریفوں کو نیچا دکھانازیادہ اہم ہے۔
عمران خان نے اپنی مقبولیت اور تجربے کی وجہ سے متاثرین کی بحالی کے لیے اربوں کے عطیات جمع کیے لیکن یہ عطیات تباہ ہونے والے اسکولوں ،نیست و نابود انفرااسڑکچر اور برباد اسباب زندگی کی بحالی کے لیے ناکافی ہیںپھر بھی یہ ایک اچھی کاوش ہے مگر حکومت کا زور اِس پر ہے کہ کسی طرح عطیات جمع کرنے کی اِس مُہم کو ناکام ثابت کیا جائے اِس کے لیے حکومتی وزیر و مشیر متحرک ہیں یہ سفاکی کی انتہا ہے ہونا تو یہ چاہیے جو بھی اچھا کام کرے اُسے سراہا جائے اور مل کر سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز طریقہ کار بنائیں مگرملک کی سیاست اتنی تبدیل ہو گئی ہے کہ پانی میں ڈوبے عوام دیکھ کر بھی سیاسی قیادت کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکا حالانکہ سچ یہ ہے کہ عمران خان اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود آج بھی اہم ہیں کیونکہ ملک کے بڑے حصے پر آج بھی اُن کی جماعت یا اُن کے اتحادیوں کی حکومت ہے کے پی کے ،گلگت بلتستان ،آزاد کشمیر اور پنجاب کی حکومتوں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے عمران خان کو راضی کیے بناممکن نہیں اِس کا ادراک معمولی فہم و فراست رکھنے والے کو بھی ہے لیکن یہ واضح نکتہ حکومت دیکھنے سے قاصر ہے اسی لیے سیلابی تباہ کاریوں کے باوجوددستِ تعاون بڑھانے سے گریزکرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادکے خول میں بندہے ۔
عالمی برادری کو پاکستان میں آنے والے سیلاب کاکسی حدتک احساس ہے اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے دفترِ خارجہ کے زیرِ اہتمام ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ محدود وسائل کے باوجود پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دیکر جس کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے وہ کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا انھوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی سیلابی آفت کے باعث ہونے والی اموات،وزخمیوں اور نقصانات کا زکرکرتے ہوئے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کا بھی اعلان کیااگر اعلان کے مطابق دورہ ہوجاتا ہے تو اِس سے کسی حد تک متاثرین کی بحالی ہو سکتی ہے نیزنہ صرف تباہ کاریوں کا ایسادرست تخمینہ لگایا جا سکے گاجس پر اقوامِ عالم اور عالمی اِ دارے اعتماد کریں بلکہ عالمی امداد کو بھی یقینی بنایا جا سکے گاایسا ہوجاتا ہے تو خوراک ،پینے کے پانی، صحت و تعلیم جیسی ضروریات کی فراہمی بھی ممکن ہو جائے گی لیکن اِس کے لیے لازم ہے کہ سیاسی قیادت ایک دوسرے پر الزام تراشی کا جاری سلسلہ کم از کم وقتی طورپر ہی سہی موقوف کر دے اور اختلافات بھلا کر تمام توانائیاں متاثرین کی بحالی کے لیے وقف کر دے ملک کی بدلی سیاست کے تناظر میں ایسا ممکن نظر نہیں آرہاکیونکہ آزمائش کی اِس گھڑی میں بھی سیاسی قیادت کے نزدیک ملک اور عوام سے زیادہ ایک دوسرے کو رگیدنا زیادہ اہم ہے یہ سوچ یا رویہ کسی طور قابل ِ تحسین یا قابلِ رشک نہیں۔
سیاسی قیادت کی نااتفاقی کی وجہ سے ہی عالمی اِدارے مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ بھارت سے امدادی سامان کی ترسیل کے لیے زمینی راستہ فراہم کیا جائے حالانکہ یکطرفہ فیصلے سے کشمیرکو بھارت میںضم کرنے سے پاکستان کے لیے ایسی اجازت دینا ممکن نہیں رہامگر سیاسی قیادت کی نااتفاقی سے جائز و ناجائز مطالبات سامنے آنے لگے ہیں ایسے حالات میں جب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ملک کو سیلابوں اور خشک سالی کی ملی جلی کیفیت کا سامنا ہے محکمہ موسمیات کی طرف سے ستمبر میں مزید بارشوں کی پیشگوئی سامنے آگئی ہے اِن حالات میں ضرورت اِس مر کی ہے کہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر امدادی کاموں میں حصہ لیا جائے ملک کے کئی علاقے ابھی تک زیرِ آب ہیں علاوہ ازیں کے پی کے ،پنجاب اور سندھ میں دریائوں میں پانی کی سطح گرنے کی بجائے بلند ہو رہی ہے جس سے قریبی آبادیاں خطرے میں ہیں کئی علاقوں میں تاحال لوگ کھلے آسمان تلے امداد کی امید لگائے بیٹھے ہیں اِس لیے کم از کم اِس آزمائش کی گھڑی میں ہی وقتی طورپر ہی سہی سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے اور ایک ہو جائے متاثرین کی مکمل بحالی کے بعد بے شک اپنی سیاست چمکالیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔