... loading ...
روس یوکرین تنازعہ۔۔امریکا کہاں کھڑا ہے؟
روس یوکرین جنگ سے ہونے والی تباہی، اموات اور غیر یقینی کے سائے میں گزرے چھ ماہ تو ذرائع ابلاغ میں ہم شب وروز دیکھ ہی رہے ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی جنگ میں ہلاکتوں کی تعداد کا تعین کرنا مشکل ہوتا ہے۔اعداد وشمار کے مطابق 10 اگست تک ہلاکتوں کی تعداد 13000 سے زیادہ تھی تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اندازہ کافی کم ہے روس اور یوکرین دسیوں ہزار ہلاکتوں کے دعوے کرتے ہیں تاہم ان کے دعوؤں کی آزادانہ تصدیق نہیںممکن نہیں جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی جنگ میں ملوث فریق کی جانب سے ہلاکتوں کی تعداد کو مستند قرار نہیں دیتا۔ پنا گزینوں کے اعدادوشمار تو اور بھی درد ناک ہے اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے اب تک ایک کروڑ 20 لاکھ لوگ اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں تقریباً 50 لاکھ ہمسایہ ممالک جا چکے ہیں جبکہ 70 لاکھ یوکرین میں داخلی طور پر پناہ گزین بن چکے ہیںتاہم لاکھوں لوگ خاص کر کیئو جیسے شہروں میں اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں یو این ایچ سی آر کے مطابق 17 اگست تک 64 لاکھ لوگ یوکرین سے یورپ کے دیگر ممالک منتقل ہو ئے جبکہ کچھ یوکرینی شہری روس بھی گئے ہیں اور روسی صدر پوتن کے مطابق 140000 عام شہریوں کو ماریوپل سے نکال کر روس لے جایا گیا ہے مگر صدر پوتن کا اصرار ہے کہ انھیں زبردستی روس منتقل نہیں کیا گیا چنانچہ کچھ شہری پولینڈ اور جرمنی بھی منتقل ہوئے ہیں چنانچہ جنگ کے چھ ماہ بعد یوکرین میں ہونے والی تباہی ہر جگہ نظر آتی ہے جہاں لوگوں کے گھر اور شاندار عمارتیں نظر آتی تھیں، آج وہاں صرف کھنڈرات ہی دکھائی دیتے ہیںصرف ہاؤسنگ کے شعبے میں 39 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے کل نقصان 104 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے
دوسرے جانب ،امریکا اور روس کے مابین معاملات کوئی ڈھکی چپھی بات نہیں رہی،لیکن اب حالات ایک نئے موڑ اختیار کر تا جا رہا ہے، تازہ ترین پیش کی بات کی جائے تو ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ (برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق) ایک امریکی عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکا یوکرین کے لیے 3 ارب ڈالرکی نئی فوجی امداد کا اعلان کرنے جا رہا ہے یعنی روسی حملے کے بعد سے یوکرین کے لیے یہ امریکی ہتھیاروں کی امداد کا سب سے بڑا پیکج ہے،یہاں یہ بھی یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ امریکا جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک یوکرین کو 10.6 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرچکا ہے، رپورٹ میںامریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنیکی شرط پر یہ بھی بتایا کہ یوکرین کو دیے جانے والے ہتھیاروں میں کوئی نئے ہتھیار شامل نہیں ہوں گے بلکہ وہی ہوں گے جو گزشتہ پیکج میں فراہم کیے گئے ہیں چنانچہ امریکا کی جانب سے حالیہ روس، یوکرین تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے یوکرین کو مختلف چھوٹے بڑے ہتھیار فراہم کیے جاچکے ہیں جن میں فضائی نگرانی کے ریڈار، جدید راکٹ سسٹم، ٹینک، اینٹی آرمر ہتھیار، ہیلی کاپٹر، اینٹی ائیر کرافٹ سسٹم، شاٹ گنز، گرینیڈ لانچر، ڈرونز اور دیگر ہتھیار شامل ہیں امریکا کے ناقدین کی جانب سے ر وس کو کمزور کرنے کے لیے یہ بڑا امریکی پیکج قرار دیا جا رہا ہے۔
حالات کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ امریکا نے خبردار کیا ہے کہ روس آنے والے دنوں میں یوکرین میں حکومتی تنصیبات کو نشانہ بناسکتا ہے، کیف میں امریکی سفارت خانے نے یوکرین میں موجود امریکی شہریوں سے فوری طور پر ملک چھوڑنے کی اپیل بھی کردی ہے حالانکہ یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ماسکو نے دھمکی دی ہے کہ وہ صدر پیوٹن کی اتحادی کی بیٹی کے قتل میں یوکرین کے ملوث ہونے کے بعد کوئی رحم نہیں کریں گے، تاہم گزشتہ دنوں ایک امریکی نائب وزیر کا ایک بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ روس ترکی کے ذریعے یوکرین جنگ کے بعد روس پر لگائی جانے والی مغربی پابندیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ پابندیوں کے باوجودروسی کمپنیوں نے ترکی کواستعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
چھ ماہ بعد زمینی حقائق یہ ہے کہ روس آگے بڑھ چکا ہے اور مشرقی یوکرین میں کافی علاقوں پر قابض ہے مگر ساتھ ساتھ روس کو کیئو کے قریب اور دیگر شمالی یوکرین میں مختلف شہروں سے نکال دیا گیا ہے جو اس نے حملے کے ابتدائی دنوں میں حاصل کر لیے تھیروسی فوج اب لوہانسک خطے پر مکمل طور پر قابض ہے اور وہ ڈونیسک میں بھی چھوٹی چھوٹی کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ خارخیو شہر میں کئی ماہ سے بمباری جاری ہے مئی میں ماریوپل میں ایک طویل محاصرے اور یوکرینی افواج کے انخلا کے بعد روس کو کریمیا تک ایک زمینی راستہ مل گیا اور بحیرہ ازوف سمیت یوکرین کی جنوبی کوسٹ لائن کا مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا، روس کے پاس اب بھی کریمیا کا مکمل کنٹرول ہے تاہم اگست کے مہینے میں ادھر انھیں حملوں کا سامنا رہا ہے جنوب میں خرسون وہ پہلا شہر تھا جس پر روسی افواج نے کنٹرول حاصل کیا، اب یوکرینی فوج اسے بھی دریا پار طویل رینج آرٹلری سے نشانہ بنا رہی ہے۔۔بالاخر یوکرین کے یومِ آزادی کے موقع پر جب اس جنگ کا کوئی اختتام عنقریب کسی صورت نظر نہیں آ رہا، حالانکہ چھ ماہ بعد ہم اس جنگ کے اثرات سے خوب اچھی طرح واقف بھی ہیں اس موقع پر پوری دنیا عالم انسانیت امریکا کی طرف اُمید لگائے دیکھ رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔