... loading ...
امریکا اور چین جیسی دنیا کی دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان محاذآرائی روزبروز شدت اختیار کرتی جارہی ہے محازآرائی بڑھنے سے ترقی پذیر ممالک کو درپیش تجارتی ،اقتصادی اور معاشی مسائل میں اضافے کا خدشہ ہے اگر دونوں بڑی طاقتیں تنازعات بات چیت سے حل کرنے کی بجائے کشیدگی سے ایک اورسردجنگ کاماحول پیداکرتی ہیں تو چاہے مذکورہ دونوں ممالک میں فوجی ٹکرائو نہ ہو مگر کرہ ارض کے دیگر چھوٹے و بڑے ممالک میں مڈبھیڑ کا امکان مکمل طور پر رَد نہیں کیا جاسکتا ایساہونا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ترقی پذیر ممالک کے مسائل میںاضافہ کرنے کے مترادف ہوگا جس سے نہ صرف خوراک کی کمی کا مسئلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے بلکہ غربت کے خاتمے کی عالمی کوششیں بھی متاثر ہو سکتی ہیںاگر دنیا کو پُرامن اور معاشی طور پر خوشحال بنانا ہے تو دونوں بڑی معاشی طاقتوں کو ایک دورے کو نیچا دکھانے اور اقوامِ عالم کو امتحان میں ڈالنے کی بجائے بات چیت جیساذمہ دارانہ طرزِ عمل اپنانا ہوگامذاکرات سے تنازعات کا حل تلاش کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں کیونکہ زیادہ ترمسائل غیر حقیقی اور من گھڑت ہیں ایک دوسرے کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے مداخلت کی پالیسی سے دنیاکا امن دائو پر لگ سکتاہے جبکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اُٹھا کر نہ صرف غربت و بے روزگاری جیسے مسائل کم یا ختم کر سکتے ہیں بلکہ غریب ممالک کی بھی زیادہ بہتر طریقے سے مدد کر سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ بے لچک رویے کی بجائے لچکدار رویہ اپنایا جائے مداخلت اور بے لچک رویے سے بھوک و فلاس جیسے عالمی مسائل برقرار رہیں گے کسی حوالے سے دنیا مزید کسی سرد جنگ یا بلاک کے قیام کی ہرگز متحمل نہیں ہو سکتی دونوں ممالک کے تعلقات میں رخنہ کا باعث بننے والے مسائل ایسے نہیں جو حل نہ ہو سکیں کیونکہ یہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جنگ ہے چین کو مداخلت کا شکوہ ہے جبکہ امریکا کو خدشہ ہے کہ چین تجارتی آڑ میں جاسوسی کے آلات کے ذریعے اُس کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے چین کا شکوہ تو بجاہے مگرواشنگٹن کے خدشات بے بنیاد ہیں کیونکہ زمینی فضا سے خلا تک ایسے کئی ذرائع ہیں جن کی مدد سے کسی کی نقل و حمل پر نظر رکھنا اور معلومات حاصل کرنانہایت ہی سہل ہے اسی بناپرامریکی الزامات بے وزن معلوم ہوتے ہیں ۔
امریکی جریدے کو انٹرویو کے دوران وزیرِ اعظم شہباز شریف نے امریکااور چین کے درمیان ثالثی کرانے کی پیشکش کی ہے تاکہ نہ صرف دنیا کی دونوں بڑی معاشی و فوجی طاقتوں کو دشمنی کی بجائے دوستی کی طرف لایا جا سکے بلکہ اقوامِ عالم کو نئی سرد جنگ کا ایندھن بننے سے بچایا جا سکے یہ درست ہے کہ دنیا سے بھوک و افلاس کو کم کرنا ہے تو فوجی تنازعات کوبڑھنے سے روکنا ہوگا مگر دیکھنے یا غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان ایسی پوزیشن میں ہے کہ دنیا کی دونوں بڑی طاقتوں میں ثالثی کاکردار ادا کر سکے؟اِس کے جواب میں ہاں تو کسی صورت میں نہیں کہہ سکتے جس کی بڑی وجہ پاکستان کی کمزور معیشت ہے اور یہ معاشی کمزوری وقت کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے قرضوں کے انبار نے اقساط کی ادائیگی تک مشکل کردی ہے اگر قومی قیادت اِس مشکل صورتحال کو ختم کرنے کے لیے جلد ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کرتی تو ملک کو خدانخواستہ سری لنکا جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے علاوہ ازیں موجود ہ حکومت پر امریکی طفیلی ہونے کے الزامات ہیں اسی لیے بظاہر ایسا کوئی امکان نہیں کہ دونوں ممالک پاکستان جیسے ملک کی ثالثی کو قبول کر یں ثالثی محض منت سماجت سے نہیں ہوتی بلکہ ثالث کی اتنی حثیت ہونی چاہیے کہ فریقین کے لیے قابلِ قبول ہو نے کی بناپر مزاکرات کی میز پر لا سکے نیز تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت سے ہونے والے اتفاقِ رائے کا پابند بھی کر سکے مگرجوہری طاقت کے باوجود امن و امان کے مسائل اور معاشی بھنور میں پھنسا پاکستان ایسی کسی صلاحیت سے محروم ہے اسی لیے چین و امریکا کی طرف سے ابھی تک ثالثی کی پیشکش کے جواب میں مثبت ردِ عمل کا ظہارسامنے نہیں آیا۔
پاک چین تعلقات کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں ممالک نے گزشتہ چند دہائیوں سے ایک دوسرے سے تعاون میں کافی اضافہ کیا ہے یہ تعاون صنعتی ،تجارتی ،زرعی سے لیکر فوجی شعبوں تک وسعت اختیار کر چکا ہے دونوں ممالک غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے بھی مشترکہ کوششوں میں مصروف ہیں اور اِس حوالے سے کئی ایک منصوبوں پر کام جا ری ہے سی پیک کے زریعے چین اپنے علاقائی قریبی حلیف پاکستان کو معاشی مسائل سے نجات دلانے کے لیے سنجیدہ ہے اسی طرح عدمِ اعتماد کے زریعے اقتدار کی تبدیلی کے بعد پاک امریکا دوطرفہ تعلقات میں بھی نہ صرف حیران کُن بہتری دیکھنے میں آئی ہے بلکہ مالی و تجارتی تعاون میں بھی اضافے کا رجحان ہے اسی لیے سفارتی حلقوں کو قوی اُمید ہے کہ پاک امریکا دیرینہ تاریخی تعاون کاوہ منقطع سلسلہ ایک بارپھر بحال ہو جائے گاجس میں بھارت کو قریبی اتحادی بنانے سے دراڑ آگئی تھی اسلام آباد کے نالاںپالیسی ساز حلقے اب راضی ہیں جس سے جنوبی ایشیا کی جوہری طاقتوں بھارت اور پاکستان سے امریکی تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے لیکن پیشِ نظر رکھنے والی بات یہ ہے کہ امریکاکے لیے پاکستان میں سماجی کے ساتھ اب بھی کئی سیاسی مسائل موجودہیںطاقتور اپوزیشن رہنما اقتدار سے محرومی کو امریکی سازش سے نتھی کر رہے ہیں یہ بیانیہ دونوں ملکوں کو قریب لانے کی راہ میں اب بھی ایک اہم رکاوٹ ہے اپوزیشن رہنما کا یہ بیانیہ امریکہ تک محدود نہیں وہ چین کو بھی محدود رکھنے کے متمنی ہیں اُن کے دور میں سی پیک منصوبوں پر جاری کام میں تساہل دیکھنے میں آیا انھی وجوہات کی بناپر امریکہ سمیت چین کے لیے پاکستان قابلِ اعتماد یا قابل اعتبارحلیف نہیں رہا بلکہ دونوں ممالک شکوک و شبہات کا شکار ہیں علاوہ ازیں شہباز شریف مقبول عوامی رہنما نہیں بلکہ کمزورپوزیشن کے مالک ہیں یہ کمزوری اُن کے فیصلوں سے بھی جھلکتی ہے اسی لیے وزیرِ اعظم کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کو محض پیشکش ہی تصور کرنا چاہیے عملی طور پر قبولیت کا امکان معدوم ہے۔
پاکستان نے ماضی میںچین اور امریکاکو قریب لانے میں پُل کا کردارضرور ادا کیا مگر اب حالات بدل چکے ہیں روس کی شکست وریخت کے بعد امریکی ہدف چین کی وحدت کو نقصان پہنچاناہے اِس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے تائیوان کا انتخاب کیا گیا ہے ماضی میں روس کو توڑنے کے لیے معیشت تباہ کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی مگر چین چوکناہے اُس نے امریکی عزائم بھانپتے ہوئے صبرو تحمل کی پالیسی چھوڑکر جارحانہ اقدامات شروع کردیے ہیں امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے دورہ تائیوان نے محاز آرائی میں شدت پیداکر دی ہے جس سے سفارتی حلقوں کو خدشہ ہے کہ روس اور یوکرین کی طرح چین و تائیوان میں بھی محدود فوجی جھڑپیں ناممکن نہیں ایساہونے سے آبنائے تائیوان جیسی اہم تجارتی گزرگاہ میں جاری تجارتی سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں امریکا جس طرحٔ اپنی سلامتی کے حوالے سے حساس ہے اور کسی ملک کو خطرہ بننے کی اجازت نہیں دیتا اگر دیگر ممالک کی سلامتی کے متعلق خودبھی خطرہ بننے سے گریز کرے اور سماجی و اقتصادی شعبوں میں تعاون کے ذریعے اعتمادکی فضا بہتر بنائے تو نہ صرف چین و امریکا کے درمیان تنائو کم ہو سکتا ہے بلکہ سرد جنگ جیسے ماحول کا خطرہ بھی ٹل سکتاہے جس کے بعد کسی ثالثی کی ضرورت بھی نہیں رہے گی بلکہ کوووڈ19 جیسی عالمی وبائوں پر قابوپانے میں بھی آسانی ہو سکتی ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو تنائو کی کیفیت میں اضافہ ہوتا رہے گا جس کا واضح امکان ہے لہذا پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ عالمی تنازعات میں دخل اندازی سے اُن کا حصہ بننے کی بجائے ملکی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔