... loading ...
بارشوں کے تیسرے اسپیل اور چوتھے اسپیل نے بھی بلوچستان کے متعدد اضلاع کو متاثر کیا، چوتھے اسپیل کے باعث شمالی اضلاع قلعہ عبداللہ اور موسیٰ خیل میں تباہی مچ گئی، اوتھل کے مقام پر کوئٹہ کراچی شاہراہ پر آمد و رفت دوبارہ معطل ہوگئی، مزید ڈیم ٹوٹ گئے، جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 200 سے تجاوز کرگئی ہے۔پی ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان کے 34 میں سے 26 اضلاع مون سون بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں، 40 ہزار گھر جزوی یا مکمل تباہ ہوئے ہیں، 5 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، 2100 کلو میٹر سڑکیں اور 25 پل بہہ گئے، بلا شبہ انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے بھاری فنڈز درکار ہوں گے۔ بلوچستان حکومت نے ابتدائی تخمینہ 35 ارب روپے کا لگایا تھا، بعد ازاں صوبائی اسمبلی نے وفاق سے 60 ارب روپے کے پیکیج کا مطالبہ کیا۔گویا صوبے کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، بلوچستان حکومت نے بیشتر جاں بحق افراد کے لواحقین کو 10، 10 لاکھ روپے فراہم کردیئے ہیں، یہ وزیراعظم شہباز شریف کی خصوصی تاکید اور دلچسپی سے ممکن ہوسکا ہے، وہ کافی متحرک ہیں اور سیلاب کے حالات میں دو مرتبہ بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ تاہم معاوضہ کی ادائیگی میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم نے صوبوں کے اشتراک سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے سروے کی ہدایت کی ہے، سروے سے پہلے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو تین دن کے اندر 50 ہزار روپے فی خاندان امداد فراہم کرنے کی ہدایات دی ہیں، چناںچہ بدعنوانی اور غیر ذمہ دارانہ ماحول میں بحالی اور مصرف کا عمل خصوصی نگرانی کا متقاضی ہے، نامعقولیت گاہے بگاہے پاک فوج کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ناقدین نامعقولیت سے بغل گیر ہیں، جو حکومتی عنایات سے مستفید ہورہے ہیں، ساتھ طرح طرح کے شکوک پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، جس کا سامنا فوج کو کرنا پڑتا ہے۔
ضلع لسبیلہ سیلاب میں ڈوب گیا، وزیراعلیٰ اور بھوتانی خاندان کو حب و لسبیلہ کی راج دھانی کی پڑی ہے، کل تک کے یہ دوست اب ایک دوسرے سے بدظن ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی اور دوسرے سیاسی و انتظامی معاملات پر اختلاف پیدا ہوا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو نے ایک سرمایہ دار علی حسن زہری کو لا کھڑا کردیا ہے جو صوبائی وزیر صالح بھوتانی اور ان کے بھائی ایم این اے اسلم بھوتانی کو نا پسند ہے، بھوتانی ڈپٹی کمشنر افتخار حسین بگٹی پر اڑے رہے۔عبدالقدوس بزنجو اور علی حسن زہری نے ان کا تبادلہ کراکر مراد کاسی کو ڈپٹی کمشنر تعینات کردیا، علی حسن زہری پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خاص لوگوں میں سے ہیں، اس شخص کی اہلیہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹ کی رکن ہیں، ناصرف بلوچستان بلکہ کراچی اور سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے توسط سے انتظامی تبادلوں اور دیگر حوالوں سے اثر و رسوخ کے حامل ہیں۔بلوچستان میں کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو وزراء اور ایم پی ایز سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، سردست عبدالقدوس بزنجو نے بھوتانی برادران کی چلنے نہ دی ہے، لسبیلہ میں آفت کے دوران رکن اسمبلی جام کمال خان متحرک ہیں، تقریباً تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کرچکے ہیں، مسائل اور ریلیف بارے متعلقہ حکام سے رابطہ کئے ہوئے ہیں، متاثرہ علاقوں کے طویل سفر کئے ہیں۔ چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی پوری طرح فعال ہیں، خصوصاً لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی شہید سیلاب اور بارشوں کے دوران مسلسل دوروں پر تھے، یہاں تک کہ اکثر سیکیورٹی کی حساسیت بھی نظر انداز کر جاتے تھے، دور دراز کے علاقوں میں متاثرین سے گھل مل جاتے، اسی ریلیف آپریشن کے دوران لسبیلہ میں ہیلی کاپٹر حادثہ پیش آیا اور وہ میجر جنرل امجد حنیف، بریگیڈیئر محمد خالد اور ہیلی کاپٹر عملے کے ساتھ خالق حقیقی سے جاملے، حادثے کے بارے میں بدگمانیاں پھیلانے کی لا حاصل کوششیں بھی ہوئیں۔
سچی بات یہ ہے کہ صوبے کی حکومت کئی مسائل کی حامل بنی ہوئی ہے، یہ معیار نفرتوں اور دوریوں و بداعتمادیوں کو فروغ دے رہا ہے، اتنے نااہل اور غافل ہیں کہ 21 جولائی سے ریڈ زون پر خواتین اور بچوں نے دھرنا دے رکھا ہے، شاہراہیں بند ہے مگر وزیراعلیٰ ہائوس کسی مثبت پیشرفت سے قاصر ہے، امن کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے، صوبے کی حکومت اس تناظر میں اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہے، یقیناً یہ ذمہ داری تنہاء فورسز کی نہیں ہے، جن پر حالیہ چند دنوں میں مزید کئی حملے ہوچکے ہیں۔ضلع ہرنائی کے علاقے خوست کے پہاڑوں سے 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات کو تاریکی میں حملہ ہوا، جس میں 2 اہلکار جاں بحق ہوئے اور ایک میجر اور 4 اہلکار زخمی ہوئے، پھر احتجاج کے دوران ایک نوجوان گولی لگنے سے جاں بحق ہوا، متعدد افراد زخمی ہوئے، ان میں بچے بھی شامل ہیں۔یہ مسئلہ بلوچستان اسمبلی کے 15 اگست کے اجلاس میں اٹھا، اجلاس میں واقعہ پر تحریک التواء پیش کی گئی، عوامی نیشنل پارٹی کے اراکین اصغر خان اچکزئی، زمرک خان اچکزئی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے، بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ اور بعض دوسرے اراکین نے ایف آئی آر درج کرنے اور جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا۔اجلاس میں وزیراعلیٰ اور نہ وزیر داخلہ موجود تھے تاکہ معاملہ ٹھنڈا کیا جاتا، یہاں تک کہ لواحقین اور سیاسی جماعتوں نے لاش کے ہمراہ کوئٹہ ہرنائی شاہراہ بند کرکے دھرنا دے دیا، جو 17 اگست تک جاری رہا، جس کے بعد میت کی تدفین کردی گئی، یعنی صوبے کی حکومت یہاں بھی فوری بیداری نہ دکھا سکی ہے، بروقت فضاء موافق اور ہموار بنانے میں ناکام رہی ہے۔مستونگ میں 8 اگست کو کرسچن کالونی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کی، جس سے 4 بچے اور ایک شخص زخمی ہوا، زخمی شخص ولسن مسیح اگلے دن کوئٹہ میں دوران علاج چل بسا، ولسن مسیح سابق رکن بلوچستان اسمبلی ہینڈری مسیح کے بھائی تھے۔ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دوسرے مسلح گروہ بھی فورسز پر متعد حملے کرچکے ہیں، گویا اس صورتحال میں صوبے کی حکومت غیر مؤثر بنی دکھائی دے رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔