... loading ...
دوستو،ہنسنا ہماری صحت پر متعدد مثبت اثرات مرتب کرتا ہے جو ممکنہ طور پر ہمیں امراضِ قلب سے بچاؤ کے لیے مدد دے سکتا ہے۔دی ہارٹ فاؤنڈیشن کے مطابق ہنسنے کے اثرات قلبی ورزش کے مساوی ہوتے ہیں۔ یہ عمل دل کے دھڑکنے کو مزید بہتر اور اتنی ہی کیلوریز کو کم کرتا ہے جتنی کیلوریز چہل قدمی سے ہوتی ہیں۔ ہنسنے کا عمل مضر کولیسٹرول کو کم کرتا ہے اور مفید کولیسٹرول کو بڑھاتا ہے۔ذیابیطس کے مریضوں پر کی جانے والی ایک تحقیق جو کولیسٹرول کی زیادتی کا شکار بھی تھے، ان میں ایک سال تک روزانہ آدھا گھنٹہ ہنسنے کے مثبت اثرات دیکھے گئے۔ سال کے آخر میں شرکاء میں مفید کولیسٹرول میں 26 فی صد کا اضافہ ہوگیا تھا۔ہنسنا ہمارے ذہن پر موجود دباؤ کو بھی کم کرتا ہے، ہماری خون کی شریانوں کو کھولتا ہے اور فشارِ خون کو کم کرتا ہے۔یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سینٹر کی ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ ہنسنے کے دوران ہماری شریانیں نائٹرک آکسائیڈ خارج کرتی ہیں، جو ان شریانوں کو پھیلانے کا سبب بنتی ہے۔نائٹرک آکسائیڈ کا تعلق سوزش کی کمی اور شریانوں میں گٹھلیاں بننے میں کمی سے بھی ہے۔یونیورسٹی آف ٹیکساس میں کی جانے والی ایک اور تحقیق میں ایک مزاحیہ ویڈیو اور شریانوں میں پیدا ہونے والی فوری لچک کے درمیان تعلق بھی پایا گیا۔
اس تازہ تحقیق کے بعد آپ لوگوں پر لازم ہوگیا ہے کہ ہنسنے،ہنسانے پر توجہ دیں تاکہ آپ کے اندر اور اطراف میں موجود بیماریوں کا خاتمہ ہوسکے۔۔ ہم تو پہلے ہی ہنسنے اور ہنسانے کے قائل ہیں، چار دن کی زندگی میں ٹینشن لے کر بندہ مزید کتنے دن زندہ رہ سکتا ہے۔۔ اس لئے آج کی اوٹ پٹانگ باتیں صرف ہنسنے اور ہنسانے پر فوکس ہوں گی۔۔ ہمارے ایک جاننے والے شادی شدہ دوست ہر نمازکے بعد انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کیاکرتے تھے کہ۔۔یااللہ مجھے اک نئی ساس عطا فرمادے۔۔اور پھر ایک دن ان کی دعا کو اللہ پاک نے شرف قبولیت بخشی۔۔ایک دن وہ دفتر سے گھر واپس پہنچے تو ان کی زوجہ محترمہ نے کچھ شرمندگی والے انداز میں انہیں بتایاکہ۔۔پاپا نے دوسری شادی کرلی ہے۔۔ واقعہ کی دُم: دعا انتہائی تفصیل سے مانگا کیجئے۔۔کہیں اس لڑکی والا حال نہ ہوجائے جو ہر نماز کے بعد دعا کیا کرتی تھی کہ ۔۔یااللہ میرے امی کو ایک خوب صورت سا داماد عطا فرما۔۔ کچھ دنوں بعد دعا تو قبول ہوگئی لیکن اس کی چھوٹی بہن کی شادی ہوگئی۔۔عام طور سے ناول پڑھنے کا شوق سب کو ہی ہوتا ہے۔ عام سے ناول میں اگر یہ جملہ لکھا ہوکہ۔۔۔ لڑکے نے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور دونوں ہنسی خوشی اپنی منزل کی جانب چل دیئے۔۔یہ جملہ عمیرہ احمد کے ناول میں کچھ اس طرح سے لکھا ہوگا۔۔۔ لڑکے نے فجر کے وضو میں دھوئے ہوئے ہاتھوں سے ماہِ مبارک میں چھٹکتی چاندنی جیسی دودھیا رنگت کی حامل لڑکی کا سیاہ دستانوں میں ملبوس گورا اجلا ہاتھ تھاما اور دونوں بآوازِ بلند الحمد للہ کہتے ہوئے ننگے پیر ساحلِ سمندر کی پاک ریت پر دھیمے قدموں سے چلنے لگے۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔کچھ لڑکے اس لیے شادی نہیں کرتے کہ بیوی برتن دھلوائے گی۔اوئے پاگلو 10منٹ لگتے ہیں بس برتن دھونے میں۔۔ باباجی کے اس فرمان پر ہم نے قطعی ’’جرح‘‘ نہیں کی کیوں کہ باباجی کافی پرانے شادی شدہ ہیں۔۔
ایک صاحب کی بڑی بیٹی بتا رہی تھیں کہ دو دن پہلے ابو نے کسی لہر میں آ کر امی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی جوانی میں ایک معاشقہ بھی کیا تھا تاہم وہ بری طرح ناکام رہا۔ مگر انہوں نے اس کسک کو دور کرنے کے لیے اپنی بڑی بیٹی یعنی کہ میرا نام اپنی محبوبہ کے نام پر رکھا تھا۔ بچی بتا رہی تھی کہ بات مذاق میں تھی اور مذاق مذاق میں ہی آئی گئی ہو گئی تھی، ویسے تو گھر ویسا ہی ہے اور کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی ماسوائے اس کے کہ ۔۔اب جب بھی امی مجھے بلاتی ہے تو آواز دیتے ہوئے یوں کہتی ہے۔۔’’ایدھر آ نی کُتیئے!‘‘۔۔بھٹو دور حکومت کا ایک واقعہ ہے کہ ایک عرب شیخ کو ایک حسین میمن لڑکی سے محبت ہوگئی۔۔( کراچی کے میمن اور پنجاب کے شیخ دونوں کنجوسی میں یکساں حیثیت رکھتے ہیں)۔۔عربی شیخ نے لڑکی کے باپ سے بات کی۔۔مجھے آپ کی بیٹی سے شادی کرنی ہے، میں اس سے پیار کرنے لگا ہوں۔۔ میمن والد نے کہا۔۔ہمارے ہاں برادری سے باہر شادی نہیں کی جاتی،میری بیٹی کی شادی میری بیوی کے بڑے بھائی کی بیوی کے دیور کی سالی کے بھائی سے طے ہوچکی ہے۔۔عربی شیخ نے کچھ سوچا اور پھر کہا۔۔میں آپ کی بیٹی کے وزن کے برابر سونا حق مہر میں دوں گا۔۔ میمن والد نے کہا۔۔مجھے کچھ وقت چاہیئے۔۔شیخ نے کہا۔۔اگر آپ کو وقت شادی کی تیاری کے لیے چاہیے تو مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے،بس آپ اپنی بیٹی کو دعاؤں کے سائے میں رخصت کردیں،شادی کا سارا خرچہ میں کروں گایا آپ کو وقت سوچنے کے لیے چاہیے؟؟میمن والد نے برجستہ کہا۔۔سونے میں تولنے کے بعد سوچنے کی گنجائش ہی کہاں بچتی ہے، میں بیٹی دبلی پتلی ہے، کچھ وقت دو تاکہ اس کا وزن بڑھا سکوں۔۔فیصل آباد میںایک دوست سے فون پر بات ہورہی تھی، باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ۔۔جب کوئی لڑکا بس میں پورا کرایہ نہیں دیتا اور خود کو اسٹوڈنٹ ظاہر کرتاہے تو ۔۔ کنڈکٹر اس سے پوچھتا ہے کہ۔۔’’جڑانوالہ‘‘ کی انگلش اسپیلنگ بتاؤ۔۔۔
کہتے ہیں ایک سکھ کو شراب کی پہچان کا بڑا دعویٰ تھا، ایک بار شرط لگ گئی، اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس کو شراب پیش کی جاتی تو وہ فوری شراب کے برانڈ کا نام بتا دیتا، یہ تجربہ مختلف برانڈ پیش کر کے کیا گیا ہر بار سکھ کا جواب درست ہوتا تھا۔ پھر کسی ستم ظریف نے بہت سی شرابیں مکس کر کے ایک گلاس دیا تو سکھ بار بار شراب کا گھونٹ بھرتا اور سوچ میں پڑ جاتا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ شراب کا کون سا برانڈ ہے۔ جب کافی دیر ہو گئی تو سکھ نے آنکھوں پر بندھی پٹی کھول دی اور شکست خوردہ لہجے میں کہاکہ ۔۔یہ تو پتہ نہیں ہے کہ یہ شراب کون سی کمپنی کی ہے مگر ایک بات واضح ہے کہ یہ کمپنی زیادہ دیر نہیں چلے گی۔۔واقعہ کی دُم: یہ بالکل غیرسیاسی واقعہ ہے، اسے موجودہ پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ ہرگز ہرگز نہ جوڑا جائے۔۔ویسے بھی میاں بیوی کی لڑائی میں ایک ہمیشہ غلط ہوتا ہے اور ہمیشہ صحیح ہوتی ہے۔۔باباجی اپنے زوجہ ماجدہ کے حوالے سے تبصرہ فرماتے ہوئے کہہ رہے تھے۔۔۔میں نے اسے دل دے دیا،حالانکہ ضرورت اسے دماغ کی تھی۔۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔بیوی اپنے شوہر کی ویسے ہی ماتحت ہوتی ہیں، جیسے فوج۔۔ وزیراعظم اور صدر کے۔۔۔پنجاب کے بعد اب کراچی میں بھی ڈینگی پھیل رہا ہے۔۔ لیکن کسی کو فکر نہیں۔۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔دور حاضر میں صرف وہی انسان تندرست ہے جو اپنے ٹیسٹ نہیں کرواتا۔۔ وہ ایک روز اپنے فیملی ڈاکٹر سے شکوہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔۔ ڈاکٹر صاحب ایک سال ہوگیا، دوا کھاتے آپ کی، بیماری جاتی ہی نہیں۔۔ ڈاکٹر جو کہ باباجی سے بہت فری تھا ہنستے ہوئے بولا۔۔باباجی ، اس عمر میں بیماری جانے کے لیے نہیں لے جانے کے لیے آتی ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر آپ واش بیسن میں پاؤں رکھ کر دھولیتے ہیں تو اطمینان رکھئے آپ بالکل بھی موٹے نہیں۔۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔