وجود

... loading ...

وجود

بھارت میں عوامی مقامات پرنمازپڑھنا جرم

پیر 08 اگست 2022 بھارت میں عوامی مقامات پرنمازپڑھنا جرم

یہ سوال بعض حالیہ واقعات کے بعد شدت سے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ کیا برادارن وطن کی برداشت اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہواٹھتے ہیں اور اس سے امن میں خلل اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔یہ اور اس قسم کے بعض دوسرے پریشان کن سوالات حال ہی کچھ واقعات کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ کئی شہروں میں عوامی مقامات پرنمازپڑھنے والوں کو گرفتار کرکے نقص امن کے اندیشے کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ بیشتر واقعات میں اس قسم کی رپورٹیں حکمراں بی جے پی اور سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں نے درج کرائی ہیں اور پولیس نے فوراحرکت میں آکر سخت کارروائی کی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جو نمازصدیوں سے مجبوری کی حالت میں عوامی مقامات پر ادا کی جاتی رہی ہے، وہ آج امن وامان کے لیے خطرہ کیسے بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ علمائے کرام کو یہ کہنا پڑا ہے کہ آج کے پرفتن حالات میں اگر کسی عوامی جگہ پر نمازادا کرنے میں کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو گھر جاکر قضا نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس معاملہ کے طول پکڑنے کی وجہ گزشتہ دنوں لکھن کے ایک نوزائیدہ مال میں نمازپڑھنے والوں پر قانونی کارروائی ہے۔اس کے بعد مسلسل خبریں آرہی ہیں کہ فلاں شخص فلاں جگہ نماز پڑھتے ہوئے پکڑا گیا اور پولیس نے اسے نقص امن کے اندیشے کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔اس قسم کی خبریں اترپردیش اور اس کی پڑوسی ریاست اتراکھنڈ سے تواتر کے ساتھ موصول ہورہی ہیں۔ سب سے تازہ واقعہ میرٹھ شہر کا ہے، جہاں ایک کمپلیکس میں نمازپڑھنے کا ویڈیو سامنے آنے کے بعدکھلبلی مچی ہوئی ہے۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے ضلع کنوینر دگوجے سنگھ نے ٹویٹر پر مذکورہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہلکھن کے لولو مال کی طرح میرٹھمیں واقع ایس ٹو ایس اسکوائر کمپلیکس میں نماز پڑھتا ہوا شخص۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے کنوینر نے یہ ٹوئٹ میرٹھ کے ڈی ایم اور اور مقامی پولیس کو بھی ٹیگ کیا ہے تاکہ وہ اس کے خلاف کارروائی کرسکیں۔ اس ٹوئٹ کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ بی جے پی آئی ٹی سیل پولیس کو کسی مجرمانہ سرگرمی کی اطلاع دے رہی ہو۔میرٹھ پولیس نے اس ٹوئٹ کے جواب میں کہا ہے کہ اس نے متعلقہ تھانہ انچارج کو ضروری کارروائی کی ہدایت دے دی ہے۔تھانہ انچارج کو اس معاملے میں جانکاری ملی ہے کہ کمپلیکس کی ایک دکان میں کام چل رہا تھا اور نمازکا وقت ہونے پر کسی دکاندار نے نماز پڑھ لی ہوگی۔اس سے قبل ہریدوار سے یہ خبر آئی تھی کہ بازار میں نمازپڑھنے پر پولیس نے آٹھ لوگوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے۔ ہریدوار کے ڈی ایس پی کے مطابق بارش کی وجہ سے ان لوگوں نے بازار میں ہی نماز پڑھی تھی۔ کچھ لوگوں نے اس پر اعتراض جتایا تو پولیس کی طرف سے کارروائی کی گئی۔بعد میں انھیں ضمانت پر رہا ضرور کردیا گیا مگر ان کے خلاف مقدمہ چلتا رہے گا۔
اس قسم کی خبریں ایک ایسے دور میں آرہی ہیں جب اترپردیش اور اتراکھنڈ میں ایک مہینہ طویل کانوڑیاترائیں مصروف شاہراں سے گزر رہی ہیں اور ان یاتریوں کی نقل وحرکت کے تحفظ کے پیش نظر ٹریفک روک دیا گیا ہے۔کانوڑیوں کے تحفظ کے لیے پولیس اور انتظامیہ کو خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔اسکول کالج بند کردئیے گئے ہیں۔ ایک ماہ کے دوران صوبہ میں گوشت کی خرید وفروخت پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔شہروں میں نقل وحمل کے عوامی ذرائع پربھی پابندی عائد ہے تاکہ کانوڑیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔بعض ٹی وی چینلوں نے ایسی رپورٹیں نشر کی ہیں جن میں پولیس کے اعلی افسران کانوڑیوں کے پاں دھوتے اور ان کی تیل مالش کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں پولیس کے اعلی افسران ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر کانوڑیوں پر پھول برسارہے ہیں تاکہ وزیراعلی کی آنکھوں کا تارا بن سکیں۔ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ یوگی بابا کی حکومت کانوڑیوں کی خاطرمدارات میں کیا کچھ کررہی ہیں، لیکن ہم یہاں یہ سوال ضرور پوچھنا چاہتے ہیں کہ سڑک یا عوامی مقامات پر نماز پڑھنے والوں کے خلاف کس قانون کے تحت کارروائی کی جارہی ہے اور کانوڑیاتریوں کو کس قانون کے تحت وی آئی پی کا درجہ دیا جارہا ہے۔اسی درمیان یہ سوال بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا آنے والے محرم کے دوران تعزیہ داروں پر بھی پولیس اسی طرح پھول برسائے گی اور ان کی خاطر مدارات کرے گی؟ظاہر ہے دستور وقانون کی رو سے جب ملک کے تمام شہری برابرہیں اور وہ مساویانہ حقوق کے طلب گار ہیں تو پھر کس بنیاد پر ایک مذہب کے ماننے والوں کی راہ میں ریڈ کارپٹ بچھائے جارہے ہیں اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں کی مجبوری میں نماز کی ادائیگی کرنے والوں کو دوفرقوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور عوامی مقامات پر گڑبڑپیدا کرنے کی دفعات کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جارہا ہے۔
اترپردیش کے کئی اضلاع سے ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ جگہ جگہ مسلمانوں نے کانوڑیوں کے لیے استقبالیہ کیمپ لگائے ہیں اور وہ ان پر پھول برسارہے ہیں۔انھیں کھانا اور پانی فراہم کررہے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی قایم کرنا اور سیاست دانوں کی طرف سے دلوں میں پیدا کی گئی کدورت کو دور کرنا ہے۔مگر مسلمانوں کے اس جذبہ خیرسگالی کا بھی کوئی پاس نہیں رکھا جارہا ہے اور ان کے ساتھ اعلانیہ دویم درجہ کے شہریوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہم ایک سیکولر جمہوری ملک کے باشندے ہیں جہاں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے مگر ہر مذہب کے لوگوں کو اپنی رسومات اور عبادت کی آزادی فراہم کی گئی ہے۔ مندر، مسجد، گرودوارے اور چرچ عبادت وریاضت کے لیے بنائے گئے ہیں، لیکن سبھی مذاہب کے لوگ سڑکوں پر جلوس،بھجن، بھنڈارہ، رام لیلا اور دیگر تقریبات منعقد کرتے ہیں اور اس کام کے لیے اکثر ٹریفک روک دیا جاتا ہے۔ مسلمان بھی جمعہ اور عید بقرعید کی نماز جگہ کی قلت کے سبب سڑکوں پر ادا کرتے آئے ہیں۔ اس کے لیے پولیس خصوصی بندوبست کرتی رہی ہے۔ لیکن جب سے سڑکوں پر نماز کی ادائیگی کے خلاف فرقہ پرست اور فسطائی عناصر نے شرانگیز مہم شروع کی ہے تب سے سڑک یا کسی عوامی مقام پر نماز کی ادائیگی جرم تصور کی جارہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال ہریانہ کے صنعتی شہر گڑگاں میں شرپسندوں نے بعض پارکوں میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے خلاف زبردست محاذآرائی کی اور آخر کار حکومت کو اس بات پر مجبور کردیا کہ اس نے ان عوامی مقامات پر نمازجمعہ کی ادائیگی روک دی جہاں برسوں سے نماز پڑھی جارہی تھی۔
اس دوران اترپردیش کی مشہوردینی درس گاہ جامعہ ہتھورا باندہ کے صدر مفتی اور شیخ الحدیث مفتی سید محمدعبیداللہ اسعدی کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ٹرین میں،اسٹیشن پر، کسی ڈھابے پر نماز پڑھنا آفت کو مول لینا ہے۔ ایسے میں نماز کا وقت ہوجائے تو یہ شجاعت وبہادری نہیں ہے کہ وہاں نمازادا کی جائے۔ انھوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہپہلے نظام یہ تھا کہ کسی جگہ شریعت کے احکام کی بجاآوری میں دشواری پیدا ہورہی ہو تو وہاں سے دوسری جگہ جاکر بس جا، اس لیے خدا کی زمین بہت وسیع ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ ممکن نہیں ہے۔مفتی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہیہیں رہ کر اپنی جان ومال،عزت وآبرو اور اپنے دین وشریعت کی حفاظت کرنی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر