... loading ...
طویل سماعت کے بعدپولیٹکل پارٹیز آرڈر 2022کی دفعہ چھ کے تحت الیکشن کمیشن نے ممنوعہ عطیات بارے آخرکار فیصلہ سناہی دیا جس کے مطابق پی ٹی آئی نے غلط رقوم وصول کی ہیں مگر وصولی عطیات کے حوالے سے صرف آٹھ تسلیم جبکہ سولہ اکائونٹس کی تفصیلات کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پوشیدہ رکھاجو آئین کے آٹیکل سترہ کی خلاف ورزی ہے نیز چونتیس غیر ملکیوں سے بھی وصولیاں کیںجو ثابت ہو چکی ہیں اِس فیصلے کی روشنی میں تحریکِ انصاف کو کافی نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ نہ صرف پارٹی کے سربراہ کے طور پرعمران خان کے جمع کرائے گئے بیانِ حلفی غلط قرار دے دیے گئے ہیں بلکہ پی ٹی آئی کو غلط وصولیاںضبط کرنے کاشوکاز نوٹس بھی مل چکا ہے جس سے جماعت کے لیے مقبولیت برقراررکھنے میں مشکلات پیداہوں گی بظاہر پی ٹی آئی رہنما اِس فیصلے کو بہت نر م سمجھ رہے ہیں بلاشبہ شوکاز اور ممنوعہ عطیات ضبط کرنے کے حوالے سے دیکھیں تو یہ فیصلہ زیادہ سخت نہیں کیونکہ جماعت کالعدم ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے مگر عطیات کی بابت جمع کرائے جانے والے پارٹی چیئرمین عمران خان کے بیانِ حلفی کوغلط قرار دینے کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں اِس ایک فیصلے سے اب عمران خان بھی اُسی پوزیشن قریب آگئے ہیں جس مقام پر ملک کی دیگرمقبول قیادت ہے خود کو صادق و آمین ثابت کرنے کا انھیں بھی مرحلہ درپیش ہے اگر وہ جمع کرائے بیانِ حلفی کو درست ثابت نہیں کر پاتے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے جھوٹا قرار پانے پر کوئی بڑی عدالت سے رجوع کرتا ہے تو نااہلی کا سامنا کرنا یقینی ہے ایسا ہونے سے ایک تو اُن کی ایمانداری اور دیانتداری کا تاثر ختم ہو گا دوسرا ملک کی دیگر سیاسی قیادت کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ عمران خان جو کہتے ہیں اُس پر خود عمل بھی نہیں کرتے قول و فعل کا یہ تضاد واضح ہونا انھیں چاہنے والوں کی نظروں سے گرانے کا باعث بن سکتا ہے۔
پی ٹی آئی پہلے ہی چیف الیکشن کمیشنرپر عدمِ اعتماد کرتے اُن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر چکی ہے عمران خان و دیگر زعما کہتے ہیں کہ وہ اُن سے بھی دیگر جماعتوں کی قیادت کی طرح سلوک کریں وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن سب سے مساوی سلوک کی بجائے اُن کو خاص طور پر ٹارگٹ کررہا ہے اُ ن کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پی پی ،ن لیگ ، جمعیت علمائے پاکستان اورایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ملنے والے عطیات کا بیک وقت جائزہ لیکرایسا غیرجانبدارانہ فیصلہ کیا جائے جسے سب تسلیم کریں پی ٹی آئی کے یہ مطالبات جائز اور مناسب ہیں ایسا کرنے میں کوئی خاص قباحت نہیں کیونکہ اِس حوالے سے الیکشن کمیشن میں مختلف درخواستوں کی سماعت جاری ہے مگر بتانے والی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ عطیات بارے فیصلہ اُس کی کسی حریف جماعت کی ایما پر نہیں ہوابلکہ اِس کے مدعی اکبر ایس بابر ہیں جن کاشمار پی ٹی آئی کے بانی اراکین میں ہوتا ہے اِس لیے یہ کہنا کہ شوکاز دلانے میں کسی حریف جماعت کی سازش یا دبائو کا عمل دخل ہے مناسب نہیں بلکہ یہ لنکا گھر کے بھیدی نے ڈھائی ہے پی ٹی آئی کو حالات کا دھارا انتہائی نازک موڑاور بھنور میں لے آیا ہے جس سے بچنا اسی صور ت میں ممکن ہے کہ قیادت محض بیان بازی پر زوردیکر خودکو سچا ثابت کرنے کی بجائے قانونی ماہرین کے ذریعے حالات کا سامنا کرے اور قانونی دلائل سے خود کو راست گو ثابت کرے وگرنہ عطیات سے محرومی کے ساتھ پارٹی چیئرمین کی نااہلی کا خطرہ زیادہ دور نہیں رہا ۔
ممنوعہ عطیات کیس میں پی ٹی آئی کو جو سب سے بڑاریلیف ملا ہے وہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے کم از کم یہ تسلیم کر لیا ہے کہ رقوم کو بیرونی عطیات کہنا مناسب نہیں البتہ یہ ایسے ممنوعہ عطیات ہیں جن کی عطیہ کرد ہ رقوم پر کئی قسم کے سوالات ہیں جن کے مناسب جواب نہ دے کر پارٹی نے ایک جرم کرنے کے بعد دوسرا جرم کیا ہے ممکن ہے اِس کی وجہ جماعت کی فلاحی سرگرمیاں ہوں جن کے لیے لوگ بڑی تعداد میں عطیات جمع کراتے ہیں پھر بھی رقوم چھپانے کے لیے عمران خان کے جھوٹے بیانِ حلفی کا سہارہ لینے کی منطق زہن تسلیم نہیں کرتااگر کیس کے آغاز پر ہی جماعت اور فلاحی اِداروں کی تفصیلات الگ الگ پیش کی جاتیں تو ممکن ہے ایسا فیصلہ سامنے نہ آتا مگر لاپرواہی اور غیر سنجیدگی کی بنا پر دوقسم کے نقصانات کا سامنا ہے اول عطیات کی ضبطگی یقینی ہے دوم عمران خان کسی بھی وقت کسی عدالت سے نااہلی کی زد میں آسکتے ہیں پی ٹی آئی کے اکابرین کا موقف ہے کہ اِس فیصلے کے پسِ پردہ حکمران اتحاد ہے اور حکومتی دبائو پر ہی الیکشن کمیشن نے دیگر جماعتوں سے پہلے پی ٹی آئی کے بارے میں یہ فیصلہ سنایا ہے اسی بنا پر چیف الیکشن کمیشن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے پربھی کام جاری ہے مگر سنجیدہ حلقے اِس رویے کو مسائل کی گرداب میں مزید دھنسنا قرار دیتے ہیں چیف الیکشن کمیشن اور پی ڈی ایم قیادت پر الزام عائد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سترہ جولائی کا ضمنی انتخاب ہارنے کے بعدحکومتی اتحاد نے الیکشن کمیشن سے جلد فیصلہ سنانے کا مطالبہ کیا پھربھی حکومت کو زمہ دارٹھہرانے میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ یہ کیس مسلسل آٹھ برس تک زیرِ سماعت رہا اور عطیات کی بابت لگائے جانے والے الزامات کاجائزہ لینے کے لیے ایک سیکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بڑی عرق ریزی سے ایسے واضح شواہد پیش کیے جس سے پی ٹی آئی کا موقف غلط ثابت ہوا اورنتیجے پر پہنچ کر الیکشن کمیشن نے اکیس جون کو فیصلہ محفوظ کر لیا جو گزشتہ روز سنا دیا گیا ۔
چودہ نومبر2014میں بانی رکن اکبر ایس بابر نے جب اپنی جماعت سے ناراض ہو کر الیکشن کمیشن کے روبرو کیس دائر کیا تو ابتدامیں قیادت نے سرسری سا لیا جب مسلسل سماعت جاری رہی اور الیکشن کمیشن کی طرف سے سوالات پوچھنے کا سلسلہ دراز ہونے لگا تب بھی سنجیدگی سے مقدمے کا سامنا کرتے ہوئے ختم کرانے کی بجائے جان بوجھ کرطوالت دینے کی کوشش کی گئی ممنوعہ عطیات کے کیس میں تیس مرتبہ التوا مانگا گیاچھ دفعہ کیس ناقابلِ سماعت ہونے کی درخواستیں دائر کیں جب اِس طرح بات نہ بنی تو باربار وکلا کو بدلنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا 9 دفعہ وکیل بدلنے کے باوجود بھی آخر کار جماعت کو کیس کا سامنا کرنے کی طرف آناہی پڑا حالانکہ ابتدا میں ہی اگر سنجیدگی کا مظاہر ہ کرلیا جاتا تو یقینی طورپر صورتحال مختلف ہوتی اور عطیات ضبط ہونے کے خدشات سمیت جماعت کے چیئرمین کی نااہلی کے موجودہ حالات ہر گز نہ بنتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔