... loading ...
منگ ل12جولائی کو بلوچستان کے سیاحتی علاقے زیارت میں’’ ورچوم ‘‘کے مقام پر پاک فوج کے حاضر سروس آفیسر، لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا کے اغوا اور قتل نے ایک بار پھر صوبے میں حالات کی حساسیت کی جانب متوجہ کیاہے۔ بلا شبہ صوبے میں امن کی یہ غیر یقینی کی فضاء خراب حکمرانی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان سطور میں پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ کوئٹہ اور متصل اضلاع کی کوئلہ کی صنعت مسلح گروہ بند کراچکے ہیں۔ جن کاکوئلہ کان مالکان ٹھیکیداروں اور مزدوروں سے ماہانہ بنیاد پر رقم ادا کرنیکا مطالبہ ہے۔ مسلح تنظیم نے پراچہ کول مائن کمپنی کے منیجر شیر بہادر کو بھی قتل کردیا ہے ،جسے بارہ جون کو اغوا کیا تھا ،نعش کوہ زرغون میں پھینک دی تھی جو 27 جولائی کو ملی ہے۔عرصہ دراز سے کوئلہ کانوں میں کام کی بندش کے باوجود اس اہم مسلہ بارے کوئی سر جوڑ کربیٹھا ہے نہ سنجیدگی دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت سرے سے ان سنگین مسائل کو اپنا منصبی فریضہ سمجھتی ہی نہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ صو بائی بجٹ میں بھاری رقم مختص کرنے کے بعد اب یہ روگ فورسز کا ہے۔جبکہ خودکومحض مذمتوں تک محدود کئے رکھا ہے۔ اس ابتری کے لئے اس لیے بھی صوبے کی حکومت ذمے دار ہے کہ جس نے پولیس اور بالخصوص لیویز بشمول کمشنر ، ڈپٹی کمشنرز کو وزراء اور اراکین اسمبلی کے تابع فرمان بنائے گئے ہیں۔ اراکین اسمبلی بشمول حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکین ذاتی ترجیح و اغراض کے تحت مرضی کے ڈپٹی کمشنر اور کمشنرز اپنے اضلاع اور ڈویڑن میں تعیناتی کراتے ہیں۔ یوں یہ سرکاری افسران ان کی خدمت بجا لانے اور حکم کی تعمیل میں لگے رہتے ہیں۔ سول بیورو کریسی ہر لحاظ سے وزیراعلیٰ ان کے وزراء اور اراکین کی زیر دست ہے۔ ذرا کوئی آفیسر یا کمشنروڈپٹی کمشنر قانون اور کار سرکار کو مقدم ر کھنی کی کوشش کر تا ہے تو اگلے لمحہ او ایس ڈی بناد یا جاتا ہے یا کھڈے لائن لگانے کے دوسرے ہتھکنڈوں کی زد میں لے لیے جاتے ہیں۔ بیورو کریسی آزاد ہو تو صوبے کو درپیش کئی انتظامی ، مالی ، ترقیاتی اسی طرح امن وامان کے مسائل سے متعلق کے اچھے نتائج آنا شروع ہوں گے ۔گویا کرنل لئیق اور اس کے چچا زاد بھائی عمر جاوید کا اس قدر آسانی سے ایک پرامن علاقے سے اغوا میں متذکرہ عوامل شامل ہیں۔
خواتین و بچوں کے سامنے ایک اعلیٰ فوجی آفیسر کا اغوا دراصل لیویز فورس کی مکمل ناکامی اور فرائض میں غفلت کا نتیجہ ہے، کمشنر، ڈپٹی کمشنر نیز انہیں تعینات کرنے والے جوابدہ اور قابل مواخذہ ہیں۔ کرنل لئیق ڈی ایچ اے کوئٹہ میں ڈائریکٹر لینڈ ایکوزیشن تعینات تھے۔ جو12جولائی کو عید کی تعطیلات میں اہل خانہ کے ساتھ زیارت سیر و تفریح کے لئے جارہے تھے کہ ورچوم کے مقام پر مسلح افراد نے قومی شاہراہ پر سر عام ان کی گاڑی روک لی۔ شناخت معلوم کرنے کے بعد کرنل لئیق اور اس کے کزن عمر جاوید جو پراپرٹی ڈیلر تھے کو ہمراہ لے گئے۔ یہ کھلی واردات لیویز فورس کی قطعی عملداری میں بڑی آسانی سے سرزد ہوئی ۔ مسلح افراد جن کی تعداد دس سے بارہ بتائی گئی ہے نے واردات پہلے ورچوم میں دکانیں بھی بند کرائی تھی۔ چناں چہ مغویوں کو لے کرپیدل خفیہ ٹھکانوں کی طرف روانہ ہوئے۔ اطلاع پر معا سرچ آپریشن کا آغاز ہوا ، فضائی اور زمینی آپریشن کے پیش نظر شاید مسلح افراد کے لئے مغویوں کو کمین گاہ تک لے جانا ممکن نہ رہا۔ اس بنا 14جولائی کو کرنل لئیق کو زیارت اور ہرنائی کی سرحد پر مانگی ڈیم کے قریب سر میں گولی مار کراور عمر جاوید کو گلہ دبا کر قتل کردیا تھا۔ کرنل لئیق کے جسم کے ساتھ بم باندھے گئے تھے، تاکہ جب فورسز نعش اٹھائے تو دھماکے ہوں۔ آپریشن میں ایک حوالدار خان محمد جاں بحق ہوا۔ آئی ایس پی آرنے آپریشن کے دوران مقابلے میں نو عسکریت پسندوں کے مارے جانے کی خبر دی ہے۔بے خبر حکومت کی جانب سے اس سانحہ پر وہی روایتی مذمتی بیانات کا تانتا بندھا رہا۔ حکومت کی ترجمان جو کوئٹہ کے تین ستارہ ہوٹل میں مقیم ہیں نے جب کرنل لئیق جاں بحق ہو ئے بھی ملبوسات کی ماڈل کی طرح پوز بنائے تصویر کے ساتھ مذمتی بیان جاری کیا۔ گویا صوبے میں حکمرانی اور اس کے معیارات اور تقا ضے صریح مذاق بن چکے ہیں۔ دوسری طرف ہلاک ہونے والے افراد و نوجوانوں کے لواحقین اور بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور دوسرے بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں نے ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا۔ کہا کہ پانچ افراد لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھے۔ وزیر داخلہ ضیاء للہ لانگو نے بھی اس کی تصدیق کی ہے تاہم یہ بھی بتاچکے ہیں کہ تھانوں میں گمشدگی کی رپورٹیں اور لاپتہ افراد کی فہرست میں نام شامل کئے گئے تھے ،جو دراصل ریاست مخالف سرگرمیوں میں مشغول تھے۔ان افراد میں تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل تھے۔ جس میں23 سالہ شہزاد بلوچ نے سول انجینئر نگ کر رکھی تھی اور پولیس کے ریٹائرڈ انسپکٹر کے بیٹے تھے۔ مختیار احمد نے حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی سے فزیوتھراپی کی ڈگری لی تھی۔نو میں سے سات لاشوں کی شناخت ہوئی۔ دو افراد کا تعلق مری قبیلے سے تھا۔ ایک ہزار گنجی اور دوسرا ہرنائی کا رہائشی تھا ۔یہاں ایک حیرت والی پیشرفت یہ دکھائی دی ہے کہ 29 جولائی ایک نوجوان ظہیر احمد ایک قبائلی سرکردہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرکے منظر عام پر آگئے ہیں ۔جس کے بارے بتایا گیا تھا کہ زیارت آپریشن میں مارا گیا ہے ۔ ان کی گمشدگی ایف آئی آر درج تھی ۔ان کے مارے جانے کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کا تقاضا کیا۔بی این پی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات آغا حسن جو کہ وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی بھی ہیں نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سے ملاقات کی۔ بی این پی کے پریس ریلیز کے مطابق رانا ثناء اللہ نے صورتحال پر تشویش ظاہر کی اور جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی انسانی حقوق کے خلاف عمل قرار دیا ہے۔21جولائی جولائی کو وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے تحت ریلی نکالی گئی جس میں بلوچ خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ ریلی وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے احتجاج کے لئے روانہ ہوئی کہ حکومت کے کہنے پر منتشر کرنے کی کوشش ہوئی ان پر ڈنڈے بر سائے، آنسو گیس استعمال کیا۔ خواتین اور بچوں کی حالت غیر ہوگئی تھی۔جو معاملات سدھارنے کی بجائے مزید خراب کرنا تصور کیا جاتاہے۔ بہر حال وائس فار بلوچ مسنگ پر سنز نے خواتین اور بچوں کے ہمراہ ریڈ زون پردھرنا دے ہی دیا ۔چناں چہ دھرنے کے دباؤ سے بڑھ کر وزیر اعلیٰ نے اپنی حکومت کی بقا و دائمی کی خاطر جوڈیشنل کمیشن کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو مراسلہ بھیجنے پر مجبور ہوئے۔ تاکہ بی این پی سے تعلق خراب نہ ہوکہ ان کی حکومت کے ساتھ شراکت داری ہے۔یعنی اپنے مفاد کے لیے کسی اور کو بلی کا بکرا بنانے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے، مراسلہ کے تحت چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے 28جولائی کو ہائی کورٹ کے جج جسٹس اعجاز سواتی کو جوڈیشنل کمیشن مقرر کیا۔ دراصل بی این پی کی جانب سے وفاق سے اتحاد توڑنے کی تڑی اور جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ رکھنے سے پہلے صوبے کی حکومت سے تقاضا کیا جانا چاہیے تھا ۔ نیز ملزمان کے خلاف کارروائی کی ہدایت یا حکم کے بیانات بھی صوبائی حکومت ہی کے جاری و شائع ہوئے ہیں۔16 جولائی کو شائع ہونے والے بیان میں وزیر اعلی بزنجو فورسز کے آپریشن پر اطمینان کا اظہار اور فورسز کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔جس میں اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ علاقے میں موجود دیگر دہشتگردوں اور ان کے ٹھکانوں کا جلد مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ آئی ایس پی آر نے آپریشن میں نشانہ بننے والے سالم کریم سے متعلق شواہد پیش کئے جس میں وہ مسلح گرہوں کے ساتھ دکھائی دیتا ہے سالم کریم کا تعلق بالگتر سے تھا۔غرض آئی ایس پی آر کا آپریشن بارے وضاحت جاری کرنے سے پہلے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعلیٰ اپنی کابینہ کے ہمراہ کرنل لئیق، ان کے کزن کے اغوا ، قتل اور فورسز کے آپریشن میں مارے جانے والے افراد بارے موقف پیش کر تے۔ مارے جانے والے افراد کے لواحقین کے الزامات کا جواب دیتے ،یقینا وزیر اعلیٰ کی ذمے داری بنتی ہے۔ مگر فرار اور چھپ کی پالیسی اپنا رکر محفوظ راہ کی حکمت عملی اپنائی گئی۔اور اعلیٰ فوجی آفیسر کا اغوا اور قتل کا واقعہ اس سیاست کاری نے پس منظر میں دھکیل دیا۔ چناں چہ مواخذہ ہوکہ زیارت میں دن دھاڑے کرنل لئیق کیسے اغوا ہوئے۔ یہ بات یاد رہے کہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اغوا اور قتل کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔یہ گروہ ریاست کے خلاف اپنی سرگرمیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔تعلیم یافتہ نوجوان اگر سخت گیر سوچ اپنا رہے ہیں۔اور یہ درد دل سے سوچنے اور غور و فکر کا متقاضی پہلو ہے۔ اس رجحان میں لوٹ کھوسٹ کی سیاست ،نا موزوں افراد پر مشتمل حکومتوں کے قیام کا گہرا عمل دخل ہے۔ افسوس امن، بات چیت اور افہام و تفہیم کی فضائکے لیے ہنوز سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ ہر جانب سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔ ورچوم واقعہ کے بعد 17جولائی کو قلات کے علاقے منگچر میں لیویز اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی جس میں ایک اہلکار جاں بحق اورا یک زخمی ہو،مستونگ میں لیویز اہلکار ہدف بنا ہے۔ کوئٹہ میں فورسزپر دستی بم حملہ ہوا۔معلوم ہوتا ہے کہ شدت پسند گروہ نے ماضی کی مانند پھر لیویز اور پولیس مارنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں ،سردست انہیں آڑے نہ آنے کی دھمکی دی ہے۔ماضی میں پولیس اور لیویز فورس متواتر ان کے نشانے پر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔