... loading ...
حکمران اتحاد چاہتا ہے کہ پارٹی سربراہ کے متعلق 2015 میں عظمت سعید شیخ کے فیصلے کومدِنظر رکھ کر فیصلہ کیاجائے حالانکہ اِس سترہ رُکنی فل کورٹ نے بھی ریفرنس دائر کرنے کا اختیارپارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دیا جبکہ آٹھ معززججزنے اختلافی نوٹ میں یہ اختیار پارٹی سربراہ کا قرار دیا بعد میں ہونے والی ترامیم میں ابہام کی مزید وضاحت کردی گئی کیا حکومتی قانونی ماہرین کو اِس بات کا علم نہیں ؟ بلاشبہ اُنھیںبخوبی علم ہے ایسی باتوں کے زریعے عدالت کو اپنے فیصلے ،ووٹنگ اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے توجہ ہٹا کرپنجاب کا موجودہ سیٹ اَپ بحال رکھنے کی کوشش میں ہیںپارٹی لیڈر اور پارلیمانی لیڈر کے اختیارات واضح ہیںمگر حکمرانوں کو کون سمجھائے کیونکہ کوئی سمجھنے پر تیارہی نہیں۔
آئین میں واضح ہے کہ ممبرانِ اسمبلی کو ہدایات دینا پارلیمانی پارٹی کا اختیارہے اِس بارے قبل ازیں ہونے والے کئی فیصلوں میں مکمل تشریح موجود ہے جن کے بعد مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی مگر حکمران باربار فل کورٹ کا مطالبہ کررہے ہیں اور مطالبہ پورا نہ ہونے پر عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کر دیا ہے جس سے سیاسی تنائو میں اضافہ ہونے لگا ہے حکومت کے قانونی مشیران عدالت کی توجہ جن نکات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں اُن کی ضرورت ہی نہیں بات سادہ سی ہے کہ اسی بینچ نے لاہور رجسٹری میں سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیکر یکم جو لائی کو فیصلہ دیا کہ ضمنی انتخابات کے بعد 22 جولائی کے اسمبلی اجلاس میں نئے قائدِ ایوان کا انتخاب کیا جائے اب ہونا تو یہ چاہیے کہ جسے اکثریت حاصل ہو اُسے حکومت بنانے کا حق دے دیا جائے بدقسمتی سے ایسا کرنے کی بجائے سازشی تھیوری پر عمل کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے نہ صرف تجاوز کیا بلکہ ایسی رولنگ دی جس کا عدالتی فیصلے میں زکر تک نہیں انھوں نے وزارتِ اعلٰی کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی سمیت اُن کی پوری جماعت کے ووٹ مسترد کر دیئے امیدوار کا اپنا ووٹ بھی مسترد کر دیاجانا پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا واحد اور منفرد واقعہ ہے۔
جہاں تک حکومت کی طرف سے عدالت پر عدمِ اعتماد اور بائیکاٹ کرنے کی بات ہے یہ قانونی نہیں خالصتاََ سیاسی فیصلہ ہے کیونکہ اسی بینچ نے حکومتی تبدیلی کے بارے عمران خان کے مداخلت اور سازشی بیانیے کو غلط قرار دیاتھا جس پر وزرا، وزیرِ اعظم سے لیکر اُن کے اتحادی سیاسی رہنمائوں نے بھی تحسین کی اور اِس فیصلے کو عمران خان کی شکست سے تعبیر کیا اب پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے آئینی ہونے کا جائزہ لینے کے دوران اسی بینچ سے نامناسب رویہ اختیار کرنا افسوسناک ہے حکومتی حلقوں کو بخوبی علم ہے کہ چھٹیوں کی بناپر فل کورٹ ستمبر سے قبل ممکن نہیں اسی لیے وہ فل کورٹ بنانے پر زور دے رہے ہیں تاکہ اتنا وقت مل جائے کہ دوبارہ ووٹنگ ہوتواپوزیشن جماعتوں کے کچھ اراکین کواسمبلی اجلاس سے غیر حاضر رہنے پر قائل کر سکیں حالانکہ دوبارہ ووٹنگ کا نہ کوئی امکان ہے اور نہ جواز، بلکہ جو ووٹنگ ہو چکی ہے اسی کے متعلق فیصلہ ہونا ہے حکومتی وکلا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر بات کرنے کی بجائے کیس کے التوا کی تگ ودو میںہیں مگر بات نہ بنتی دیکھ کر عدالتی بائیکاٹ کی طرف چلے گئے جس سے کسی کو اچھا پیغام نہیں جا رہا بلکہ یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ متوقع فیصلے سے بوکھلا کر حکمران اتحاد راہ فرار اختیار کررہا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف دائر ہونے والی درخواستیں واضح ہیں کہ حاصل اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کی توہین کی گئی ہے اِن درخواستوں کا وہی بینچ جائزہ لے رہا ہے جس معزز بینچ نے پہلے فیصلہ کیا اور ڈپٹی اسپیکر کو ووٹنگ کرانے کا اختیار دیا جس کے تحت ڈپٹی اسپیکر کی صدارت میں اجلاس ہوتا ہے ووٹنگ سے قبل ق لیگ کے پارلیمانی لیڈر کی طرف سے پارٹی فیصلے کی تحریری کاپی جمع کرائی جاتی ہے کہ ہماری جماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ تمام دس اراکین چوہدری پرویز الٰہی کوووٹ دیں گے ڈپٹی اسپیکر ووٹنگ کراتے ہیں اور پھر نتیجہ بھی سنا دیتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی نے 186 جبکہ حمزہ شہبازنے 179 ووٹ حاصل کیے ہیں اِس کے بعد ڈپٹی اسپیکر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک خفیہ خط منظرِ عام پر لے آتے ہیں کہ یہ چوہدری شجاعت حسین نے خط بھیجا ہے جس کی تصدیق بھی کر لی ہے اِس خط سے پوری پارلیمانی پارٹی بھونچکارہ جاتی ہے ڈپٹی اسپیکر اِس خفیہ خط کو بنیاد بناکر ق لیگ کے تمام دس ووٹ مسترد کردیتے ہیں راجہ بشارت نے اختیارات سے تجاوز پر احتجاج کیا لیکن کوئی توجہ نہیں دی جاتی بلکہ186 ووٹ لینے والے کی بجائے 179 ووٹ لینے والے کو کامیاب قرار دے دیاجاتا ہے جس پراسمبلی میں شور مچ جاتا ہے اِس ناانصافی کے خلاف پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ممبرانِ اسمبلی اور کارکن سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچ جاتے ہیں جہاں ڈپٹی اسپیکر ،حمزہ شہباز اور گورنر کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست جمع کرائی جاتی ہے جس پر سماعت جاری ہے ممکن ہے اِن سطور کی اشاعت تک فیصلہ آجائے بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ عدالتی فیصلے کے مطابق نہیں معزز ججوں کے ریمارکس سے بھی ایساہی تاثر ملتا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہے جس پر کہہ سکتے ہیں کہ اسمبلی میں اکثریت حاصل کر نے والے کو کامیاب قرار دے دیا جائے گا ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ قلابازیوں سے کسی کو کیا مل سکتا ہے؟ عدالتیں آئین و قانون کو مدِنظر رکھ کر فیصلے کرتی ہیں کسی کے عہدے سے مرعوب ہوکریاکسی کی خواہش پر فیصلے نہیں کیے جاتے جس بینچ نے اپنے فیصلے میں مداخلت اور سازشی بیانیے کی تردید کی جسے حکومت نے اپنی فتح قرار دیا اب اسی بینچ سے خلاف فیصلہ آنے کے آثار دیکھ کرکیوں حکومت کے ہاتھ پائوں پھولنے لگے ہیں ؟اِس کا جواب بہت سادہ اور واضح ہے اگر چوہدری پرویز الٰہی وزیرِ اعلٰی بن جاتے ہیں تو وفاق میں اتحادی حکومت کو ٹف ٹائم ملنے کا امکان ہے چوہدری پرویز الٰہی کو قریب سے جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ معافی کی بجائے بدلے پر یقین رکھتے ہیں اسمبلی میں ہونے والی مارکٹائی اور ق لیگ کوتوڑنے کا بدلے لینے سے ن لیگ کے لیے پنجاب میں مشکل صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اسی لیے ن لیگ کی طرف سے فیصلے سے قبل ہی احتجاجی ریلیوں کے پروگرام بننے لگے ہیں اِن حالات کی بنا پر یہ کہنا قرین قیاس ہے کہ وزارتِ اعلٰی کے حلف لینے کے دوران بھی رکاوٹیں ڈالی جاسکتی ہیں اگر ایسا ہوا تو ملک مزیدسیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہو سکتا ہے اصل میں سیاستدانوں کو چاہیے کہ سیاسی فیصلے خود کریں اور دیگر اِداروں کو مداخلت کے مواقع نہ دیں کیونکہ معاملات دوسرے اِداروں میں لے جاکر فیصلے کرانے سے سول سُپر میسی کا خواب تعبیر نہیں پا سکتادلائل دینے کے بعدحکومتی وکیل عرفان قادر نے ایسا موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت کو پارلیمان کی کاروائی میں دخل دینے کا اختیار نہیں مگر ایسا کہتے ہوئے وہ شاید یہ بھول گئے کہ عمران خان کو عہدہ سے ہٹانے کے لیے موجودہ اتحادی حکمرانوں کی عدلیہ نے آئین و قانون کے مطابق مدد کی عدالتی فیصلوں کا اقتدار کی تبدیلی میں اہم کردار ہے پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کی حلف برداری کے لیے بھی عدالتی فیصلے موجود ہیں اب نئی قلابازی سے بھلا کیا حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ سیاستدان خود ہی سول سُپر میسی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔