وجود

... loading ...

وجود

پنجاب کا معرکہ

هفته 09 جولائی 2022 پنجاب کا معرکہ

تین ماہ سے پنجاب میں جاری سیاسی بحران کا فیصلہ22جولائی کوہوجائے گا اسمبلی اجلاس کے لیے اِس معرکے پر پورے ملک کی نظریں ہیں کیونکہ اِس معرکے کا فاتح نہ صرف پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کا منصب سنبھالے گابلکہ اِس معرکے نے یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ موجودہ اتحادی حکمران مزیدعرصہ اقتدار میں رہیں گے یا ملک نے عام انتخابات کی طرف جانا ہے کیونکہ پنجاب کا بحران وفاق پربھی اثرانداز ہوتا ہے سترہ جولائی کے ضمنی انتخاب کا ٹاکرسے 22 جولائی کے متوقع سیاسی معرکے کے نتائج واضح ہو جائیں گے کیونکہ پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کی موجودہ برتری پی ٹی آئی کوملنے والی پانچ مخصوص نشستوں سے کافی کم ہو گئی ہے حالات کیا رُخ کرتے ہیں اور پنجاب کا کون حکمران ہوتا ہے؟ بے چینی سے انتظار کرنے والوں کو سترہ جولائی کے ضمنی انتخاب کے نتائج سے درست اندازہ لگانے میں آسانی ہو گی حکومت اور اپوزیشن دونوں ضمنی انتخاب جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں بظاہر اپوزیشن کے بیانیے کوعوامی پزیرائی حاصل ہے لیکن جیتنے کے لیے الیکشن والے دن ووٹروں کو گھروں سے نکالنا اور ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشن تک پہنچانابھی اہم ہے اِس حوالے سے جو بھی جماعت کوتاہی کی مرتکب ہو گی نقصان کا سامنا کرے گی عمران خان اور مریم نواز کے متحرک ہونے سے پنجاب کا سیاسی ماحول خوب گرم ہے دونوں طرف سے جیت کے دعوے کرتے ہوئے الزام تراشی کے نشتر چلائے جا رہے ہیںجس سے سیاسی نبض شناس خدشہ ظاہر کرنے لگے ہیں کہ ضمنی الیکشن بڑی کشمکش اور ٹکرائو کا موجب بن سکتا ہے کیونکہ اِس سے پنجاب کے حکمران کا فیصلہ ہونے کے ساتھ کس جماعت کا بیانیہ عوام کو پسند ہے؟کی وضاحت بھی ہو جائے گی ملکی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہیں مہنگائی میں تیرہ فیصد اضافہ ہو چکا جو ملکی تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ ہے عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ جب گرتے جارہے ہیں پاکستان میں قیمتیں بڑھائی جارہی ہیںآئی ایم ایف کے مطالبات بڑھتے جارہے ہیں جو ووٹرز کے فیصلے پرکسی حد تک اثر انداز ہوں گے جس سے حکومت کے لیے مشکل صورتحال پیدا ہو سکتی ہے لیکن ووٹروں کو گھروں سے نکالنا اور پولنگ اسٹیشن پہنچانے سے حالات کو سازگار بنایا جا سکتاہے ۔
کچھ عرصہ سے سیاسی فیصلے بھی عدالتوں میں ہونے لگے ہیں لاہورہائیکورٹ کاڈپٹی اسپیکر کو اختیارات کی منتقلی کافیصلہاپوزیشن نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے تو حکومت بھی مخصوص نشستوں کے متعلق ہونے والے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کر چکی ہے 22جولائی کے معرکے کو سپریم کورٹ نے پنچایتی طور پر حل کرتے ہوئے گدلے سیاسی ماحول سے الگ رہنے کی کوشش کی اور فریقین کے اتفاقِ رائے سے ہی 22 جولائی کو رائے شماری کا دن مقرر کیا ہے اِس پنچایتی فیصلے پر کسی فریق کی طرف سے تنقید نہیں ہوئی بلکہ دونوں طرف سے اِس عزم کا اظہار کیا جارہا ہے کہ فیصلے پر اُس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا مگرسوال یہ ہے کہ سیاستدان بحران پیداہی کیوںکرتے ہیں اورپھر اپنے تنازعات خود حل کرنے کی کوشش کیوں نہیںکرتے ؟ اگر یہ خود مل بیٹھ کرتصفیہ کرلیا کریں تو نہ صرف اِن کی اپنی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ اِداروں پر تنقید کی روایت بھی دم توڑ ہو سکتی ہے۔
چند ماہ سے سیاسی اختلافِ رائے دشمنی کے قالب میں ڈھلنے لگا ہے یہ طرزِ عمل قابل تحسین یا قابلِ تعریف نہیں کیونکہ اِس طرزِ عمل سے پنجاب ہی نہیں پورے ملک کا سیاسی ماحول پراگندہ ہو رہا ہے اختلافِ رائے کودشمنی بنانے سے کسی کا بھلا نہیں ہو سکتا بلکہ ملک و قوم کا بھی نقصان ہونے کا احتمال ہے اگر ضمنی انتخاب صاف شفاف نہیں ہوتے اور بیرونی مداخلت سے نتائج تبدیل کیے جاتے ہیں تو نئی سیاسی تحریک جنم لے گی جس سے ملک میں انتشار پیداہوگا قبل از وقت ہی اپوزیشن کی طرف سے دھاندلی کے الزامات عائد کیے جانے لگے ہیں اب یہ الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی غیر جانبداری یقینی بناکرایسے صاف شفاف انتخاب کرائے جس کے نتائج سبھی تسلیم کریں پنجاب کی مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے دوران تاخیری حربے اپنانے کی بناپر پہلے ہی اپوزیشن اُس سے خفاہے پی ٹی آئی ایک سے زائد بار تحفظات کا کھلے الفاظ میں اظہار کرچکی آخرکار عدالتی فیصلے کی وجہ سے مجبوراََ نوٹیفکیشن کیاگیا الیکشن کمیشن کے تاخیری حربوں سے اپوزیشن کو اچھا پیغام نہیں گیاعلاوہ ازیں شنیدہ حلقے وثوق سے کہنے لگے ہیں کہ ضمنی الیکشن کے قریب الیکشن کمیشن کی طرف سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں اور یہ کہ فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف ہے متوقع فیصلے کی رو سے نہ صرف جماعت سے انتخابی نشان بلا چھن سکتا ہے بلکہ پوری جماعت کالعدم ہونے کا بھی امکان ہے اِس طرح پی ٹی آئی کے لیے اتنی مشکل صورتحال پیدا ہو گی جس سے سیاسی گرما گرمی میں اضافہ ہوگا عمران خان جو حکمرانوں کو مافیا کہتے ہیں انھیں یہ فیصلہ بھی حکومتی ہدایت کا شاخسانہ قرار دینے کا بہانہ ملے گا ۔
پنجاب میں 22جولائی کو اختیارات اوروسائل کا تجربے کاری سے مقابلہ ہو گاعدالتی فیصلے کی رو سے حمزہ شہباز نہ صرف بطوروزیرِ اعلٰی برقرار ہیں بلکہ حکومتی مشینری بھی بددستوراُن کے تابع ہے اسی بناپر بظاہر حکومتی اتحاد کو برتری حاصل ہے اور اگر ضمنی انتخاب میں بھی حکومت اکثریت حاصل کر لیتی ہے یا نصف نشستیں ہی جیت جاتی ہے جس کا امکان موجود ہے تو نہ صرف حمزہ شہباز کا اقتدار مستحکم ہو گا بلکہ وفاق میں حکمران اتحاد کو بھی تقویت ملے گی ایسا ہونے سے عمران خان بیانیے کی نفی ہو گی مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بطور وزیرِ اعظم شہازشریف انتخابی ماحول میں شریک نہیں ہو سکتے نہ ہی حمزہ شہباز الیکشن مہم میں شامل ہو سکتے ہیں انھیں جو بھی کرنا ہوگا پسِ پردہ رہ کرہی کرنا ہوگا مریم نواز البتہ متحرک ہے ضمنی انتخاب کے بعد 22 جولائی کا معرکہ جیتنا آسان نہیں اختیار و وسائل کا اِس بار تجربے کاری سے سخت مقابلہ ہونے جارہا ہے چوہدری پرویز الٰہی اتنی آسانی سے کسی کو وزارتِ اعلٰی لے جانے نہیں دیں گے وفاق میں اسد قیصر سمیت جس طرح حکومتی عہدیدار یکے بعد دیگرے سرنڈر کرتے گئے اسپیکر پنجاب اسمبلی بھی ایسا کریں گے ممکن نہیںپہلے بھی انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی آئندہ بھی وہ ہر حد تک جائیں گے اسپیکر کے عدمِ تعاون سے ہی پہلی بار حکمران جماعت نے اسمبلی کی عمارت میںاجلاس کرنے کی بجائے دوسری جگہ بجٹ اجلاس رکھا علاوہ ازیںبطور جہاندیدہ سیاستدان چوہدری پرویز الٰہی کو جوڑ توڑ کے خوب ہتھکنڈ ے معلوم ہیں اسی بنا پر کچھ سیاسی رمز شناس 22جولائی کواَپ سیٹ کا امکان ظاہر کرتے ہیں حکومتی حلقوں نے حسبِ روایت دھونس سے کام لینے کی کوشش کی تواپوزیشن نہ صرف سخت مزاحمت کرے گی بلکہ نئی سیاسی اور عدالتی لڑائی کا آغازہو سکتاہے حکومت کو بخوبی معلوم ہونا چاہیے مقابلہ عثمان بزدار سے نہیں چوہدری پرویز الٰہی کی تجربہ کاری سے ہے کاش 22جولائی کے معرکے سے سیاسی استحکام آجائے کیونکہ نئی سیاسی محاز آرائی معاشی آتش فشاں پر کھڑے ملک کی بنیادیں ہلا سکتی ہے بڑھتی مایوسی ،بے یقینی اور بے چینی کا احساس کرتے ہوئے اگر فریقین نے تحمل سے کام لیا تو ملک کی سیاسی فضا میں بہتری آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر