وجود

... loading ...

وجود

حکومت ٹی ٹی پی مذاکرات ،پیش نگاہ بلوچستان بھی رہے

بدھ 06 جولائی 2022 حکومت ٹی ٹی پی مذاکرات ،پیش نگاہ بلوچستان بھی رہے

افغان حکومت کی ثالثی سے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات ، روابط اور امن معاہدہ کی جانب پیش قدمی ہورہی ہے ، پچھلے دنوں کابل کے اندر اہم نشست ہو ئی۔ کور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید دوسرے حکام اور خیبر پشتونخوا کے قبائلی اضلاع کے عمائدین ملاقاتوں اور امن کے قیام کے عمل میں حصہ لے چکے ہیں۔ کابل کے اندر ہونے والی گفتگو اور مذاکرات ماہ جون میں ہوئے ہیں۔ اس ذیل میں افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد دو ٹوک موقف پیش کرچکے ہیں کہ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو کسی کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیا جا ئے گا۔ خیبر پشتونخوا اور بلوچستان کے اندر حالات کی سنگینی معروضی حقیقت ہے۔ جس کا باعث مختلف خیال و ترجیحات کے حامل شدت پسندگروہ ہیں۔ ٹی ٹی پی گروہ سے پچھلے دنوں ہوئے مذاکرات، پیشرفت اور دوسرے امور سے متعلق 22جون کو ایوان وزیراعظم میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس بند کمرے میں منعقد کیا گیا تھا۔ وفاقی ویزر داخلہ رانا ثنااللہ او وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ذرائع ابلاغ کے سامنے چند چیدہ باتیں ر کھیں۔ وزیراعظم سمیت اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت شریک تھی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی موجود تھے۔ پیش ازیں پیپلز پارٹی نے ا عتراض کیا تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات بارے پارلیمنٹ کوآن بورڈ لے لینا چاہیے۔ حتی کہ پیپلز پارٹی نے شیریں رحمان، فرحت اللہ بابر اور قمر زمان کائرہ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیدی ہے تاکہ اس ضمن میں دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطہ رکھا جائے ۔ ایوان بالا کے رکن سینیٹر مشتاق احمد خان نے سینٹ اجلاس میں نکتہ اعتراض بھی پارلیمنٹ کا اعتماد اور آن بورڈ لینے کا ہے۔مشتاق احمد خان نے مزید توجہ مبذول کرائی ہے کہ وہ قومی سلامتی کمیٹی کے ممبر ہونے کے باوجود اعتماد میں لیے گئے اور نہ کسی اجلاس میں طلب کیے گئے ہیں۔
بہر کیف یقینا یہ سارا عمل پارلیمنٹ کے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ عسکری قیادت کو شانہ بشانہ لے کر چلنا چاہیے ۔ یوں اشتراک کار اور ہم آہنگی سے نتائج خاطر خواہ حاصل ہوں گے۔ اور اگر کہیں کوئی سقم پیدا ہوتا ہے تو اس کے لیے کسی خاص جانب کو مورد الزام نہ ٹھرایا جا سکے گا ۔یعنی پارلیمنٹ، قومی اور عسکری قیادت کی باہم یک صف ہو تو کوئی بھی پیشرفت قومی اجماع سمجھا جائے گا ۔ یاد رہے کہ مذاکرات لے دے کی بنیاد پر ہی نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔اگرچہ ٹی ٹی پی وغیرہ کی گناہوں اور تباہ کاریوں کی فہرست بہت طویل ہے ،تاہم اگر معاہدہ کچھ کہو دینے کی صورت میں ممکن بنتا ہے تو وسیع تر مفاد میں جزوی نقصان قبول کرلینا چاہیے تاکہ مزید بربادیوں کا تدارک ہو۔ نئی افغان حکومت بلوچستان کے مسئلے بارے بھی ثالثی کی پوزیشن میں ہے ۔ کیوں نہ بلوچستان کے سخت گیر رہنماں سے بات چیت کا آغاز بھی کابل حکومت کے توسط سے شروع ہوں۔ تاکہ خیر کا پہلو برآمدہو۔ یہ بات تسلیم کرلینا چاہے کہ بلوچستان میں امن وا مان کی حالت خراب ہے ،مسائل گمبھیر ہیں ۔ حکومتیں تو عوامی حمایت یا ان کی توجہ حقیقی اساسی مسائل سے ہٹانے کی خاطرسطحی ،بے معنی اقدامات کرتی ہیں، جس کے برعکس معروضی حقائق اپنی جگہ کچھ اور ہوتے ہیں۔ صوبے کی حکومت نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے شہر کوئٹہ اور قومی شاہراہوں پر فورسز کی چیک پو سٹیں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اول تو یہ محض باتیں تھیں، جبکہ در اصل شاہراہوں کو مزید محفوظ بنانے کی ضرورت علی حالہ موجود ہے۔ صوبائی بجٹ2022-23میں امن وامان برقرار رکھنے کی خاطرخطیر رقم کا مختص کیا جانا حکومت کی باتوں کی نفی کرتی ہے۔ مزید برآں 8جون کو صوبائی کابینہ کے اجلاس میں وفاقی اور صوبائی منصوبوں اور قومی شاہراہوں کی تعمیر کے منصوبوں کی حفاظت اور تکمیل کی خاطر سیکورٹی دینے کا فیصلہ ہوا۔ بتایا گیا کہ اخراجات نیشنل ہائی وے اتھارٹی ( این ایچ اے ) ادا کرے گی؟۔ صوبائی وزیر خزانہ ، تعمیرات و مواصلات عبدالرحمان کھیتران نے البتہ وفاق سے درست طور امن وامان کے بجٹ کا بوجھ اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے کہ وفاق کا رویہ حالات کی خرابی کی ایک وجہ ہے۔صوبے کی قومی و دوسری شاہراہیں غیر محفوظ ہیں۔18جون کو ہرنائی میں شاہراہ کی تعمیر پر مامور، تعمیراتی کمپنی کے چارمزدور اغواکرلئے گئے۔ تعمیراتی مشنری اور اوزار جلادیے گئے۔کوئٹہ کے نواحی علاقے اسپین کاریز کے مقام پر ایک کول مائن کمپنی کے چیف انجینئر سمیت چار ملازم اغوا ہوئے۔رہائی کے بدلے کمپنی کے مالک سے کروڑوں روپے تاوان کا مطالبہ ہوا ہے۔ کوئٹہ اور کچھی کی کوئلہ کی صنعت مسلح گروہوں کے زیر اثر ہیں۔جنہوں نے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں واقع مارگٹ اور کوئٹہ کی حدود میں مارواڑ، اسپین کاریز اور گرد و نواح کے کوئلہ کان عرصہ ہوا بند کرائے ہیں۔اسپین کاریز میں واقع حبیب اللہ کول مائنز کمپنی ،ایم ایم کول مائنز اور ہزارہ کول مائنز کمپنی بند ہے ۔یہ کوئلہ کان کوئٹہ اور کوئٹہ چھانی سے متصل ہیں۔ اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہرنائی کے کوئلہ کانوں کو بھی درپیش ہیں۔
مسلح گروہ کوئلہ کان مالکان سے بھاری رقوم تو لیتے ہی ہے ۔البتہ ایک کوئلہ کان پر ماہانہ ساٹھ ہزار روپے جبری ٹیکس ادا کرنے پر کمپنی یا کان مالک پابند کئے گئے ہیں۔ اب فی مزدور دس ہزار روپے کی وصولی کی دھمکی دی ہے۔ یعنی ہل من مزید کے مطالبہ کے تحت کوئلہ کی صنعت بند کرائی گئی ہیں۔ بند ہونے کی وجہ سے کان میں پانی بھر آتا ہے۔ اس طرح کوئلہ کان مالکان اور کمپنیوں کو مزید کروڑوں کے نقصان کا سامناہے۔ مسلح گروہوں نے کول کمپنیوں اور کان مالکان سے مزدوروں کی ان کے پاس رجسٹریشن کا حکم بھی دیا ہے۔ مچھ میں55کوئلہ کان کمپنیاں کام کررہی ہیں۔جہاں کوئلہ کانوں کی تعداد284ہے اور 3416مزدور کام کرتے ہیں۔ ضلع ہرنائی میں 38کول مائنز کمپنیاں کام کررہی ہیں ،941کوئلہ کان موجودہیں اور8927مزدور کانکنی کے روزگار سے وابستہ ہیں۔ کوئٹہ کے مضافات میں کمپنیاں43ہیں اور 513کانوں سے کوئلہ نکالا جاتا ہے۔کوئٹہ کے ان کانوں سے9672مزدوروں کا رزق وابستہ ہے۔یعنی ایک مزدور ماہانہ 10 ہزارکس طرح مسلح گروہوں ادا کرسکتا ہے۔ظاہر ہے ایسے حالات میں مزدور ان علاقوں میں جانے سے گریز ہی کریں گے ۔ اور پھر صنعت کو مختلف مسلح گروہ کے قہر کا سامنا ہے۔نیز پیشگی ادائیگی کی صورت میں کام شروع کرنے کا کہا ہے۔ تصور کیا جائے کہ یہ گروہ محض ان علاقوں سے ماہانہ کس قدر بڑی رقم حاصل کرتے ہیں۔ یہاں حکومتی رٹ بھی نگاہ میں رکھی جائے کہ اس کی عملداری کہاں قائم ہے؟۔پیش ازیں فورسز بھی فی ٹن300معاوضہ تحفظ کے نام پر لیتی تھی۔ جو کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی نے تعیناتی کے ساتھ ہی ختم کرایا ۔ مچھ اور کوئٹہ کی حدود کی مائننگ علاقوں میں کچھ عرصہ فوج تعینات ہوئی تو بہتری واقع ہوئی۔ کوئلہ صنعت سے وابستہ افراد نے اطمینان کا اظہار کیا۔ چناں چہ سوال امن کی صورتحال کا ہے۔ یہ اجمال کوئٹہ اور اس متصل مچھ اور ہرنائی کا ہے۔ وسیع صوبے کے دوسرے دور دراز علاقوں کی صورتحال کیا ہوگی؟۔ لہذ لازم ہے کہ بلوچستان مسئلہ سے متعلق سخت گیر مو قف کے
حامل بڑوں سے بات چیت کی حکمت عملی پر کاربند ہوا جائے ۔ ملک اور بلوچستان کے سیاسی بڑے اس تناظر میں مو ثر کردار نبھا سکتے ہیں۔ اورموجودہ افغان حکومت اور اس کی ثالثی سخت گیر بلوچ رہنماں کے لیے با اعتماد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر