... loading ...
دوستو، بچپن میں جب ہم چھوٹے تھے۔۔ اب آپ کہیں گے کہ بچپن میں تو سب ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔۔ ہمارے باباجی بتاتے ہیں۔۔ جس گاؤں میں ان کی پیدائش ہوئی وہاں سارے بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے ہیں۔۔۔یعنی کہ بڑے بڑے لوگوں نے جنم لیا۔۔جس پر ہمیں حیرت بھی ہوئی لیکن باباجی سے سوال کا مطلب ہاتھی کو رکشے میں بٹھانے کے برابر ہوتا ہے۔۔کیوں کہ پہلے تو آدھا گھنٹہ وہ سوال کرنے والے کا ’’توا‘‘ لگاتے ہیں ،پھر جو ، جواب دیتے ہیں اس میں بھی سوال کرنے والے کو محسوس ہوجاتا ہے کہ ’’بزتی‘‘ سی ہوگئی ہے۔۔ اسی لیے باباجی جو فرماتے ہیں ہم اس پر آمنا صدقنا کہتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے عوام نے موجودہ حکومت کی مہنگائی کی ’’ڈوز‘‘ پر یقین کرلیا ہے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے دیئے گئے ’’بھاشنوں‘‘ کہ مہنگائی کی وجہ پچھلی حکومت ہے پر بھی عوام نے آمنا صدقنا کہا ہے۔۔ اب آپ بولیں گے کہ عوام مہنگائی کے حق میں تو بالکل نہیں، آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ عوام نے مہنگائی کو قبول کرلیا ہے؟؟ تو ہمارے پیاروں، اپنی اپنی ماؤں کے راج دلاروں ہر ماہ کی پندرہ اور تیس تاریخ کو پٹرول پمپوں پر اپنی گاڑیوں کی ٹنکیاں فل کرانے کے لیے جتنا رش ہوتا ہے اتنا اگر سڑکوں، چوراہوں پر ہونے لگ جائے تو پھر ہم بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ عوام کو مہنگائی ہرگزقبول نہیں۔۔
بات ہورہی تھی، بچپن میں جب ہم چھوٹے تھے۔۔ ہم نے کچی پہلی یا پکی پہلی کی اردو کی کتاب میں پڑھا تھا۔۔ (جی ہاں، ہمارے زمانے میں کچی پہلی اور پکی پہلی کلاسز ہوتی تھیں، آج کل تو پری پریپ، پریب، مونٹیسوری، کے جی ون، کے بعد جاکر کلاس ون آتی ہے)۔۔ تو ہم بتارہے تھے کہ ہم نے اردوکی کتاب میں ایک مضمون ’’پیاسا کوا‘‘ پڑھا تھا۔۔ وہ سبق من و عن تو ہمیں یاد نہیں۔۔ موٹا موٹا سا صرف اتنا یاد ہے کہ ایک کوے کو پیاس لگی تو اس نے آس پاس دیکھا تو ایک گھڑے میں پانی نظر آیا۔۔ اس نے گھڑے میں چونچ ڈالی تو پانی تک نہ پہنچ سکی، چنانچہ اس نے آس پاس سے کنکریاں اٹھا،اٹھا کر گھڑے میں ڈالیں،جس سے پانی اوپر آگیا اور اس نے سیر ہوکر پانی پیا۔۔اب آپ بولیں گے کہ یہ سب بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟ ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ہمیں ہمارے پیارے دوست نے واٹس ایپ پر گھڑے کے حوالے سے ایک بہت ہی خوب صورت تحریر بھیجی ہے۔ اس تحریر کا لکھنے والا کون ہے؟ یہ تو نہیں معلوم لیکن یہ تحریر موجودہ حالات پہ انگوٹھی میں نگینے کی طرح بالکل فٹ بیٹھتی ہے۔۔ تو آئیے آپ کو بھی وہ تحریر ’’چکھاتے‘‘ ہیں۔۔
کہا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ کا گزر اپنی سلطنت کے ایک ایسے علاقے سے ہوا جہاں کے لوگ سیدھا نہر سے ہی پانی لے کر پیتے تھے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ عوام الناس کی سہولت کے لیے یہاں ایک گھڑا بھر کر رکھ دیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا اور ہر چھوٹا بڑا سہولت کے ساتھ پانی پی سکے گا۔ بادشاہ یہ کہتے ہوئے اپنے باقی کے سفر پر آگے کی طرف بڑھ گیا۔ ۔شاہی حکم پر ایک گھڑا خرید کر نہر کے کنارے رکھا جانے لگا تو ایک اہلکار نے مشورہ دیا۔۔ یہ گھڑا عوامی دولت سے خرید کر شاہی حکم پر یہاں نصب کیا جا رہا ہے، ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے اور ایک سنتری کو چوکیداری کے لیے مقرر کیا جائے۔ سنتری کی تعیناتی کا حکم ملنے پر یہ قباحت بھی سامنے آئی کہ گھڑا بھر نے کے لیے کسی ماشکی کا ہونا بھی ضروری ہے اور ہفتے کے ساتوں دن صرف ایک ماشکی یا ایک سنتری کو نہیں پابند کیا جا سکتا، بہتر ہوگا کہ سات سنتری اور سات ہی ماشکی ملازم رکھے جائیں تاکہ باری باری کے ساتھ بلا تعطل یہ کام چلتا رہے۔ ایک اور محنتی اہلکار نے رائے دی کہ نہر سے گھڑا بھرا ہوا اٹھا کر لانا نہ تو ماشکی کا کام بنتا ہے اور نہ ہی سنتری کا۔ اس محنت طلب کام کے لیے سات باربردار بھی رکھے جانے چاہئیںجو باری باری روزانہ بھرے ہوئے گھڑے کو احتیاط سے اٹھا کر لائیں اور اچھے طریقے سے ڈھکنا لگا کر بند کر کے رکھیں۔۔ ایک اور دور اندیش مصاحب نے مشورہ دیا کہ اتنے لوگوں کو رکھ کر کام کو منظم طریقے سے چلانے کے لیے ان سب اہلکاروں کا حساب کتاب اور تنخواہوں کا نظام چلانے کے لیے منشی محاسب رکھنے ضروری ہونگے، اکاؤنٹنگ کا ادارہ بنانا ہوگا، اکاؤنٹنٹ متعین کرنا ہونگے۔ ایک اور ذو فہم و فراست اہلکار نے مشورہ دیا کہ یہ اسی صورت میں ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ہر کام اچھے طریقے سے چل رہا ہے تو ان سارے ماشکیوں، سنتریوں اور باربرداروں سے بہتر طریقے سے کام لینے کے لیے ذاتی معاملات کا ایک شعبہ قائم کرنا پڑے گا۔ ایک اور مشورہ آیا کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے مگر ملازمین کے درمیان میں لڑائی جھگڑا یا کوئی زیادتی ہو جاتی ہے تو ان کا تصفیہ اور ان کے درمیان میں صلح صفائی کون کرائے گا؟ تاکہ کام بلاتعطل چلا رہے، اس لیئے میری رائے میں خلاف ورزی کرنے والوں اور اختلاف کرنے والوں کی تفتیش کے لیے ایک قانونی امور کا محکمہ قائم کیا جانا چاہیے۔ان سارے محکموں کی انشاء کے بعد ایک صاحب کا یہ مشورہ آیا کہ اس سارے انتظام پر کوئی ہیڈ بھی مقرر ہونا چاہیئے۔ ایک ڈائریکٹر بھی تعینات کر دیا گیا۔
سال کے بعد حسب روایت بادشاہ کا اپنی رعایا کے دورے کے دوران اس مقام سے گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ نہرکے کنارے کئی کنال رقبے پر ایک عظیم الشان عمارت وجود میںآچکی ہے،جس پر لگی ہوئی روشنیاں دور سے نظر آتی ہیں اور عمارت کا دبدبہ آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ عمارت کی پیشانی پر نمایاں کر کے۔۔وزارت انتظامی امور برائے سرکاری گھڑا۔۔ کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ بادشاہ اپنے مصاحبین کے ساتھ اندر داخل ہوا تو ایک علیحدہ ہی جہان پایا۔ عمارت میں کئی کمرے، میٹنگ روم اور دفاتر قائم تھے۔ ایک بڑے سے دفتر میں، آرام دہ کرسی پر عظیم الشان چوبی میز کے پیچھے سرمئی بالوں والا ایک پر وقار معزز شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے سامنے تختی پر اس کے القابات۔۔پروفیسر ڈاکٹر دو جنگوں کا فاتح فلان بن فلان ڈائریکٹر جنرل برائے معاملات سرکاری گھڑا۔۔ لکھا ہوا تھا۔ بادشاہ نے حیرت کے ساتھ اپنے وزیر سے اس عمارت کا سبب پوچھا، اور ساتھ ہی اس عجیب و غریب محکمہ کے بارے میں پوچھا جس کا اس نے اپنی زندگی میں کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ بادشاہ کے وزیر نے جواب دیا، حضور والا، یہ سب کچھ آپ ہی کے حکم پر ہی تو ہوا ہے جو آپ نے پچھلے سال عوام الناس کی فلاح اور آسانی کے لیے یہاں پر گھڑا نصب کرنے کا حکم دیا تھا۔ بادشاہ مزید حیرت کے ساتھ باہر نکل کر اس گھڑے کو دیکھنے گیا جس کو لگانے کا اس نے حکم دیا تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ گھڑا نہ صرف خالی اور ٹوٹا ہوا ہے بلکہ اس کے اندر ایک مرا ہوا پرندہ بھی پڑا ہوا ہے۔ گھڑے کے اطراف میں بیشمار لوگ آرام کرتے اور سوئے ہوئے نظر آئے اور سامنے ایک بڑا بورڈ لگا ہوا تھا۔۔گھڑے کی مرمت اور بحالی کے لیے اپنے عطیات جمع کرائیں۔ منجانب وزارت انتظامی امور برائے سرکاری گھڑا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زیادہ درخت لگانا اس لیے ضروری نہیں کہ اس سے چھاؤں ملے گی اورگرمی کی شدت کم ہوگی بلکہ اس لیے ضروری ہے کہ آنے والے برسوںمیں قوم کو پتے کھا کر گزارا کرنا ہو گا۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔