وجود

... loading ...

وجود

سرکاری گھڑا۔۔

جمعرات 30 جون 2022 سرکاری گھڑا۔۔

دوستو، بچپن میں جب ہم چھوٹے تھے۔۔ اب آپ کہیں گے کہ بچپن میں تو سب ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔۔ ہمارے باباجی بتاتے ہیں۔۔ جس گاؤں میں ان کی پیدائش ہوئی وہاں سارے بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے ہیں۔۔۔یعنی کہ بڑے بڑے لوگوں نے جنم لیا۔۔جس پر ہمیں حیرت بھی ہوئی لیکن باباجی سے سوال کا مطلب ہاتھی کو رکشے میں بٹھانے کے برابر ہوتا ہے۔۔کیوں کہ پہلے تو آدھا گھنٹہ وہ سوال کرنے والے کا ’’توا‘‘ لگاتے ہیں ،پھر جو ، جواب دیتے ہیں اس میں بھی سوال کرنے والے کو محسوس ہوجاتا ہے کہ ’’بزتی‘‘ سی ہوگئی ہے۔۔ اسی لیے باباجی جو فرماتے ہیں ہم اس پر آمنا صدقنا کہتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے عوام نے موجودہ حکومت کی مہنگائی کی ’’ڈوز‘‘ پر یقین کرلیا ہے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے دیئے گئے ’’بھاشنوں‘‘ کہ مہنگائی کی وجہ پچھلی حکومت ہے پر بھی عوام نے آمنا صدقنا کہا ہے۔۔ اب آپ بولیں گے کہ عوام مہنگائی کے حق میں تو بالکل نہیں، آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ عوام نے مہنگائی کو قبول کرلیا ہے؟؟ تو ہمارے پیاروں، اپنی اپنی ماؤں کے راج دلاروں ہر ماہ کی پندرہ اور تیس تاریخ کو پٹرول پمپوں پر اپنی گاڑیوں کی ٹنکیاں فل کرانے کے لیے جتنا رش ہوتا ہے اتنا اگر سڑکوں، چوراہوں پر ہونے لگ جائے تو پھر ہم بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ عوام کو مہنگائی ہرگزقبول نہیں۔۔
بات ہورہی تھی، بچپن میں جب ہم چھوٹے تھے۔۔ ہم نے کچی پہلی یا پکی پہلی کی اردو کی کتاب میں پڑھا تھا۔۔ (جی ہاں، ہمارے زمانے میں کچی پہلی اور پکی پہلی کلاسز ہوتی تھیں، آج کل تو پری پریپ، پریب، مونٹیسوری، کے جی ون، کے بعد جاکر کلاس ون آتی ہے)۔۔ تو ہم بتارہے تھے کہ ہم نے اردوکی کتاب میں ایک مضمون ’’پیاسا کوا‘‘ پڑھا تھا۔۔ وہ سبق من و عن تو ہمیں یاد نہیں۔۔ موٹا موٹا سا صرف اتنا یاد ہے کہ ایک کوے کو پیاس لگی تو اس نے آس پاس دیکھا تو ایک گھڑے میں پانی نظر آیا۔۔ اس نے گھڑے میں چونچ ڈالی تو پانی تک نہ پہنچ سکی، چنانچہ اس نے آس پاس سے کنکریاں اٹھا،اٹھا کر گھڑے میں ڈالیں،جس سے پانی اوپر آگیا اور اس نے سیر ہوکر پانی پیا۔۔اب آپ بولیں گے کہ یہ سب بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟ ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ہمیں ہمارے پیارے دوست نے واٹس ایپ پر گھڑے کے حوالے سے ایک بہت ہی خوب صورت تحریر بھیجی ہے۔ اس تحریر کا لکھنے والا کون ہے؟ یہ تو نہیں معلوم لیکن یہ تحریر موجودہ حالات پہ انگوٹھی میں نگینے کی طرح بالکل فٹ بیٹھتی ہے۔۔ تو آئیے آپ کو بھی وہ تحریر ’’چکھاتے‘‘ ہیں۔۔
کہا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ کا گزر اپنی سلطنت کے ایک ایسے علاقے سے ہوا جہاں کے لوگ سیدھا نہر سے ہی پانی لے کر پیتے تھے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ عوام الناس کی سہولت کے لیے یہاں ایک گھڑا بھر کر رکھ دیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا اور ہر چھوٹا بڑا سہولت کے ساتھ پانی پی سکے گا۔ بادشاہ یہ کہتے ہوئے اپنے باقی کے سفر پر آگے کی طرف بڑھ گیا۔ ۔شاہی حکم پر ایک گھڑا خرید کر نہر کے کنارے رکھا جانے لگا تو ایک اہلکار نے مشورہ دیا۔۔ یہ گھڑا عوامی دولت سے خرید کر شاہی حکم پر یہاں نصب کیا جا رہا ہے، ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے اور ایک سنتری کو چوکیداری کے لیے مقرر کیا جائے۔ سنتری کی تعیناتی کا حکم ملنے پر یہ قباحت بھی سامنے آئی کہ گھڑا بھر نے کے لیے کسی ماشکی کا ہونا بھی ضروری ہے اور ہفتے کے ساتوں دن صرف ایک ماشکی یا ایک سنتری کو نہیں پابند کیا جا سکتا، بہتر ہوگا کہ سات سنتری اور سات ہی ماشکی ملازم رکھے جائیں تاکہ باری باری کے ساتھ بلا تعطل یہ کام چلتا رہے۔ ایک اور محنتی اہلکار نے رائے دی کہ نہر سے گھڑا بھرا ہوا اٹھا کر لانا نہ تو ماشکی کا کام بنتا ہے اور نہ ہی سنتری کا۔ اس محنت طلب کام کے لیے سات باربردار بھی رکھے جانے چاہئیںجو باری باری روزانہ بھرے ہوئے گھڑے کو احتیاط سے اٹھا کر لائیں اور اچھے طریقے سے ڈھکنا لگا کر بند کر کے رکھیں۔۔ ایک اور دور اندیش مصاحب نے مشورہ دیا کہ اتنے لوگوں کو رکھ کر کام کو منظم طریقے سے چلانے کے لیے ان سب اہلکاروں کا حساب کتاب اور تنخواہوں کا نظام چلانے کے لیے منشی محاسب رکھنے ضروری ہونگے، اکاؤنٹنگ کا ادارہ بنانا ہوگا، اکاؤنٹنٹ متعین کرنا ہونگے۔ ایک اور ذو فہم و فراست اہلکار نے مشورہ دیا کہ یہ اسی صورت میں ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ہر کام اچھے طریقے سے چل رہا ہے تو ان سارے ماشکیوں، سنتریوں اور باربرداروں سے بہتر طریقے سے کام لینے کے لیے ذاتی معاملات کا ایک شعبہ قائم کرنا پڑے گا۔ ایک اور مشورہ آیا کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے مگر ملازمین کے درمیان میں لڑائی جھگڑا یا کوئی زیادتی ہو جاتی ہے تو ان کا تصفیہ اور ان کے درمیان میں صلح صفائی کون کرائے گا؟ تاکہ کام بلاتعطل چلا رہے، اس لیئے میری رائے میں خلاف ورزی کرنے والوں اور اختلاف کرنے والوں کی تفتیش کے لیے ایک قانونی امور کا محکمہ قائم کیا جانا چاہیے۔ان سارے محکموں کی انشاء کے بعد ایک صاحب کا یہ مشورہ آیا کہ اس سارے انتظام پر کوئی ہیڈ بھی مقرر ہونا چاہیئے۔ ایک ڈائریکٹر بھی تعینات کر دیا گیا۔
سال کے بعد حسب روایت بادشاہ کا اپنی رعایا کے دورے کے دوران اس مقام سے گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ نہرکے کنارے کئی کنال رقبے پر ایک عظیم الشان عمارت وجود میںآچکی ہے،جس پر لگی ہوئی روشنیاں دور سے نظر آتی ہیں اور عمارت کا دبدبہ آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ عمارت کی پیشانی پر نمایاں کر کے۔۔وزارت انتظامی امور برائے سرکاری گھڑا۔۔ کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ بادشاہ اپنے مصاحبین کے ساتھ اندر داخل ہوا تو ایک علیحدہ ہی جہان پایا۔ عمارت میں کئی کمرے، میٹنگ روم اور دفاتر قائم تھے۔ ایک بڑے سے دفتر میں، آرام دہ کرسی پر عظیم الشان چوبی میز کے پیچھے سرمئی بالوں والا ایک پر وقار معزز شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے سامنے تختی پر اس کے القابات۔۔پروفیسر ڈاکٹر دو جنگوں کا فاتح فلان بن فلان ڈائریکٹر جنرل برائے معاملات سرکاری گھڑا۔۔ لکھا ہوا تھا۔ بادشاہ نے حیرت کے ساتھ اپنے وزیر سے اس عمارت کا سبب پوچھا، اور ساتھ ہی اس عجیب و غریب محکمہ کے بارے میں پوچھا جس کا اس نے اپنی زندگی میں کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ بادشاہ کے وزیر نے جواب دیا، حضور والا، یہ سب کچھ آپ ہی کے حکم پر ہی تو ہوا ہے جو آپ نے پچھلے سال عوام الناس کی فلاح اور آسانی کے لیے یہاں پر گھڑا نصب کرنے کا حکم دیا تھا۔ بادشاہ مزید حیرت کے ساتھ باہر نکل کر اس گھڑے کو دیکھنے گیا جس کو لگانے کا اس نے حکم دیا تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ گھڑا نہ صرف خالی اور ٹوٹا ہوا ہے بلکہ اس کے اندر ایک مرا ہوا پرندہ بھی پڑا ہوا ہے۔ گھڑے کے اطراف میں بیشمار لوگ آرام کرتے اور سوئے ہوئے نظر آئے اور سامنے ایک بڑا بورڈ لگا ہوا تھا۔۔گھڑے کی مرمت اور بحالی کے لیے اپنے عطیات جمع کرائیں۔ منجانب وزارت انتظامی امور برائے سرکاری گھڑا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زیادہ درخت لگانا اس لیے ضروری نہیں کہ اس سے چھاؤں ملے گی اورگرمی کی شدت کم ہوگی بلکہ اس لیے ضروری ہے کہ آنے والے برسوںمیں قوم کو پتے کھا کر گزارا کرنا ہو گا۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر