... loading ...
ویسے تو اپوزیشن جماعتیں ہمیشہ سے ہی سندھ حکومت پر یہ سنگین الزام عائد کرتی آئی ہیں کہ وہ صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہونے دیتی ،لیکن اِس بار معاملہ ذرا مختلف ہی نہیں بلکہ بہت دلچسپ بھی تھا۔یعنی جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت صوبہ سندھ کے 4 ڈویژنز کے 14 اضلاع میں 26 جون کو بلدیاتی انتخاب کروانے کا حتمی شیڈول جاری کیا، تو اپوزیشن کی تمام جماعتیں بشمول پاکستان پیپلزپارٹی نے سندھ ہائی کورٹ میں بلدیاتی انتخابات فوری طور پر رکوانے کیلئے درخواست دائر کردی اور تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے دائر کی گئی مذکورہ، درخواست میں معزز عدالت سے استدعا کی گئی کہ’’ بلدیاتی قانون میں نئی ترامیم اورپرانے حلقوں میں نئی حلقہ بندیاں ہونے تک صوبہ بھر میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے فوری احکامات صادر کردیے جائیں۔‘‘
واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں ،تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے خلاف ایک متفقہ قانونی موقف اختیار کرلینے کے بعد اکثر سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہی تھی کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ملتوی ہوجائے گا۔جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی بلدیاتی انتخابات ملتو ی ہونے کے ممکنہ عدالتی فیصلہ کے پیش نظر بڑی بے دلی کے ساتھ انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی تھیں۔ مگر حیران کن طور پر سندھ ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن پاکستان نے ، بلدیاتی انتخابات مقررہ وقت پر کروانے کے اپنے موقف کا موثر انداز میں دفاع کیا اور بالآخر، معزز عدالت نے انتخاب سے صرف دو ،روز قبل بلدیاتی انتخابات کے التوا سے متعلق تمام درخواستیں خارج کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کروانے کی اجازت دے دی۔
چونکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سوا ، اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات ملتوی ہوجانے کا پختہ یقین کیئے بیٹھی تھیں ۔ لہٰذا ،معزز عدالت کا صوبہ میںبلدیاتی انتخابات مقررہ وقت پر کروانے کا غیر متوقع فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کے بلدیاتی اُمیدواروں پر بجلی بن کر گرا ، اور وہ یہ فیصلہ سُن کر جب تک ووٹ مانگنے کیلئے اپنے اپنے حلقوں میں نکلتے ،تب تک رات کے 12 بج چکے تھے اور قانونی طور پر انتخابی مہم جوئی کا ’’آخری وقت ‘‘ ختم ہوچکا تھا۔ اَب اِسے آپ اپوزیشن جماعتوں کی سستی و کاہلی کہیں یا پھر سیاسی کورچشمی ۔مگر سچ یہ ہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پی پی پی مخالف کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ، سندھ کے چار ڈویژنز میں سے کسی ایک بھی ڈویژن میں کہیںبھی پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرتی ہوئی دکھائی نہیں دی۔حالانکہ ماضی قریب میں سکھر ، نواب شاہ اور میرپور خاص کے شہری علاقوں میں ایم کیوا یم اور پاکستان تحریک انصاف ،بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی بہت بڑی اور طاقت ور حریف رہ چکی ہیں ۔ خاص طور پر سابق صدر پاکستان، جناب آصف علی زرداری کے آبائی شہر نواب شاہ کی بیشتر شہری یونین کونسلوں پر پیپلزپارٹی کو ایم کیو ایم کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے ۔لیکن اِس مرتبہ کے بلدیاتی انتخاب میں پیپلزپارٹی نے اپنے مخالفین کے لیے نہ تو انتخابی میدان چھوڑا ،اور نہ ہی گھوڑے ۔
جی ہاں !گزشتہ بلدیاتی انتخاب میں نواب شاہ شہرکی جن یونین کونسلوں میں ایم کیو ایم کے جن اُمیدواروں نے بھی پیپلزپارٹی کے اُمیدواروں کو ہرایا تھا ،اس بار اُن بلدیاتی اُمیدواروں کی بڑی اکثریت نے ایم کیو ایم چھوڑ کر نہ صرف پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی بلکہ اُسی یونین کونسل میں وہ، پیپلزپارٹی کی طرف سے بطور بلدیاتی اُمیدوار، چیئر مین اور یونین کونسلر کا انتخاب بھی لڑرہے تھے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ رواں، بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کے’’ ھیوی ویٹ‘‘ کہلائے جانے والے کم و بیش تمام اُمیدوار پیپلزپارٹی کو پیارے ہوگئے۔اس کے بعد تھوڑی بہت اُمید پاکستان تحریک انصاف کے نامزد کردہ بلدیاتی اُمیدواروں سے تھی کہ شاید وہ نواب شاہ ،شہر کی یونین کونسلوں میں پیپلزپارٹی کے بلدیاتی اُمیدواروں کا انتخابی میدان میں مقابلہ کرکے پیپلزپارٹی کے خلاف وہ کردار ادا کرسکے جو کبھی ایم کیو ایم ادا کیا کرتی تھی۔ مگر افسوس پاکستان تحریک انصاف کے مہرے بھی بلدیاتی انتخابات کی شطرنج میں پیپلزپارٹی کی سیاسی چالوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی کھیل میں مات کھا بیٹھے۔
پیپلزپارٹی کو پہلی اور سب سے بڑی کامیابی اُس وقت حاصل ہوئی جب نواب شاہ شہر کی یونین کونسل 2 سے چیئرمین کے لیئے نامزد پاکستان تحریک انصاف کے اُمیدوار سردار مومن خان ، اپنے پورے پینل سمیت پیپلزپارٹی کے اُمیدوار کے حق میں دست بردار ہوگئے ۔ یاد رہے کہ سردار مومن خان کو پاکستان تحریک انصاف کا تعلقہ نواب شاہ میں سب سے مضبوط ترین بلدیاتی اُمیدوار تصور کیا جارہاتھا۔ کیونکہ موصوف کا شمار نہ صرف پختون برادری کی متحرک ترین سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے بلکہ سردار مومن خان ،دھرتی لطیف ویلفیئر آرگنائزیشن کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ ، ماضی میں پختون ویلفیئر ٹرسٹ کے اہم ترین عہدیدار بھی رہے ہیں ۔ سردار مومومن خان کو پی ٹی آئی سے پیپلزپارٹی میں لانے میں کلیدی کردار ،سٹی صدر پیپلزپارٹی ،خان بہادر بھٹی اور لویہ جرگہ ،نواب شاہ کے صدر نورخان عرف ترکے خان نے ادا کیا ۔
دوسری جانب نواب شاہ شہر کی یونین کونسل 6 سے چیئرمین کے لیئے نامزد پی ٹی آئی کے ایک اور اُمیدوار عمران خان بھی انتخاب سے چند روز قبل مذکورہ حلقہ میں پی پی پی اُمیدوار کے حق میں دست بردار ہوگئے ۔یاد رہے کہ انہیں بھی پیپلزپارٹی میں لانے والے خان بہادر بھٹی ہی تھے۔ علاوہ ازیں دیگر کئی یونین کونسلوں سے چیئر مین، وائس چیئرمین اور کونسلر کا انتخاب لڑنے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے بے شمار اُمیدواروں کو بھی پی پی پی کی مقامی قیادت اپنے حق میں دست بردار کروانے میں کامیاب ہوگئی ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ صورت حال کسی ایک خاص ضلع ،تحصیل ،تعلقہ یا یونین کونسل میں ہی نہیں تھی ، بلکہ وہ تمام 14 اضلاع جہاں جہاں پہلے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے ،اُن سب میں پیپلزپارٹی نے بلدیاتی انتخاب جیتنے کیلئے اپنی اِسی موثر سیاسی حکمت عملی سے استفادہ کیا ۔
دراصل پیپلزپارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور تیاری،زبردست سیاسی حکمت عملی اور کامل یکسوئی کے ساتھ حصہ لیا۔جبکہ پی پی پی کی حریف سیاسی جماعتیں انتخاب کے آخری دن تک اِسی مخمصے اور وہم کا شکار رہیں کہ ’’سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ملتوی ہوجائے گا‘‘۔چونکہ پیپلزپارٹی کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت نے بلدیاتی انتخابات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔لہٰذا،بلدیاتی انتخابات کا پہلا معرکہ مکمل طور پر پیپلزپارٹی کے نام رہا اور یوں پی پی پی 14 ،اضلاع میں چیئر مین ، وائس چیئرمین اور کونسلرز کی بیشتر نشستیںجیتنے میں کامیاب رہی ۔
٭٭٭٭٭٭٭