... loading ...
کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 240 پر ہونے والے ضمنی انتخاب کے نتائج کے حوالے سب سے بڑی اور حیران کن خبر یہ نہیں ہے کہ یہ معرکہ کس سیاسی جماعت نے اپنے نام کیا، بلکہ ہمارے لیئے زیادہ بڑی خبر یہ ہے کہ مذکورہ ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے تمام سیاسی اُمیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں ہیں ۔ عموماً انتخابات میں چوتھے ،پانچویں یا اس سے بھی نچلے نمبر پر آنے والے اُمیدواروں کی ضمانت ضبط ہونے کا امکان ہوتاہے ۔نیز کبھی کبھار اگر مقابلہ بالکل یک طرفہ بھی ہوجائے تو پھر دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے سیاسی اُمیدوارکی ضمانت ضبط ہوجایا کرتی ہے۔ لیکن جیتنے والے اُمیدوار کے ساتھ ساتھ انتخاب میں حصہ لینے والے تمام اُمیدواروں کی ضمانتوں کا ضبط ہونا ایک ایسا انہونا واقعہ ہے ، جو پاکستان کی ہی نہیں ،شاید دنیا کی انتخابی تاریخ میں بھی کبھی کبھار ہی رونما ہواکرتاہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں انتخابات منعقد کروانے کے واحد ذمہ دار آئینی ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کڑی شرائط کے مطابق اگر کوئی شخص اپنے حلقے کے کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں سے 12 فیصد یا اس سے کم ووٹ لے تو پھر الیکشن کمیشن اس کی ضمانت ضبط کر نے مجاز ہوجاتا ہے۔ یہ ضمانت الیکشن کمیشن کے پاس بطور فیس جمع کرائی جاتی ہے۔یعنی انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدوار کے لیئے لازم ہے کہ وہ اپنے حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹوں کی کل تعداد کا کم ازکم 12 فیصد یا اس سے زائد ووٹ بہرصورت حاصل کرے، وگرنہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس اُس کا جمع شدہ زرِ ضمانت مکمل طور پر ضبط ہوجاتاہے ۔ بادی النظر میں آئین ساز وں کی جانب سے یہ شق ایک جمہوری آئین میں اس لیئے رکھی جاتی ہے تاکہ انتخابات میں جمہور یعنی عوام کی بھرپور شرکت یقینی ہوسکے۔
بظاہر کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 240 کورنگی 2 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں متحدہ قومی موومنٹ نے کانٹے کے مقابلے کے بعد میدان مارلیا ہے اور یوں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے محمد ابوبکر 10683 ووٹ لے کر کامیاب رہے۔ نیز تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار شہزادہ شہباز (کاشف قادری) 10618 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔جبکہ مہاجر قومی موومنٹ کے رفیع الدین نے 8383 ووٹ ، پیپلزپارٹی کے ناصر رحیم نے 5248 ووٹ اور پاک سرزمین پارٹی کے شبیر قائم خانی نے 4797 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔علاوہ ازیں کراچی کی عوامی حمایت رکھنے والے دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے ضمنی انتخاب کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کیا ہوا تھا اور وہ اِس انتخابی عمل کا حصہ نہیں تھیں۔ صوبائی الیکشن کمشنر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پولنگ کا ٹرن اوور شرمناک حد تک کم یعنی صرف 8.32 فیصد رہا اور مذکورہ ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے تمام اُمیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حلقہ این اے 240 کی نشست جو کہ ایم کیو ایم کے منتخب رکنِ قومی اسمبلی اقبال محمد علی کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی،اُس پر کامیاب ہونے والے ایم کیو ایم پاکستان کے اُمیدوار فقط 2 فیصد ووٹ ہی حاصل کرپائے اور وہ بھی ہارنے والے اُمیدواروں کے ہمراہ اپنی ضمانت ضبط کروانے کا داغ اپنے دامن پر لگوابیٹھے۔
ویسے تو ضمنی انتخابات میں ووٹنگ ٹرن اوور کا کم ہونا ایک معمول کی بات سمجھی جاتی ہے ، لیکن اگر انتخاب میں ڈالے گئے ووٹ کا ٹرن اوور تنزلی کی بھی آخری حد کو چھولے تو پھر اس کا صرف ایک ہی مطلب لیا جاسکتاہے ،کہ اس پورے انتخابی سرکس سے عوام نے اپنی شدید ترین لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے۔ اگر یہ ہی انتخابی نتیجہ دنیا کے کسی حقیقی اور ترقی یافتہ جمہور ی ملک میں رونما ہوا ہوتا تو وہاں کم ٹرن اوور کی بنیاد پر پورا الیکشن ہی کالعدم قرار دے دیا جاتاہے ۔ مگر چونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے آئین میں اُمیدوار کے لیئے مقررہ کردہ شرح سے کم ووٹ لینے پر تو سزا کے طور پر اُس کا زرِ ضمانت ضبط کرنے کی شق موجود ہے لیکن یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ اگر پورے الیکشن میں پولنگ کا ٹرن اوور اتنا بھی نہ ہو، جوکہ ایک انتخابی اُمیدوار کے لیے اپنی فتح کی ساکھ بحالی کے لیئے ضروری ہوتا ہے تو پھر ایسے ’’غیر جمہوری ‘‘الیکشن یعنی ایک ایسا انتخاب جس میں عوام کی اکثریت سرے سے شریک ہی نہ رہی ہو، کی ’’جمہوری حیثیت ‘‘ کس کھاتے میں شمارکی جائے گی؟۔
اُصولی طور پر جمہوریت میں ایسے ’’غیر جمہوری ‘‘ انتخابی عمل کو نہ صرف منسوخ ہونا چاہیے بلکہ اس پوری انتخابی عمل پر ملک اور قوم کا جتنا سرمایہ خرچ ہواہے ،وہ بھی اُن اُمیدواروں کی ’’جیب ِ خاص‘‘ سے فی الفور ،وصول کرناچاہیئے ،جنہوں نے اس انتخابی معرکہ میں عوامی حمایت کے جھوٹے دعوی اور نعرہ کے ساتھ میدان میں اُترنے کی بدترین سیاسی غلطی کی تھی۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ این اے 240 کراچی کے ضمنی انتخاب میں عوامی شرکت اور دلچسپی نہ ہونے کے باوجود بھی پرتشدد واقعات کثرت سے ہوئے اور ضمنی انتخاب کے دوران لانڈھی 6 نمبر میں مختلف مقامات پر فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کے الم ناک واقعات میں ایک شخص ہلاک اور پاک سرزمین پارٹی رہنما سمیت 5 افراد زخمی ہوگئے۔فائرنگ کے بعد پولنگ کا عملہ بھاگ گیا، عملہ غائب ہونے پر نامعلوم افراد نے بیلٹ باکس توڑ دیے۔ فائرنگ کے دوران ریسکیو ادارے کی ایمبولنس پر بھی گولیاں لگیں، جبکہ علاقے میں کاروبار بھی بند کروادیا گیا۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں چھوٹے سے ضمنی الیکشن میں اس طرح کے پرتشدد واقعات کا ہونا ظاہر کرتاہے ، کہ الیکشن کا پراَمن انعقاد کروانے کے ذمہ دار، ادارے بھی اپنی ذمہ داری احسن طور پر نبھانے میں بُرے طرح سے ناکام رہے ہیں ۔
دوسری جانب ضمنی انتخابات میں عوام کی واضح عدم شرکت نے ایم کیو ایم پاکستان کے عوامی مقبولیت کے دعوی پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان چسپاں کردیا ہے اور اَب اکثر سیاسی ماہرین یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا ایم کیو ایم پاکستان کراچی شہر میں عوامی حمایت کے جس سنگین ترین سیاسی بحران سے گزر رہی ہے، وہ اس سے اگلے قومی انتخابات سے قبل بحفاظت نکل پائے گی؟۔ یہ ایک ایسا مشکل اور تلخ سوال ہے ،جس کا تسلی بخش جواب حاصل کیئے بغیر ایم کیو ایم پاکستان کا اگلے قومی انتخابات میں جانا سیاسی موت کے مترادف ہوگا۔ جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی انتخابات میں بھرپور عوامی شرکت کے لیئے کوئی واضح لائحہ عمل ازسرنو اور فوری طور پر ترتیب دینا چاہیے تاکہ دیکھنے والوں کو جمہوری انتخابات کے چہرے پر ’’جمہور ‘‘ کی جھلک بھی صاف صاف دکھائی دے۔
٭٭٭٭٭٭