... loading ...
پاکستان میں بار بار ملک کی معاشی صورتحال کو سری لنکا کے معاشی بحران سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ اگلے روز وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اگر ہماری سری لنکا ایسی حالت ہوگئی تو عوام معاف نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا پہلا ہدف پاکستان کو سری لنکا بننے سے روکنا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سری لنکا کی وہ کونسی معاشی ابتری ہے جس کا بار بار تذکرہ کیا جاتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے دونوں ملکوں کی معیشت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سری لنکا ایک بڑے جزیرہ پر مشتمل سوا دو کروڑ آبادی کا ملک ہے۔ اِس وقت سری لنکا اپنی ستر سالہ تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ پاکستان اور سری لنکا دونوں کے پاس ضروری اشیا کی درآمد اورماضی میں لیے گئے قرضوں کی واپسی کیلیے درکار زرِمبادلہ نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کی کرنسی ڈالر کے مقابلہ میں مسلسل گرتی جارہی ہے۔دونوں ملکوں میں مہنگائی کی شرح زیادہ ہوگئی ہے۔ تاہم سری لنکا میں حالت پاکستان سے زیادہ خراب ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء مارکیٹ سے غائب ہوچکیں۔ دواؤں کی قلت ہے۔ بلیک مارکیٹ میں اُن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ زرِمبادلہ کی قلت کے باعث سری لنکا عالمی منڈی سے تیل‘ دوائیں‘ کھانے پینے کا سامان وغیرہ خریدنے کے قابل نہیں۔ چند روز پہلے سری لنکا کے وزیر زراعت نے بیان دیا کہ اگست تک کھانے پینے کے سامان کی قلت مزید بڑھ جائے گی۔ انہوں نے کاشتکاروں سے درخواست کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ چاول کاشت کریں۔
روان سال بارہ اپریل کو سری لنکانے اپنے ذمہ واجب الادا بیرونی قرضوں کی ادائیگی معطل کردی تھی ۔ اس سال اسے تقریبا سات ارب ڈالر واپس کرنا تھے لیکن وہ نادہندہ ہوگیا۔اس کے باوجود زرمبادلہ کی قلت دور نہیں ہوئی۔ چند روز پہلے ملک کے وزیراعظم رنیل وکراسنگھے نے ایک بیان میں کہا کہ ان کے ملک کو رواں سال میں ضروری استعمال کی اشیاء بیرون ممالک سے خریدنے کے لیے پانچ ارب ڈالر درکار ہیں۔ ان چیزوں میں ایندھن جیسے پیٹرول‘ ڈیزلـ ‘ کھانے کا سامان جیسے چاول اور کیمیائی کھادیں شامل ہیں۔ پاکستان کا یہی حال ہے کہ وہ سعودی عرب سے بار بار اُدھار تیل دینے کی فرمائش کرتا ہے۔ قطر سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ہمیں ایل این جی (مائع قدرتی گیس) اُدھار پر فراہم کرے کیونکہ ہمارے پاس اتنا زرمبادلہ نہیں کہ فوری ادائیگی کرسکیں۔ اسی طرح پاکستان نے چین سے التماس کی ہے کہ وہ اپنا واجب الادا سوا دو ارب ڈالر کا قرض واپس نہ لے بلکہ ادائیگی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کردے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) سے قرض لیے کے لیے تگ و دو کررہا ہے اور سری لنکا بھی آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان باقاعدہ طور پر ڈیفالٹ(نادہندہ) نہیں ہوا لیکن عملی طور پرہوگیا ہے کیونکہ سعودی عرب اور چین سے ماضی میں لیے گئے قرضے بروقت واپس کرنے کی بجائے انہیں ری شیڈول کروارہا ہے۔
پاکستان میں سرکاری طور پر افراطِ زر کی سالانہ شرح تقریبا ًساڑھے تیرہ فیصد ہے جبکہ سری لنکا میں تقریباً چالیس فیصد۔ معاشی مشکلات کے باعث کئی ماہ سے بدامنی پھیلی ہوئی ہے۔ اپریل میں سری لنکا میںپیٹرول کی قیمتوں میں یکدم پینسٹھ فیصد اضافہ کردیا گیا تھا۔ ہمارے ہاں گزشتہ ایک ماہ میں پیٹرول کی فی لٹر قیمت ساٹھ روپے بڑھائی جا چکی ہے اور وزیرخزانہ نے عندیہ دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں اسکے نرخ میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومت اگلے مالی سال میں پٹرول اور ڈیزل پر نئے ٹیکس لگا کر اضافی تین سو ارب روپے اکٹھا کرنا چاہتی ہے۔ سری لنکا میں پیٹرول نایاب ہے۔ ایک ماہ پہلے سری لنکا کی حکومت نے پیٹرول‘ ڈیزل کی فروخت کو محدود کردی تھی۔ اس وقت سے ایندھن راشن پر دیا جا رہا ہے۔ گلی‘ محلے‘ بازار بیشتراوقات اندھیرے میں ڈوبے رہتے ہیں ۔ ایندھن نہ ہونے سے بجلی نہیں بنائی جاسکتی۔ بہت حد تک پاکستان کا یہی حال ہے۔ حکومت کے پاس بجلی کے پلانٹ چلانے کے لیے تیل اور گیس کی رقم(ڈالرز) نہیں۔ روزانہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ آٹھ گھنٹے سے بیس گھنٹے تک ہے۔ سری لنکا کی کرنسی(روپیہ) کی قدر اتنی کم ہوگئی ہے کہ ایک امریکی ڈالر تقریباً تین سوساٹھ سری لنکن روپے کے برابر ہوگیا ہے۔پچھلے دو برسوں میں اس کی قدر میں پونے دو سوروپے سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں پاکستان کی کرنسی کی قدرڈالر کے مقابلہ میں تیس روپے سے زیادہ کم ہوچکی ہے۔اگر ہمارا زرمبادلہ کا بحران اور تجارتی خسارہ کم نہ ہوا تو پاکستانی روپیہ مزید نیچے جائے گا۔
سری لنکا کے بحران کی ایک بڑا سبب یہ ہے کہ کورونا وبا کے باعث گزشتہ دوسال میںسری لنکا میں سیاحوں کی آمد تقریباً ختم ہوگئی تھی جس سے ملک میں زرمبادلہ کی بہت قلت ہوگئی۔ ملک کی مجموعی آمدن کا بارہ فیصد حصہ سیاحت پر مبنی تھا۔ تاہم طویل عرصہ سے سری لنکا کی معیشت کے بنیادی اشاریے کمزور ہیں۔ پاکستان کی طرح اس کا بھی ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار ہے۔ سری لنکا کا چالیس فیصد قرض بین الاقوامی کیپیٹل مارکیٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔صرف دس فیصد چین سے۔ چین سری لنکا کوبحران سے نکلنے کی خاطر قرض دے رہا ہے۔ اس سے پہلے لیے گئے اُدھار کی واپسی ری شیڈول کررہا ہے۔ اس سال بھارتی حکومت نے سری لنکا کو تقریباً ڈھائی ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔ کورونا وبا سے پہلے دس برسوں میں بیرونی سرمایہ کاری نے سری لنکا میں خاصی سرمایہ کاری کی تھی لیکن پیداواری شعبہ(صنعت و زراعت) میں نہیں بلکہ مالیاتی (فنانشل) شعبہ میں۔ اسٹاک مارکیٹ کی سٹے بازی میں۔ عارضی طور پر معاشی ترقی کا بلبلہ بنا۔ حکومت نے درآمدات کی کھلی چھٹی دے دی۔ حکومت نے ٹیکس شرح کم کرنے اور نوٹ چھاپنے کی پالیسی اختیار کی۔ امیر لوگوں نے بڑے پیمانے پر کاریں اور اشیائے تعیش درآمد کیں جیسے پاکستان میں کررہے ہیں۔ سری لنکا کی درآمدات اسکی برآمدات سے اسّی فیصد زیادہ ہوگئیں۔ پاکستان کی درآمدات اسکی برآمدات سے ڈیڑھ سو فیصد زیادہ ہیں۔ ان پالیسیوں کے باعث سری لنکا کے قرضوں کے بحران نے جنم لیا جس کے سنگین نتائج نکلے۔ جعلی‘ نمائشی ترقی کے شور میں سری لنکا کی حکومت نے زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری کم کردی۔ حکومت نے کھانے پینے کی اشیاء کی درآمد کا دروازہ کھول دیا۔ سری لنکا کی زرعی پیداوار کم ہوگئی ۔ سنہ دو ہزار اکیس میں زرمبادلہ کی قلت شروع ہوگئی تو حکومت نے درآمدات پر پابندیاں لگانی شروع کیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوگئی تھی۔
درآمدات کا برآمدات سے زیادہ ہونا۔ پیداواری شعبہ کی بجائے رئیل اسٹیٹ اور فنانشل شعبہ میں سرمایہ کاری۔بھاری بیرونی قرضے۔یہ ٹھوس ترقی کے ضامن نہیں۔ پائیدار ترقی زراعت اور صنعت کے شعبوں کی پیداوار بڑھنے اور ہنر مند‘ تعلیم یافتہ افراد کا معاشرہ میں تناسب زیادہ ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش اور ویتنام کامیاب معاشی پالیسی اور ترقی کی اچھی مثالیں ہیں۔ گزشتہ تیس برسوں میںان ملکوں نے پائیدار صنعتی ترقی پر فوکس کیا جس کی وجہ سے آج یہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتیں ہیں۔ زرمبادلہ کا کوئی بحران نہیں۔ مہنگائی کی شرح کم ہے۔ فی کس آمدن اور خوشحالی بڑھ رہی ہے۔اگر پاکستان اور سری لنکا آج اپنی معاشی پالیسی بہتر بنائیں تو دس سال بعد ان کے حالات بھی بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ دنیا میں کوئی ایسا جادو نہیں کہ کسی ملک کی معیشت کو یکدم ٹھیک کردے۔ سیاستدان عوام کو سبز باغ دکھانے کے لیے ایسی باتیں کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔