... loading ...
مخلوط اسرائیلی حکومت کے لیے فلسطینی پرچم کا لہرایا جانا بھی خوف کی علامت بننے لگا ہے۔ اپنی کمزور ترین اکثریت کے باوجود اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ نے سرکاری وسائل سے چلنے والے اداروں میں فلسطینی پرچم لہرائے جانے پر پابندی کی ابتدائی منظوری دے دی۔یہ منظوری دیتے ہوئے اسرائیلی حکومت کی اپنی ٹانگیں بھی کپکپاہٹ کا شکار ہیں۔ یہ تحریک اسرائیل کی انتہا پسند مذہبی جماعت لیکوڈ نے پیش کی تھی، جبکہ کمزور عددی قوت کی وجہ سے اپنے پاں پر کھڑے نہ ہو سکنے والے وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے اس تحریک کی پوری حمایت کی۔
بل کی ابتدائی منظوری نے اسرائیلی ریاست کی اخلاقی اور سیاسی کمزوریوں کا بھی پردہ چاک کر دیا۔ سات دہائیوں سے فلسطینیوں کی لاشوں اور تباہ کردہ بستیوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنے والا اسرائیل اب تک اپنے اندرونی خوف اور کمزوریوں پر قابو نہیں پا سکا ہے بلکہ آج بھی حالت اضطراب اور خوف میں مبتلا ہے۔دوسری جانب فلسطینی پرچم کے لہرائے جانے پر پابندی کا بل باضابطہ طور پر منظور کروانے کے لیے ووٹوں کی ضروری تعداد نہ ہونے سے عوام کے سامنے مخلوط حکومت نے اپنے آپ کو مزید کمزور ظاہر کر دیا۔ اس لیے اسرائیلی خوفزدگی کے باعث اس بل کی ابھی حتمی منظوری نہیں دی جا سکی۔
فلسطینی پرچم سے خوفزدگی کا یہ تازہ سلسلہ شروع کیسے ہوا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ فلسطینی نوجوان جنہوں نے اسرائیلی گولیوں، آنسو گیس اور بمباری کے سائے میں ہوش سنبھالا ہے، وہ آزاد فلسطین کے اپنے عزم سے کبھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوئے۔ خواہ انہیں اس کے لیے اپنی جان ہی نہیں گھر بار، ماں باپ اور بہن بھائیوں کی قربانی بھی دینا پڑے۔یہ ہوتا بھی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی طلبہ جس طرح اسرائیلی تعلیمی اداروں میں اپنے پرچم لے کر جاتے اور لہراتے ہیں یہ ان کا معمول ہے۔ وہ اسے اپنی شناخت بھی سمجھتے ہیں اور آزادی کے عزم کا اظہار بھی۔ حتی کہ ان میں سے کسی کی جان بھی چلی جائے تو اس کا جسد خاکی اسی فلسطینی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جاتا ہے۔انہی پرچموں کی ایک بڑی بہار 29 مئی 2022 کو اسرئیلی کمزور حکومت کے لیے پریشانی اور لرزے کا باعث بن گئی جب یروشلم میں اسرائیلی فلیگ مارچ کے رد عمل کے طور پر دیکھتے ہی دیکھتے فلسطینی نوجوان بھی اپنے ہاتھوں میں پرچم تھامے سڑکوں پر نکل آئے۔اسرائیلی یہودیوں نے ہزاروں کی تعداد میں جھنڈے اٹھا کر فلیگ مارچ کیا تھا تاکہ وہ مقبوضہ بیت المقدس کو اپنے مکمل قبضے میں لینے کے فیصلوں کے پیچھے اپنی عوامی قوت دکھا سکے، تاہم جوابا فلسطینی پھریرے کا ڈرون طیاروں کی مدد سے بیت المقدس کی فضائی حدود میں بلند تر ہو کر لہرانا اسرائیل کے لیے چیلنج بن گیا کہ یہ پرچم بیت المقدس میں بلند ہونا اسرائیل کے لیے تکلیف اور خوف دونوں کا باعث بنتا ہے۔
فلسطینی پرچم کو دیکھ کر اسرائیلی اقتدار اعلی اور فلسطین پر مکمل قبضے کا خواب دونوں چور چور ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے فلسطینی پرچم کی موجودگی کو اوسلو معاہدہ 1993 اور بطور خاص پیرس پروٹوکول 1994 کو بنیاد بناتے ہوئے منظر سے ہٹا دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پیرس پروٹوکول کے مطابق فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطین کے پرچموں کی بہار سے پریشان ہو کر اسے روکنے کا پیغام یہ سمجھانے کے لیے بھی دیا گیا کہ بیت المقدس اسرائیل کا اندرونی معاملہ ہے۔ یعنی پورے کا پورا اور سارے کا سارا بیت المقدس۔خیال رہے کہ مئی 2022 میں ہی فلسطینی عوام نے 74 واں یوم نکبہ (قیام اسرائیل کا دن) منایا، اس سلسلے میں فلسطینی طلبہ نے یونیورسٹیوں کے کیمپسز میں مظاہرے کیے، اپنے قومی پرچم لہرائے اور آزادی فلسطین کا عزم دہرایا۔
ان طلبہ نے بن گوریان یونیورسٹی واقع بیئر سبع میں مبینہ ممنوعہ تقریب میں بھی پرچم لہرائے۔ اس صورت حال نے صہیونیوں کا غصہ مزید بڑھا دیا۔ نتیجتا صہیونیوں نے احتجاج کیا، شہر کے یہودی میئر نے فلسطینی طلبہ کی شکایت لگائی۔ نہ صرف یہ بلکہ یہودی انتہا پسندوں نے فلسطینیوں کی یوم نکبہ کی تقریب کو بھی ہائی جیک کر لیا۔ تل ابیب یونیورسٹی میں یہودی ہنگامہ اور جارحیت دونوں کا اظہار کیا گیا اور ایک تصادم والی صورت حال بن گئی۔اسرائیلی پارلیمنٹ نے فلسطینی پرچم پر پابندی کے جس بل کی منظوری دی ہے اس کے تحت کسی دشمن ریاست کا پرچم اسرائیل میں لہرایا جا سکے گا نہ فلسطین کا پرچم۔اسرائیلی میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ نے مزید اشتعال انگیزی کی۔ نتیجتا 24 مئی اس سلسلے میں سب سے زیادہ اشتعال والا دن اس طرح بن گیا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے ٹویٹ کرتے ہوئے فلسطینی پرچم لہرانے والے فلسطینی طلبہ کو دھمکی دی، 1948 کو یاد رکھو، اس دن کو یاد رکھو جسے تم نکبہ کہتے ہو۔ اگر تم لوگ باز نہ آئے تو ہم تمہیں سبق سکھا دیں گے۔ ایسا سبق جو تم کبھی نہ بھول سکو گے۔
اشتعال اور دھمکیوں کی یہ اسرائیلی مہم اسرائیلی میڈیا، سیاستدانوں، ارکان پارلیمنٹ اور اسرائیلی مسلح ملیشیا کے باہمی تعاون و ارتباط سے آگے بڑھتی رہی اور یہ سب مل کر فلسطینی عوام کو دھمکاتے رہے جبکہ اسرائیلی پولیس جان بوجھ کر اندھی بنی رہی تاکہ اسرائیلی انتہا پسند سیاست دانوں، ملیشیا اور انتظامیہ جو ظلم چاہے فلسطینی طلبہ پر کرتی رہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بینیٹ کا فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلوں کو اکسانے والا بیان مارچ کے مہینے میں ہی آ چکا تھا۔ یہ ایک اہم مرحلہ تھا۔ فلسطینیوں کے کاز کو دبایا جائے اور گرتی ہوئی مخلوط حکومت کو اگر دوبارہ الیکشن کی طرف جانا پڑے تو اس ماحول کا بھرپور سیاسی و انتخابی فائدہ اٹھایا جائے۔
اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلیوں کی بڑی تعداد نے اسلحے کے لائسنسوں کے لیے درخواستیں دینا شروع کر دی ہیں۔ اس ماحول میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں میں بڑی تعداد میں بندوقیں تھمانا یقینا بلاوجہ نہیں ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینیوں کو دبایا جائے اور ان کے مقامی سطح پر ہر طرح کے کردار خصوصا سیاسی کردار کو کمزور تر کر دیا جائے۔
اصل ہدف یہ ہے کہ فلسطینیوں کے کاز کو قومی ایجنڈے سے ہی حذف کر دیا جائے۔ فلسطینی جبر کے نتیجے میں بیبس ہو کر رہ جائیں اور ہر طرف اسرائیل چین ہی چین دکھا سکے۔ ساتھ ہی ساتھ پڑوسی عرب ریاستوں کے ساتھ سکیورٹی تعاون کے نئے نئے منصوبے شروع کیے جائیں۔ یہ ساری سکیم اسرائیل کی مربوط حکمت عملی کا حصہ ہے۔
اس مقصد کے تحت فلسطینی پرچم کے اظہار کو ختم کرنے کی کوشش کیگئی ہے۔ فلسطینی کاز کی یہ اہم علامت دنیا کی آنکھوں سے ہی اوجھل ہو جائے اور عالمی برادری کو یہ باور کروایا جا سکے کہ اسرائیل کے ہاں اب سب اچھا ہے اور فلسطینی ایشو پہلے کی طرح گرم نہیں ہے۔
اسرائیل کی کوشش یہ بھی ہے کہ فلسطینی پرچم کو پابندیوں کی زد میں لانے کے لیے طاقت کا جتنا بھی استعمال کر سکتا ہو، کرے۔ اسی مقصد کے پیش نظر اسرائیلی پولیس نے پچھلے دنوں الجزیرہ کی صحافیہ شیرین ابو عاقلہ کے جنازے کے دوران تابوت اٹھا کر لانے والے فلسطینیوں پر اندھا دھند حملے کیے۔ فلسطینیوں کو کچل کر رکھ دینے کی حکمت عملی اس لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی فلسطینی شہری فلسطین کی آزادی کے لیے کل دوبارہ کھڑا نہ ہوسکے۔اسرائیلی پارلیمنٹ نے فلسطینی پرچم پر پابندی کے جس بل کی منظوری دی ہے، اس کے تحت کسی دشمن ریاست کا پرچم اسرائیل میں لہرایا جا سکے گا، نہ فلسطین کا پرچم۔ یہ پابندی صرف یونیورسٹیوں کی حد تک نہیں ہو گی بلکہ ان تمام اداروں تک پھیلی ہوگی جنہیں اسرائیلی حکومت وسائل فراہم کرتی ہے۔
فلسطینی پرچم کے خلاف اسرائیل کی یہ جنگ حقیقتا فلسطینیوں کے جائز وجود اور آزادی کی تڑپ کو ختم کرنے کے لیے ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ نہ صرف فلسطنی پرچم لپیٹ دے بلکہ فلسطین کی آزادی کی تحریک، جدوجہد اور آزادی کے لیے کمٹمنٹ کو بھی سمیٹ دے، کہ وہ ہر فلسطینی کو اور اس کے ہاتھ میں فلسطینی پرچم کو مزاحمت کی دائمی نشانی کے طور پر ہی نہیں اپنے ناجائز وجود پر ایک امکانی فتح مندی کی علامت کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس لیے لہراتے ہوئے فلسطینی پرچم کے سامنے پورا اسرائیل لرز لرز رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔