وجود

... loading ...

وجود

افغانستان :مستقبل کا امیر ترین ملک

اتوار 05 جون 2022 افغانستان :مستقبل کا امیر ترین ملک

غالبا 2004 میں امریکی فوج کی ایک ٹکڑی کابل میں افغانستان جیولوجیکل سروے کے دفتر کی تلاشی لے رہی تھی، کہ بند الماریوں میں اسکو گرد و غبار سے آٹے نقشے اور روسی زبان میں دستاویزات کے کئی پلند ے ملے۔ جب یہ نقشے انہوں نے امریکی ماہرین کے سپرد کیے، تو معلوم ہوا کہ جنگ سے تباہ حال ملک، معدنیات خصوصا 21ویں صدی کے پیٹرولیم یعنی لیتھیم کے وسیع و عریض ذخیرے اپنی گود میں چھپائے بیٹھا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 1980میں سویت یونین کے جیولیوجیکل ماہرین نے افغانستان میں لیتھیم کی موجودگی دریافت کی تھی، مگر انہوں نے اسکو انتہائی خفیہ رکھا تھا۔ خیر روسی نقشوں اور چارٹوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد امریکی جیولاجیکل سروے کے افسران نے نگرانی کرنے والے خصوصی جہاز پی ۔سی 3اورین کی مدد سے مزید معلومات اکھٹی کیں۔یہ جہاز بحری افواج سمندر کی تہہ میں آبدوزوں کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ 2007میں اس ٹیم نے برطانوی بمبار طیارہ کرایہ پر لیکر اس میں جدید آلات فٹ کرکے اس پر مزید تحقیق کی۔ 2009میں امریکی محکمہ دفاع کی ایک ٹیم جو عراق سے افغانستان منتقل ہو گئی تھی، نے گراونڈ پر جائزہ لیکر آخر کار لیتھیم کے ذخائر کی تصدیق کی اور اسکے اگلے سال انہوں نے افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو بریف کیا۔ ابھی حال ہی میں فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے اطلاع دی کہ افغانستان کی وزارت خزانہ غیر ملکی امداد و قرضہ کے بغیر ملکی وسائل کے بل بوتے پر ہی اپنا سالانہ بجٹ ترتیب دے رہی ہے۔ افغانستان کی وزارت خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل کے مطابق تمام تر بجٹ ملکی وسائل پر مشتمل ہوگا۔ امریکی حکومت نے افغانستان کے نو بلین ڈالر منجمد کیے ہیں۔ پچھلے سال اشرف غنی کے دور میں عالمی مالیاتی اداروں کی زیر نگرانی جو بجٹ پاس ہوا تھا، اس میں2.7بلین ڈالر کی غیر ملکی امداد کے باوجود خسارہ دکھایا گیا تھا اور 217بلین افغانی ملکی سورس سے حاصل کرنے کا ہدف طے پایا گیا تھا۔ افغانستان کی اقتصادیات پچھلی کئی دہائیوں سے غیر ملکی امداد پر ہی منحصر ہے۔ معروف مصنف ولیم ڈارلمپل کے مطابق افغانستان پر قبضہ کرنا کسی غیر ملکی طاقت کے لیے اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا وسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس قبضہ کو برقرار رکھنا ہے۔ ان کے مطابق دیگر علاقوں میں قابض طاقت ٹیکس اکھٹا کرکے اپنی فوج اور مقامی ضروریات کا خرچہ نکال لیتی ہیں۔ مگر افغانستان میں پیداوار کی عدم موجودگی اور ٹیکس کی آمدن نہ ہونے کے سبب ایک خاص وقت کے بعد یہ قبضہ بھاری پڑتا ہے۔
ہاں اگر تزویراتی مفاد شامل ہو، تو یہ بھاری بھرکم بوجھ ٹھایا جاسکتا ہے۔ سویت یونین افغانستان میں انفرااسٹرکچر اسلیے کھڑا کرنے کے لیے کوشاں تھا ، کہ یہ دس سال میں اسکے دس لاکھ فوجیوں کا بار سنبھال سکے، تاکہ اسکے بعد وہ پاکستان یا ایران پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہوکر گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرسکے۔مگر مقامی جدوجہد نے اسکی یہ کوشش ناکام بنادی۔ اسی طرح امریکا کا مفاد القاعدہ کو نیست و نابو کرنا تھا۔ اس مفادکے حصول کے بعد اس کے موجودگی ،بس ایک کرپٹ انتظامیہ کے لیے ڈالر پھونکنا کسی بھی صورت میں تزویراتی مفاد ات کی آبیاری نہیں کررہا تھا، جبکہ سرد جنگ ایشیا ۔پیسیفک میں منتقل ہو رہی تھی۔ اشرف غنی افغانستان کے معدنی وسائل کا حوالہ دیکر امریکیوں کو روکنے کی بھر پو کوششیں کررہا تھا، مگر عدم استحکام اور طالبان کے حملوں اور انتظامیہ کی غیر مقبولیت کی وجہ سے اس پر سرمایہ کاری کرنا ناممکن تھا۔ خیر حا ل ہی میں اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں کاربن گیس کے اخراج کو کم کرنے اور غیر روایتی توانائی کو فروغ دینے کے سلسلے میں عالمی رہنماوں نے جو وعدے کیے، وہ بڑی حد تک افغانستان میں امن و امان کے بحال ہونے اور استحکام پر ٹکے ہوئے ہیں۔ لیتھیم جس کو 21ویں صدی کا پیٹرولیم کہا جاتا ہے، سیل فون، کمپوٹر اور الیکٹرک اور ہائی برڈ گاڑیوں کی بیٹریوں کا اہم جز ہے۔ اس کا استعمال جوہری توانائی کے ری ایکٹروں کے علاوہ روبو ٹ ٹیکنالوجی میں بھی ہوتا ہے۔ اس کو ایلومینیم اور تانبہ کے ساتھ ملاکر ہوائی جہازوں کے خول بنانے اور دماغی امراض کی دوائیاں بنانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ابھی تک جنوبی امریکی ممالک ارجنٹائن بولیویا اور چلی میں اسکے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اسلیے ان ممالک کو لیتھیم تکونی ممالک کہا جاتا ہے۔ مگر ٹرانسپورٹ کے خرچہ کی وجہ سے ایشیائی ممالک کے لیے ان میں سرمایہ کاری کرنا اور پھر ڈھونا غیر منفعت بخش سودا ہے۔ اسلیے بھارت ہو یا چین یا روس، ان کی نگاہیں، افغانستان کے لیتھیم کے ذخائر پر ٹکی ہوئی ہیں۔ ایک ترک ماہر انرجی علیف نوراوغلو کے مطابق پیٹرلیم کی طرح لیتھیم بھی دنیا کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی کی صورت میں ابھر رہا ہے، اور جو ممالک اس کے ذخائر کے مالک ہیں، وہ 21ویں صدی کی تیسری دہائی کے شیخ ہیں۔ ایک سروے کے مطابق افغانستان کے غزنی، ہرات اور نمروز میں تین ٹریلین مالیت کے لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔ سویت دور میں افغانستان کی جیولاجیکل سروے میں کام کرنے والے ایک ماہر کے مطابق اگر افغانستان کو چند سال ہی امن و امان کے ملتے ہیں، تو یہ جلد ہی دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں شامل ہو جائیگا۔ ایک امریکی جریدہ نے تو اسکو لیتھیم کا سعودی عرب بھی قرار دیا ہے۔امریکی جیولاجیکل سروے کے مطابق صرف غزنی میں ہی 21ملین ٹن لیتھیم کے ذخائر زمین کی تہہ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس تباہ حال ملک میں 60ملین ٹن تانبہ، 2.2ملین ٹن خام لوہا اور 1.4ملین ٹن نایاب زمینی معدنیات یعنی لانتھانیم، سیریم، نیوڈائی میم موجود ہیں۔
ہلمند صوبہ کے خان شان میں 1.1ملین ٹن کی نایاب زمینی معدنیات موجود ہیں۔ امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان ری کنسٹرکشن یعنی SIGARکی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پچھلی حکومتوں کی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے کوئی بھی کمپنی معدنیات کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرنے پر تیار نہیں ہوتی تھی۔ ان رپورٹوں کے مطابق تقریبا دو ہزار مقامات پر مقامی وار لارڈ غیر قانونی طور پر کان کنی کرکے سالانہ 300ملین ڈالر کا چونا کابل حکو مت کو لگا رہے تھے۔ چند ہفتے قبل برطانوی جریدہ فنانشل ٹائمز کے مطابق دس چینی کمپنیوں کے ایک نمائندہ وفد نے کابل اور افغانستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد ان ذخائر کا جائزہ لیااور ان کی کان کنی کے لیے طالبان کے لیڈروں کے ساتھ گفت شنید کی۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمزنے بعد میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کی سرمایہ کاری سکیورٹی، انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور افغانستان کے نئے حکمرانوں کے رویہ پر منحصر ہوگی۔ چینی کمپنیاں بے یقینی کی صورت حال میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزکرتی ہیں۔ اس کی واضح مثال افغانستان میں تانبہ کی کان ہے، جہاں دنیا کے وسیع تر تانبہ کے ذخائر موجود ہیں۔ چین نے ایک دہائی قبل اسکا ٹھیکہ لے لیا تھا، مگر جنگ اور نقل و حمل میں مشکلات کی وجہ سے کام کی رفتار نہایت ہی سست رکھی۔کئی بار اشرف غنی حکومت نے یہ ٹھیکہ منسوخ کرنے کی بھی دھمکی دی تھی۔ سنگاپور یونیورسٹی میں پروفیسر کلاڈیا چیا کے مطابق چینی کمپنیاں اسی طرح کی پالیسیاں، مراعات اور تحفظ چاہتی ہیں، جو پڑوس میں پاکستان میں سی پیک کو حاصل ہیں۔اشرف غنی حکومت کی برطرفی کے بعد بھارت ، جو ایک شاک کی کیفیت میں تھا ، اب اس سے باہر نکل کر طالبان کے ساتھ رابطہ استوار کرنے میں مصروف ہے۔یہ بھی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ طالبان اسٹریجک آٹانومی کے خواہا ں ہیں، اور کسی بھی ملک بشمول پاکستان کو اپنے معاملات میں مداخلت نہیں کرنے دینا چا ہتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ طالبان نے بھارت کی بنیادی تشویش کہ افغانستان کی سرزمین اس کے خلاف استعمال نہ ہو،کو مد نظر رکھ کر کسی بھی بھارت مخالف گروپ کو ابھی تک پناہ فراہم نہیں کی ہے۔ باقی ایشوز پر بھارت زبانی جمع خرچ کرتا رہیگا، مگر ان پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کی بڑی وجہ بھارت کی 2019کی الیکٹرنک پالیسی ہے، جس میں موبائل فون بنانے میں چین سے سبقت لینے کی بات کہی گئی تھی اور ہر سال 600ملین موبائل فون برآمد کرنے کا نشانہ رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ گلاسگو اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے 2030تک 480گیگا واٹ بجلی غیر روایتی ذرائع سے پیدا کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ یہ سبھی ٹارگٹ جنوبی امریکی کے لیتھیم کے ذخائر سے حاصل نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ اسکے لیے پڑوس میں افغانستان میں عمل و دخل کے لیے نئے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا ضروری ہے۔ مگر اسکے لیے بھارت کو پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات معمول پر لانے ہونگے۔ یہ کڑوی گولی جلد یا بدیر اسکو نگلنے ہی پڑے گی۔ جس طرح 50یا 60کی دہائیوں میں عرب ممالک میں پٹرولیم کی دریافت اور اسکے ذریعے دولت کی ریل و پیل عرب شیخوں کے لیے ایک امتحان تھا، بس اسی طرح لیتھیم کے ذخائر بھی افغانستان کے حکمرانوں کے لیے امتحان ثابت ہونگے۔ عرب حکمرانوں نے اس دولت کو علم و حرفت یا Knowledge Economy کے فروغ کے بجائے ذاتی عیش و عشرت پر صرف کیا۔ یہ افغانستان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ اور اس خطے کے لیے نشا ثانیہ ثابت ہوسکتا ہے۔ امید ہے کہ افغانستان کے حکمران عرب شیخوں کی پیروی کے بجائے خطے کو واقعی دنیا کے لیے مثال بنائیں گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ معدنیات تب تک بیکار ہیں، جب تک یہ زمین کی گود میں چھپے رہیں۔ ان کو نکالنے ،سرمایہ کاری اور نقل و حمل کے لیے امن و امان ،استحکام و حکومتی پالیسیوں میں تسلسل لازمی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر