... loading ...
٭ امام شبعیؒ کا کہناہے میں قاضی شریح کے پاس ملنے گیا ایک عورت اپنے خاوندکے ظلم و ستم کی فریادلے کر آئی جب وہ عدالت کے روبرو اپنا بیان دینے لگی تو اس نے زارو قطار روناشروع کردیا مجھ پر اس کی آہ ہ بکا کا بہت اثرہوامیںنے قاضی شریح سے کہا’’ابو امیہ اس عورت کے رونے سے صاف ظاہر ہوتاہے وہ مظلوم اور بے بس ہے اس کی ضرور مددہونی چاہیے میری یہ بات سن کر قاضی شریح نے کہا اے شبعی!یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی ان کو کنویں میں ڈالنے کے بعد روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس آئے تھے اس لیے کبھی یک طرفہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
٭ شیخ سعدیؒ کے پاس ایک لڑکی آئی اور کہنے لگی آپ اللہ کے ایک برگزیدہ بندے ہیں ان نوجوانوںکو سمجھائیں کہ جب لڑکیاں گزرتی ہیں یہ نظریں نیچی رکھا کریں۔۔۔انہوںنے کہا فرض کیا آپ نے ہاتھ میں بغیر ڈھانپے گوشت پکڑاہواہے کتے بھونکیں۔ گوشت کے حصول کے لیے پیچھا کریں تو آ پ کیا کریں گی؟۔ اس نے کہا میں کتوںکو بھگائوں گی۔ آپ نے پھر پوچھا وہ پھر بھی نہ بھاگیں تو؟۔میں اپنی بھرپورکوشش کروںگی لڑکی نے جواب دیاشیخ سعدیؒ مسکرائے ۔ کہا اس طرح تو تم مشکل میں پڑ جائوگی۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ گوشت کو کسی کپڑے سے ڈھانپ کر لے جائو اس طرح کتے نہیں بھونکیں گے اور پیچھا بھی نہیں کریں گے۔
٭خالی پیٹ،خالی جیب اور جھوٹا پیار انسان کو زندگی میں وہ سبق سکھا دیتاہے جو بڑے سے بڑا استاد بھی نہیں سکھا سکتا
٭ایک شخص غصے کا بڑا تیز تھا غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتا اور کسی کا لحاظ نہ کرتا اسی وجہ سے اس کا کوئی دوست بننا پسند نہ کرتا حتیٰ کہ گھر والے بھی تنگ تھے اس نے ایک اللہ والے سے پوچھا میں اس عادت سے تنگ ہوں کیا کروں؟۔ اللہ والے نے کہا بڑا آسان حل ہے جب بھی تمہیں غصہ آئے درخت میں کیلیں ٹھونک دینا ۔اس نے اس تدبیرپر عمل کیا تو اس کا غصہ کم ہو گیا ایک دن اللہ والے نے کہا مجھے اس درخت تک لے چلو جہاں تم کیلیں ٹھونکا کرتے تھے۔ وہ انہیں وہاں لے گیا۔انہوںنے کہا اب تم درخت کے تنے سے کیلیں باہر نکالو۔اس شخص نے ایسا ہی کیا کیلیں تو نکل گئیں لیکن درخت میں سوراخ ہوگئے اللہ والے نے کہا یہ وہ سوراخ ہیں جو تم غصے میں لوگوںکے دلوںمیں کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ کوئی تمہارا دوست بننا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
٭ خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں حضرت بہلولؒ کا بڑا شہرہ تھا ایک دن وہ ایک گلی سے گذررہے تھے کہ انہوںنے دیکھا کچھ بچے اخروٹ کھیل رہے ہیں ایک بچہ کھڑا رورہا ہے آپ نے خیال کیا اس کے پاس اخروٹ نہیں ہیں اس لیے رورہاہے۔وہ پاس گئے اس کو پیار سے کہا بیٹا !رومت میں تجھے اخروٹ لے کر دیتاہوں تو بھی کھیل۔ بچے نے روتے روتے سر اوپر اٹھایا حضرت بہلولؒ سے کہا کیا ہم دنیا میں کھیلنے کے لیے آئے ہیں؟۔آپ چونک اٹھے انہیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ ایک بچہ ایسا جواب دے گا۔۔پھر کیا کرنے آئے ہیں حضرت بہلولؒ نے استفسارکی۔اللہ کی عبادت کرنے۔بچے نے فوراً جواب دیا
تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔حضرت بہلولؒ نے کہافکر نہ کرو۔ابھی تمہاری اس منزل پرآنے میںکافی دیرہے۔ بچے نے کہا اے بہلولؒ ن مجھ سے مذاق نہ کر میںنے اپنی ماں کو اکثردیکھاہے وہ جب بھی آگ جلاتی ہے ابتد ا چھوٹی لکڑیاں جلانے سے کرتی ہے بڑی لکڑیاںتو بعدمیں رکھتی ہے مجھے ڈرہے کہیں دوزخ میں پہلے چھوٹے نہ ڈالے جائیں بڑوںکی باری بعد میں نہ آئے ۔ یہ سننا تھا کہ حضرت بہلولؒ بے ہوش کر زمین پر گرگئے۔
٭ہم مسلمان بھی بڑے عجیب ہیں جو لوگ یہ کہتے ہیں ہم غیرمسلم ہیں انہیں ہم مسلمان بنانے کے لیے تل جاتے ہیں اور جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ان پر کفر کے فتوے لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ OOO ایک انتہائی افسوس ناک بات بلکہ اسے امت ِ مسلمہ کے لیے لمحہ ٔ فکریہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم بڑے سے بڑے ایشو پر بھی متحدنہیں ہوتے اس میں بڑی رکاوٹ ذاتی انا اور فرقہ واریت ہے ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ حرمت رسول ﷺ کے لیے’’ ایک‘‘ نہیں ہو سکتے۔ عقیدہ ٔ ختم ِ نبوت ﷺ پر بھی مختلف مکاتب ِ فکرنے یکجہتی کا ثبوت نہیں دیا لگتا تھا جو اس سلسلہ میں احتجاج کررہاہے یہ اسی کا مسئلہ ہے سیاستدان سماجی کارکن حتیٰ کو مذہبی جماعتیں سب کے سب اپنی چودھڑاہٹ کے لیے دیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے بناتتی رہتی ہیں اس طرز عمل نے مسلمانوںکو بہت نقصان پہچایا ہے مسلمانوںکے بنیادی عقائد پر بھی ہم سب مصلحت کا شکار ہوجاتے ہیں یاپھر یہ خیال کیا جاتاہے ہم کسی کا ساتھ دے کر اسے ہیرو کیوں بنائیں دل کہتاہے جس روز تمام مسلمان متحد ہوکر اپنے ذیشان پیغمبر ﷺکی حرمت کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے کوئی ان کی شان میں ناپاک جسارت کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔