وجود

... loading ...

وجود

تصادم اور تباہی کے اندیشے

جمعه 03 جون 2022 تصادم اور تباہی کے اندیشے

پاکستان کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورت حال میں خرابی کی ذمہ دار سابقہ حکومت ہے یا موجودہ حکومت ؟ اس سوال پر لا حاصل بحث غیرمعینہ مدت تک جاری رکھی جاسکتی ہے اس بارے میں الزامات اور جوابی الزامات عوام کے مسائل کا حل نہیں ہیںاصل مسئلہ عوام کی خوشحالی اور روزمرہ زندگی کی بہتری کا ہے جس میں اچھائی کے بجائے خرابی بڑھ رہی ہے ان میں سب سے اہم مسئلہ مہنگائی ہے روز مرہ استعمال کی اشیاء ، آٹا ،دالیں ،سبزی ،گوشت کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں لوگوں پر ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے کرایوں ، پٹرول کی قیمت میں اضافے سے منفی اثرات پیدا ہورہے ہیں ان کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے، لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی ان کے لیے عذاب کی صورت بن گئی ہے، اب مجبوری میںجب لوگ اپنے گھریلو بجٹ میں کمی کریں گے تو اس کے مارکیٹ پر بھی منفی اثرات ہونگے جب خریداری کم ہوگی تومصنوعات کی فراہمی اور پیداوار کو بھی کم کرنا ہوگا، ملازمین کی چھانٹی بھی ہوگی عام طور پرسب سے پہلے لوگ باہر کے کھانوں میں بچت کرتے ہیں مہنگے ریسٹوران میں گاہک رفتہ رفتہ کم ہوجائیں گے غرض یہ کہ پوری معیشت پر اس کے منفی اثرات کا آغاز ہوچکا ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے اب یہ ذمہ داری موجودہ حکومت پر ہے کہ وہ ملک کی معیشت کو استحکام دے عوام کو سہولیات فراہم کرے اور ملک کے سیاسی حالات کو بہتر بنائے سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا جاری رہنا مزید نقصانات کا باعث ہوگا کسی بھی ملک کی ترقی کی بنیاد اس کامعاشی اور سیاسی استحکام ہے ملک کا سیاسی اور معاشی استحکا م اسی صورت میں ممکن ہے جب عوام خوشحال ہوں اورملکی امور میں اپنی شراکت کی وجہ سے وہ ملکی قیادت پر اعتماد رکھتے ہوں بدقسمتی پاکستان کے موجودہ بحران میں عوام مکمل طور پر نہ صرف نظر انداز ہیں بلکہ وہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں اور ملک میں غربت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اورملک میںقائم نئی حکومت اب تک ایسے کوئی اقدامات نہیں کرسکی جس سے اس صورت حال سے باہر نکلا جاسکے اگر آئندہ ڈیڑھ ماہ میںمالی بحران پر قابو نہ پایا گیا توملک دیوالیہ ہو سکتا ہے جس سست رفتاری سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ اس مسئلے کی شدت سے قطعی مطابقت نہیں رکھتی ہے ملکی معیشت کے بحران کے ساتھ سیاسی معاملات بھی شدید الجھنوں اور پیچیدگی کاشکار ہیںپنجاب میں عوامی سطح پر حکومت کو متوقع پذیرائی نہیں مل رہی ہے مہنگائی کی وجہ سے عوام تیزی سے مسلم لیگ سے دور ہورہے ہیں اور اس کیفیت کے ازالے کے لیے حکومت کے پاس متبادل حل نہیں ہے ۔
اب اس کے اثرات سندھ میں بھی ہونگے دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف انتخابات کے مطابے کے لیے ایک اور لانگ مارچ کامنصوبہ بنا رہی ہے اگر اسے طاقت سے کچلنے کی کوشش کی گئی تو اس کے مزید منفی اثرات ہونگے گذشتہ لانگ مارچ کے مناظر الیکٹرانک میڈیاپر دنیا بھر میں دیکھے گئے ہیں اور اب بھی سوشل میڈیا پر مسلسل دکھائے جارہے ہیں اس طرح کے مناظر سے کسی ملک کی ساکھ پر اچھے اثرات نہیں ہوتے ہیں یہ ایک عمومی کلیہ ہے کہ تشدد سے مزید تشدد جنم لیتا ہے اس پورے کھیل میں آصف علی زداری کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوگیا ہے اس میں کچھ ان کی اپنی صلاحیتوں کا کمال ہے تو دوسری جانب اچانک حالات بھی ان کے حق میں چلے گئے ہیں اس کی اہم ترین وجہ مسلم لیگ ن کی عوامی سطح پر حمایت کی مسلسل کمی اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی ملک سے عدم موجودگی ہے نواز شریف کی عدم موجودگی سے مسلم لیگ ن میں بھی تقسیم بڑھ رہی خصوصاًمریم نواز کو موجودہ انتظام سے مایوسی ہوئی ہے وہ جلد از جلد اپنی نااہلی اور سزا کا خاتمہ چاہتی ہیں دوسری خواہش یہ ہے کہ کسی طرح نواز شریف کے مقدمات ختم ہوں وہ ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بن جائیں یا مریم نواز خود وزیر اعظم کے عہدے پر فائزہو جا ئیں ان کی خواہش ہے کہ مستقبل میں مسلم لیگ ن کی واضح اکثریت ہو تاکہ اسے کسی دوسری سیاسی جماعت کی بیساکھیوں کی ضرورت نہ رہے ادھر مسلم لیگ ن کے قائد بھی اپنے بین الاقوامی تعلقات کو بروئے کار لاکر اپنی واپسی اور ملکی سیاست پر مکمل گرفت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جس میں انہیں کامیابی ہو سکتی ہے وہ خود بھی موجودہ انتظام سے اس لیے خوش نہیں ہیں کہ اس حکومتی ڈھانچے میں انہیں باہررکھا گیا ہے اور ان کی لندن سے پاکستان واپسی کا فوری بندوبست نہیں کیا گیا اس ساری صورت حال میں ۔
ادھر عمران خان کی پی ٹی آئی اپنے انتخابات کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ اپنی احتجاجی مہم کو جاری رکھنا چاہتی ہے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ملک بھر میں مقدمات قائم کرکے ا ن کے گرد ایک جال بن دیا گیا ہے تاکہ ریاست کی مشینری کے استعمال کے ذریعے انہین گرفتار کرلیا جائے یا ان کی نقل و حرکت کو محدود کردیا جائے عمران خان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے اپنے استعفے واپس لے لیں صوبہ پختون خواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے شہباز شریف کی وفاقی حکومت کے لیے اس حکومت سے تصادم کی کیفیت رکھنا خطرناک ہوگا اور اگرپختونخواہ حکومت کے خاتمے کی کوشش کی گئی تو شدید عوامی رد عمل سامنے آسکتا ہے ایسے موقع پر جب افغانستان میں مکمل امن واستحکام نہیں ہے حالات کسی تباہی کا رخ اختیا ر کر سکتے ہیں پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ملک کے مقتدر ادار ے سیاسی بحران کے خاتمے کی راہ تلاش کرتے ہوئے نظر نہیں آتے جس سے ملک کے سیاسی معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی ایک کوشش یہ بھی ہے کہ کسی طرح قومی اسمبلی میں اپنی عددی قوت میں اضافہ کیا جائے کے حکومت کو طول دینے کے نتائج اگر حکومت کی مرضی و منشا کے مطابق ہو بھی جائیں ایسی صورت میں بھی حالات کو بہتر بنانے کے لیے معاشی صورت حال کو بہتر بنانا ہوگا حکومت کے لیے تحریک انصاف کو سیاسی عمل سے باہر کرنا ایک انتہائی طویل عمل ہوگا اور عوامی سطح پر اس کا منفی رد عمل ہوگا پاکستان کو کسی بڑے سیاسی بحران یا تباہی سے بچانے کے لیے اعلٰی سطحی کوششیں محدود نظر آرہی ہیں اور فریقین اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر کسی حل کی طرف بڑھتے دکھائی نہیں دیتے خصوصاً عوام کے کے مسائل کے حل کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے جو جلد از جلد مہنگائی سے چھٹکارہ چاہتے ہیںعوام کی معاشی مشکلات کم نہ ہوئی تو آئندہ وہ بھی کسی بڑی احتجاجی تحریک کا حصہ بن جائیں گے ملک کی سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ عوام کو درپیش مشکلات اور پریشانی کا خاتمہ کرنے کے لیے پر جوش اور سنجیدہ نہیں جو وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے پاکستان اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے دنیا کی اہم قوتوں اورخطے کے ممالک کے لیے انتہائی اہمییت رکھتا ہے موجودہ حکومت کی مغرب اور امریکا سے قربت میں اضافہ ہوگاچین سے تعلقات محدود ہونگے اور روس سے دوری ہوگی فی الحال عوامی دبائو سے بھارت اور اسرائیل سے فوری روابط مشکل ہونگے لیکن مالی بحران سے نمٹنے کے لیے آئندہ کے سازگار حالات میں حکومت اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کر سکتی ہے اصل مسئلہ پاکستان کے عوام کی خوشحالی اورانہیں با اختیار بنانا ہے اسی صورت میں پاکستان ترقی کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر