وجود

... loading ...

وجود

عدم اعتماد کی تحریک آگے کیوں نہ بڑھ سکی ؟

جمعرات 02 جون 2022 عدم اعتماد کی تحریک آگے کیوں نہ بڑھ سکی ؟

جام کمال خان صلاحیتوں اور کئی عمدہ صفات کے حامل ہیں،جو کمزور ،مروجہ سیاسی دائو پیج اور چالوں سے نا بلد ساتھیوں کے رہبر ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو انہیں عدم اعتماد کی تحریک کے آغاز ہی میں مات نہ نہ کھانی پڑتی۔ جو18 مئی کو سیکریٹری بلوچستان اسمبلی کے پاس جمع کرادی گئی تھی جس پر 14ارکان نے ستخط کر رکھے تھے ۔ قائمقام گورنر بلوچستان جان محمد جمالی نے عدم اعتماد کی تحریک ٹیبل کرانے کے لیے26مئی کو صبح دس بجے اسمبلی اجلاس طلب کرلیا تھا۔ چناں چہ اس روز مقررہ وقت پر اجلاس شروع نہ ہوسکا ،کہ ارکان حاضر نہ تھے۔ حیرت ہے کہ جام کمال، سردار یار محمد رند، ظہور بلیدی اور ان کے دوسرے ہم خیال عین اسمبلی اجلاس کے وقت جمعیت علماء اسلام وغیرہ سے حمایت کی خاطر گفت و شنید کی بھاگ دوڑ میں لگے رہے۔ چناں چہ پانچ گھنٹے کی تاخیر سے اجلاس شروع ہوا۔ ظہور بلیدی نے عبدالقدوس بزنجو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی تو محض گیارہ ارکان تحریک کی حمایت میں اٹھے ۔ تحریک ٹیبل ہونے کے لیے 65اراکین پر مشتمل ایوان کا 20فیصدیعنی 13ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے، جو پورے نہ ہو سکے ۔ اس طرح ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ یہ اتنے لا علم رہے کہ محض ایک دن پہلے عبدالقدوس بزنجو نے پی ٹی آئی کے مبین خان کو ان سے توڑا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک اچکزئی نے پہلو تہی کر رکھی تھی،اجلاس میں بھی شریک نہ ہوا۔اے این پی کے نعیم بازئی آخری ساعت میں کھسک گئے۔مبین اور نعیم بازئی نے عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط بھی کیے تھے ۔ ظاہر ہے یہ ملاپ اللہ واسطے نہیں ہوا ہے،ضروردنیاداری کے تقاضے پورے مانے گئے ہیں ۔ رہی بات زمرک اچکزئی کی اس کے نزدیک پارٹی فیصلے کی بجائے حلقہ انتخاب اور وزارت عزیز رہی ہے ۔حالانکہ ایمل ولی خان واشگاف الفاظ میں کہہ چکے تھے کہ ان کی جماعت بلوچستان میں وزیر اعلیٰ بزنجو کی تبدیلی میں ساتھ دے گی۔ اصغر خان اچکزئی جو اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر ہونے کے ساتھ صوبائی صدر بھی ہیں اور خاتون رکن شاہینہ کاکڑ پارٹی فیصلے پر قائم و صادق رہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی اس صریح انحراف پر زمرک اچکزئی اور نعیم بازئی سے بازپرس کرے گی ؟۔ دراصل جام کمال خان ، اراکین قومی اسمبلی خالد مگسی ،سردار اسرار ترین،روبینہ عرفان اور احسان ریکی نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ساتھ دیتے وقت اپنی شرائط منوانے میں ضابطہ و طریقہ کار اختیار نہیں کیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کی مانند تحریری معاہدہ کی صورت میں ساتھ دیا جاتا ۔ کیونکہ عبدالقدوس بزنجو کو بلوچستان میں پی ڈی ایم کی جماعتیں جمعیت علماء اسلام ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا تعاون و حمایت حاصل ہے۔ ان ہی کندھوں کے سہارے عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنے بیٹھے ہیں۔ بالخصوص بلوچستان نیشنل پارٹی ساری رنگینیوں میں شریک ہے۔ یعنی جام کمال خان کے بعض ساتھیوں نے قدوس بزنجو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو سرے سے سنجیدہ نہیں لیا تھا،اور نری عجلت کا مظاہرہ کیا ۔اس بنا اراکین پارلیمنٹ اور جماعتو ں سے با معنی ملاقاتیں اور روابط نہیں ہو سکے ۔سردار یار محمد رند ملاقاتیں کرتے رہے،جو سیاسی اثر ورسوخ کے حامل ہی نہیں،ان سے اپنی جماعت کے لوگ دور ہیں۔ گویا ہر لحاظ سے غیر سنجید گی و نا فہمی دیکھی گئی۔ سردار اختر مینگل پی ڈی ایم کے عہد و پیمان کی تردید کرتے ہیں، کہ وہ پی ڈی ایم کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن ہیں اور اجلاسوں میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی۔ سردار اختر مینگل نے تو الٹا مزید جام کمال خان پر طنزیہ جملے کسے ’’کہ عمران خان کے پاس تو سیاسی قوت ہے جس کا وہ مظاہرہ کررہے ہیں لیکن جام کمال کے پاس سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں‘‘۔ یہ کہ ’’جام کمال بھول گئے کہ میاں نواز شریف کی حکومت جانے کے بعد انہوں نے نواز لیگ کو کیوں چھوڑا اور جام کمال کا مقصد اقتدار کا حصول ہے‘‘۔ سردار ا خترمینگل نے یہ بھی کہا ہے ’’کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق انہیں اعتماد میں لیا جاتا تو وہ ضرور بات کرتے جب ہر جگہ سے جام کمال کو سرخ جھنڈی دکھائی دی تو اسے ہم یاد آئے‘‘۔ خیرسردار مینگل لا علم بھی نہیں تھے ،ان سے جے یو آئی کے مولانا عبدالواسع رابطہ کرچکے تھے،جنہیں جام کمال خان نے مکمل اختیار دے رکھا تھا ۔مگر سردار مینگل نے اس بارے گفتگو سے گریز کیے رکھا ۔ اور جے یوآئی بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے بھی قدوس بزنجو کی قیادت پر راضی ہونے کا کہا ۔حقیقت یہ کہ مو لانا فضل الرحمن ، میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے جام کمال خان ، خالد مگسی،سردار اسرار ترین ، روبینہ عرفان اور احسان ریکی کو صوبے میں تبدیلی میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔یہاں عدم اعتماد پیش کرنے والوں کی تدبییر اگرچہ اچھی نہ تھی ۔لیکن اگر یہ قائدین اپنے وعدے میں سچے ہوتے تو ان کی مزید رہنمائی کرتے۔ جمعیت علماء اسلام ، بلوچستان نیشنل پارٹی ، پشتونخوا میپ یا کسی دوسرے ،تیسرے کو کو اس سے کیا کہ صوبے کی حکومت کن کے ہاتھوں میں ہے !۔لوٹ مار کی حکومت ہورہی ہے۔ ہر ایک اپنا کام نکالنے و چلانے کی فکر اور تاک میں رہتا ہے۔ اور یہ سارے دھندے جمہوریت اور دستور کے نام پر کیے جاتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ صوبے میں ٹھیکیدار حکومت کر رہے ہیں۔ نوکریاں فروخت ہورہی ہیں۔ خلاف ضابطہ ملازمتوں پر تعیناتیاں ہوتی ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے اندر حال ہی میں ایسی ہی تعیناتیوں کی باز گشت ہے۔ یہ سیاسی و حکومتی لابیاںصوبے پر مسلط کی گئیں ایسی ہی حکومت کوجمہوری نظام کی شائستگی، آئین اور قانون کی بالادستی پر مقدم سمجھتے ہیں ۔جمہوریت ،آئین و قانون کی بالادستی اور شفافیت نعرے اورسلوگنز محض فریب ہیں ۔عدم اعتماد کی تحریک والے دن اجلاس میں کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی جے یوآئی کے رکن نے کی ،اورتحریک کی ناکامی پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے اراکین خوشی سے نہال ڈیسک بجاتے رہے۔ اسی رات فتح کی خوشی میں وزیراعلیٰ ہائوس میں عشائیہ کا اہتمام ہوا ۔ جے یو آئی اور بی این پی کے اراکین اسمبلی سمیت اے این پی کے زمرک اچکزئی اور پشتونخوا میپ کے ڈپٹی چیئرمین عبدالرحیم زیارتوال شادمانی میں شریک تھے ،گزارشات پیش کی گئیں ۔ذرا سوچیں کہ اگر عبدالرحیم مندوخیل مرحوم، جو پارٹی میں ڈپٹی چئیرمین کے اس بڑے عہدے پر فائز تھے ، حیات ہوتے توکیا وہ اس طرح کے کسی عشائیہ میں شریک ہوتے؟۔ جمعیت علماء اسلام ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کی حزب اختلاف کی نشستوں پر موجودگی در اصل’’ چلمن ‘‘کا پردہ ہے ۔ جبکہ حقیقت میں عبد القدوس بزنجو حکومت کا بلواسطہ حصہ ہیں ۔ جے یوآئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی تو خیر سے وفاقی کابینہ میں بھی جگہ پاچکی ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر