... loading ...
ؑٓ
سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے بعد سے اب تک پاکستان سیاسی محاذ آرائی ، عدم استحکام اور معاشی بحران میں مبتلا ہے زوال پزیر معیشت کو سنبھلنے کے لیے پندرہ سے بیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں پاکستان کے دوست ممالک نے قرضہ فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے معاہدے کی شرط عائد کررکھی ہے حکومت نے ابتدائی پچاس روز ضائع کرنے کے بعد نیم دلی سے پٹرول کی قیمت میں جو اضافہ کیا ہے وہ آئی ایم کی شرط کے مطابق ناکافی ہے ابھی پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا ہوگا اور سخت ترین بجٹ پیش کرنا ہوگا جس میں نئے ٹیکس ہونگے اور عوام پر شدید دبائو ہوگا دوسری جانب پی ٹی آئی کے مارچ کے شرکاء کے خلاف پولیس کی پر تشدد کارروائیوں کے دنیا بھر کے میڈیا میں پیش کردہ مناظر سے پاکستان کی ساکھ اور خراب ہوگئی آئی ایم ایف پر بھی اس سے اچھے اثرات نہیں ہونگے۔
سیاسی محاذ آرائی موجودہ حالات میں خطرناک ہوگی تما م جماعتوں کے اس سے گریزکرتی نظر نہیں آتی ہیں۔ ان حالات میں قوم سے وزیر اعظم کا پھیکا پھیکا سا خطاب بھی بے اثر ثابت ہوا اس پر جو تنقید ہو رہی اس سے حکومت مزید دبائو کا شکار ہے اب یہ لرزتی ہوئی حکومت خودحکمران اتحاد کے لیے اتنا بڑا مسئلہ بن گئی ہے کہ شایدان کے رفقاء اور مسلم لیگ ن کا ایک اہم حلقہ بھی شدید پریشان ہوگا کہ وہ کس مشکل میں مبتلا ہو گئے ہیںایسا محسوس ہوتا ہے کہ کثیر الجماعتی حکومتی اتحاد کے کرتا دھرتا افراد کو اقتدار برقرار رکھنے کی کوشش کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں عوام میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشانی،اور حکومتی اقدامات سے نفرت بڑھ رہی ہے ہر نیا قدم مزید مسائل کو جنم دے رہا ہے یہ ایک ایسا اتحاد ہے جس میں فیصلہ سازی کا کوئی نظام نہیں ہے ہر مرحلے پر نواز شریف ، آصف زرداری ، مولانا فضل الرحمان اور دیگر اتحادی رہنمائوں کی اجازت کی ضرورت رہتی ہے امیر جماعت اسلامی شاہ سراج الحق کے مطابق یہ ایک ایسی سواری ہے جس کے کئی ڈرائیور ہیں بحرانی حالات کا فائدہ حاصل کرکے جلسے جلوسوں کے ذریعے عمران خان کی پی ٹی آئی دنیا بھر میں یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو چکی ہے کہ وہ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے جس کا واضح اور نا قابل تردید ثبوت یہ ہے کہ جب وزیر خارجہ بلاول بھٹونے ایک معروف غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیا اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹڈ کہنے کی کوشش کی تو نہ صرف انٹرویولینے والی شخصیت نے انہیں ٹوک دیا بلکہ بلاول بھٹو کو ان کے جلسوں کے مناظر دکھانا شروع کر دیے اور کہا کہ ان کی مقبولیت دیکھ لیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے اس سے پاکستان پر منفی اثرات کا اندیشہ ظاہرکیا جارہا ہے۔
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری موجودہ حکومت کو آئندہ سال اگست تک قائم رکھنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں پاکستان کی سیاست میں وہ مرحوم جام صادق علی کے بعد دوسرے سیاستدان ہیں جو پاکستان کے طاقتور ترین سیاستدان کی صورت میں سامنے آئے ہیں جا م صادق علی اکیلے سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ بنا کر وزیر اعلیٰ بن گئے تھے اور طاقت کے تمام مراکز سے ان کے بہترین تعلقات تھے جگر کی خرابی کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا ورنہ وہ وزیر اعظم بھی بن جاتے اور انہیں اقتدار سے نکالنا ناممکن ہوجاتا آصف زرداری بھی جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں لیکن موجودہ مہنگائی اور معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے بھی ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے وہ فوری طور پر دس پندرہ ارب ڈالر کا انتظام نہیں کرسکتے یقیناً اس وقت وہ ملک کی سیاست کے مرکز و محور ہیں انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی بساط بچھا کرتمام سیاسی جماعتوں کا اتحاد قائم کرلیا موجودہ سیاسی ڈھانچے میں انہیں بنیادی اہمیت حاصل ہے اب وہ اس حکو متی اتحاد کے مرکزی کردار ہیںحال ہی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی بھرپور رابطہ مہم سے مسلم لیگ ن پر انتہائی منفی اثرات ہوئے ہیں اور وہ شدید دبائو میں ہے اس دبائو اور کمزوری کی وجہ سے مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی ہر بات ماننے پر مجبور ہے وہ آصف زرداری کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی ہے اور اس کاجھکائو پیپلز پارٹی کی جانب بڑھتا جا رہاہے ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مریم نواز آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی بھاری اکثریت سے کامیابی کی خواہش کا اظہار کر تی ہیں تاکہ مسلم لیگ ایک ایسی طاقتور قوت کے طور پر سامنے آئے جو آزادانہ طور پر بغیر کسی دبائو اور مجبوری کے خو د ہر قسم کے فیصلے کرسکے البتہ مسلم لیگ ن کی کوشش یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف پاکستان آکر سیاست کریں گے تو مسلم لیگ زیادہ بہتر مقام حاصل کرے گی حکومتی اتحاد میں اس کی برتری ہوگی آصف زرداری کے بجائے نواز شریف کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی اور رفتہ رفتہ سیاسی طور پر پورے نظام کو گرفت میں لے لیں گے موجودہ حکومت کے سامنے سب سے اہم مسئلہ مالی بحران اور حکومت کی روز بروز گرتی ہوئی ساکھ ہے عوام ایک بڑے ریلیف کی توقع کررہے تھے اور حالات یکسر مختلف ہوگئے اگر بڑے پیمانے پر مالی وسائل مہیا نہیں ہوئے تو غربت ،بے روزگاری ،مہنگائی کے علاوہ ایسا بحران بھی سامنے آسکتا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں انتشار کی صورت پیدا ہوجائے خطے کے حالات کے پیش نظر اندرونی استحکام کی اشد ضرورت ہے ان حالات کا فوری حل سامنے نہ آیا اورموجودہ کشیدگی کی کیفیت کو طول دیا گیا تو کئی سال تک بحرانی کیفیت رہے گی ا س وقت نقصان مسلم لیگ ن کا ہے مہنگائی اور بے روزگاری کاطوفان دیگر جماعتوں کوبھی لپیٹ میں لے سکتاہے۔
شہباز شریف اور آصف زرداری کا اگلا قدم عہدوں کی تبدیلی بھی ہوسکتی ہے ہو سکتا ہے کہ خود آصف زرداری وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیں اور کوئی راہ تلاش کریں اس کے لیے نواز شریف تیار ہو سکتے ہیں لیکن شہبازشریف اور ان کے بعض قریبی ساتھی تیار نہیں ہونگے البتہ اگر شہباز شریف مکمل بے بس ہو جائیں گے تو وہ اپنا عہدہ آصف زرداری کو دے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔