وجود

... loading ...

وجود

خداحافظ ،پیارے چین؟

پیر 23 مئی 2022 خداحافظ ،پیارے چین؟

 

کیا چین ہم سے ناراض ہے ؟ یا پھر ہم نے چینیوں کو ناراض کردیا ہے؟بظاہر یہ دو بالکل الگ الگ سوال دکھائی دیتے ہیں لیکن ان دونوں سوالوں کا جواب بین السطور میں ہی چھپا ہوا ہے ۔یعنی ہم پاکستانیوں نے کمال سفاکی سے چینیوں کو ناراض کردیا ہے اور اَب چین واقعی ہم سے ناراض ہے۔اگر چین ہم سے ناراض نہ ہوتا تو کیا چینی اساتذہ کبھی پاکستان چھوڑ کر جاتے ؟۔یقینا کبھی نہیں ۔یاد رہے کہ تعلیمی دنیا کا مسلمہ اُصول ہے کہ کلاس ختم ہونے کے بعد شاگرد سب سے پہلے باہر نکلتے ہیں اور اُستاد سب سے آخر میں کمرہ جماعت سے باہر جاتاہے ۔مگر یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہوا ہے، شاگرد، تعلیم و تدریس کی غرض سے کلاس میں ابھی تک بیٹھے ہوئے ہیں اور چینی اُساتذہ اپنی کلاسیں چھوڑ کر جاچکے ہیں ۔جی ہاں ! پاکستانی جامعات میں طلباء و طالبات کو چینی زبان سکھانے کیکیے چین کے تعاون سے قائمکیے گئے تمام کنفیوشس انسٹیوٹ کے چینی اساتذہ پاکستان چھوڑ کر اپنے وطن مالوف چین واپس جاچکے ہیں ۔یہاں سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا چینی اساتذہ کو اُن کے ہر دلعزیز پاکستانی شاگردوں نے روکنے کی کوشش نہیں کی ہوگی ؟۔ بالکل کی تھی جناب ، حد تو یہ ہے کہ چینی اساتذہ بھی اپنے ہونہار شاگردوں کو چینی زبان و بیان کی تدریس کے بیچ منجدھار میں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے ۔ مگر افسوس کہ امریکی مداخلت کے بل بوتے پر بننے والی نئی متحدہ حکومت نے امریکی صدر بائیڈن کو خوش کرنے کیکیے جان بوجھ کر جومعاندانہ سفارتی رویہ چین کے ساتھ روا رکھا۔اُس کے بعد بھلا چینی اساتذہ پاکستان میں رُک بھی کیسے سکتے تھے۔
واضح رہے کہ چینی اساتذہ کے پاکستان چھوڑ کرواپس جانے سے ہمارے طلباء و طالبات کا بہت بڑا تعلیمی نقصان ہوا ہے کیونکہ ہزاروں پاکستانی طلبہ عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، چینی اساتذہ سے چینی زبان کے ایڈوانس لیول کی تدریس کررہے تھے ۔یہ وہ ایڈوانس لیول ہے ،جس کی تعلیم چینی اساتذہ کے علاوہ کوئی دوسرا فراہم کرہی نہیںسکتا۔چینی اساتذہ کی اچانک رخصتی کی بظاہر وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جامعہ کراچی کے باہر ہونے والے خود کش دھماکہ میں چینی اساتذہ اور پاکستانی ڈرائیور کے جاں بحق ہونے کے بعد چینی اساتذہ نے اپنے وطن چین واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر ہم پاکستانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ چینی اساتذہ ڈر کر نہیں بلکہ نئی پاکستانی حکومت کے رویے سے شدید مایوس ہو کر چین واپس گئے ہیں۔اگر چینی ڈرپوک ہوتے تو اُس وقت پاکستان چھوڑ کر جاتے نا! جب ہر دوسرے تیسرے روز پاکستان کے کسی نے کسی شہر میں خودکش دھماکے ہورہے تھے اور کئی خودکش حملوں میں تو چینیوں کو براہ راست اور باقاعدہ اعلان کرکے نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ مگر بے شمار جانیں گنوانے کے باوجود ماضی میں کبھی چینی ورکرز اور اساتذہ ایسے اچانک واپس نہیں گئے جیسے اَب جارہے ہیں ۔ شاید چینی جان گئے ہیں، ہمارے جو’’ نادان دوست‘‘ آج بھی امریکا کے ایک اشارہ ابرو کے غلام ہیں،وہ آنے والے کل بھی غلام ہی رہیںگے اور غلاموں پر سرمایہ کاری چاہے کسی بھی صورت میں ہو ،بے سود ہوتی ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن سچ یہ ہی ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد چینی سرمایہ کاروں نے اپنی رقم پاکستان سے نکالنا شروع کر دی ہے، گوادر میں کام کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ایچ کے سنز نے گزشتہ ہفے اپنی کمپنی بند کر دی اور اس کمپنی کے سرمایہ کار اور دیگر عملہ فوری طور پر چین واپس روانہ ہوگیا ہے۔جبکہ امریکی مداخلت کی تھپکی سے بننے والے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی حکومت نے آتے ہی اپنے بھائی میاں محمد نواز شریف کو پاسپورٹ جاری کرنے کے بعد جو دوسرا سب سے اہم ترین کام کیا ہے، وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق قائم سی پیک اتھارٹی کو ختم کرنے کا فیصلہ تھا۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ سی پیک اتھارٹی کو ختم کرنے کیکیے وزیر منصوبہ بند ی،احسن اقبال نے دلیل یہ دی ہے کہ ’’ یہ ادارہ حکومت ِ پاکستان پر ایک بوجھ بن گیا ہے جس پر بے تحاشا مالی وسائل ضائع کیے جارہے ہیں جبکہ اس اتھارٹی کی وجہ سے سی پیک منصوبوں پر عمل درآمد سست روی کا شکار ہے‘‘۔ حالانکہ سی پیک اتھارٹی کا قیام سی پیک منصوبوں میں مسائل سامنے آنے کے بعد،منصوبوں کی مانیٹرنگ اور انہیں تیزرفتاری کے ساتھ مکمل کرنے کیکیے چین کی خواہش پر لایا گیاتھا۔
یاد رہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان تقریباً 62 بلین ڈالر کے ان عظیم الشان منصوبوں کو سی پیک کا نام دیا گیا ہے جن کا آغاز 2013 میں ہوا۔ ان معاہدات کے تحت چین پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ان معاہدوں میں راہداری اور توانائی کے شعبے سے متعلق منصوبوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔خیال رہے کہ چین کے ساتھ پاکستان نے سی پیک کا معاہدہ مسلم لیگ نواز کی گذشتہ حکومت کے دور میں کیا تھا مگر سی پیک اتھارٹی جیسے کسی ادارے کو ان معاہدوں کی نگرانی نہیں دی گئی تھی اور اسی قانونی اور انتظامی سقم کو ختم کرنے کیکیے سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے چین کی دیرینہ خواہش پر سی پیک اتھارٹی قائم کی تھی ۔اس اتھارٹی کا بنیادی کام سی پیک منصوبہ کی فیسلیٹیشن، کوآرڈینیشن اور مانیٹرنگ تھااورچینی کنٹریکٹر اس اتھارٹی سے بہت ’’ انتظامی سکون‘ ‘محسوس کرتے تھے کیونکہ سی پیک اتھارٹی ان کے لیے ’’ون ونڈو‘‘ کے طور پر کام کرتی تھی، یعنی چینیوں کو سی پیک اتھارٹی کی موجودگی میں اپنے کاموں کے لیے مختلف سرکاری وزارتوں اور محکموں کے چکر نہیں لگانے پڑتے تھے اور اس سی پیک اتھارٹی کی وجہ سے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے بلا کسی سرکاری رکاؤٹ کے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ مکمل ہونا شروع ہو گئے تھے اور یہ بات بائیڈن انتظامیہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی ۔
بہرکیف آج وائٹ ہاؤس انتظامیہ بہت خوش ہوگی کہ انہوں نے جن گیارہ جماعتوں کو نئی حکومت بنانے کیکیے بیرونی مداخلت کی غیبی امداد فراہم کی تھی ، اُس حکومت نے اپنے ملک کی عوام کیکیے کوئی کام ڈھنگ سے کیا ہو یا نہ کیا ہو ،مگر سی پیک اتھارٹی کو چشم زدن میں ختم کرکے امریکا کی راہ سے ایک بڑا کانٹا ضرور ہٹا دیاہے۔ بلاشبہ امریکی وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن نے اپنے ہم منصب اورنئے نکور پاکستانی وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کو متحدہ حکومت کی جانب سے یہ خدمت انجام دینے پر دل کھول کر شاباش بھی ضرور دی ہوگی اور ساتھ ہی تہدیث نعمت کے طور پر بلاول بھٹو زرداری کو امریکا پرچم کے سامنے کھڑا کر کے چین کو ایک ایسا واضح پیغام دیا گیاہے ،جسے چین کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسرا ملک سمجھ سکے ۔ تاہم ہماری دُعا ہے کہ زرداری، شہباز حکومت والے غور کریں ان کے دور حکومت کے صرف ایک ماہ میں PSX 4000 پوائنٹس ڈوب گیا ڈالر17 رپے مہنگا ہوچکا عدم تحفظ کی وجہ سے چینی ماہرین قطار لگا کر پاکستان سے بھاگ رہے ہیں۔کیا چین کو خداحافظ کہنے کا کوئی اس سے بہتر سفارتی راستہ نہیں ہوسکتاتھا؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر