وجود

... loading ...

وجود

غلطیوں کی پی ایچ ڈی اور مہنگائی

هفته 14 مئی 2022 غلطیوں کی پی ایچ ڈی اور مہنگائی

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے اورشہباز شریف کی حکومت کی تشکیل سے سیاسی عدم استحکام اور کشیدگی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے تقریباً تمام تجزیہ نگار اس سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا موضوع بحث بھی اس کی واضح عکاسی کرتا ہے دوسری جانب ملک میں مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طو فان سے عوام میں بے چینی مزید بڑھ گئی مسلم لیگ ن کی جانب سے پہلی غلطی یہ ہوئی کہ اس نے مستقبل کی منصوبہ بندی کے بغیرعدم اعتماد کی تحریک پیش کی دوسری غلطی یہ کی کہ بعض اہم مقدمات کے خاتمے کے لیے وقت حاصل کرنے کی وجہ سے فوری انتخابات سے انکار کردیا حالانکہ اس موقع پر اپنی مرضی کی شرائط منواکر انتخابات کر ائے جا سکتے تھے اور عمران خان کو شکست دے سکتے تھے وہ موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا تیسری غلطی یہ تھی کہ خود انہوں نے عمران خان کے سازش کے الزام کو بہت زیادہ اہمیت دی اور اب بھی اس جال میں پھنس رہے ہیں اور حکومت اپنی ساکھ کو روز بروز خراب کررہی ہے کہا جارہاہے کہ اس پر کمیشن بنایا جائے گا جس سے مسئلہ اور الجھے گا نئے نئے سوالات کا سامنا ہوگا ،سازش کے الزام کو بہت سنجیدہ لیا گیا اس سلسلے میں پیپلز پارٹی نے بہتر رویہ رکھاہے اوران کی جانب سے نسبتاً بہتر جواب آتے ہیں ۔
عمران خان کے سازش الزام کے جواب میںکہا جاسکتا تھا کہ سیاست میں مخالفین کے خلاف منصوبہ بندی اور اتحاد معمول کا عمل ہے عدم اعتماد کی منصوبہ بندی دو سال سے زیر غور تھی اتفاق رائے فروری اور مارچ میں ہوا ا ور اگر خود عمران خان نے کسی طاقتور ملک سے تعلقات خراب کرلیے تھے تو یہ خود ان کی غلطی تھی اس کامسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے تعلق جوڑنا بے معنی ہے لیکن بغیر سوچے سمجھے ا س قدر جوابات دیے گئے پہلے کہا گیا ایسا کوئی مراسلہ نہیں ہے پھر کہا گیا خالی کاغذ ہے پھر خط اور مراسلے کے فرق پر بحث کا سلسلہ شروع ہوا اس میں تجزیہ نگار شامل ہوگئے جو ہروقت یہ چاہتے ہیں کہ کوئی پرکشش موضوع ہو جس پر عوام کی توجہ ہو عمران خان تو ہر وقت موضوع بحث رہنا چاہتے ہیں ان کی حکومت چلی گئی لیکن نئی حکومت کو اپنے جال میں پھنسا لیا اور ملک بھر میں سوائے اس کے کوئی قصہ باقی نہیں بچا مسلم لیگ ن کو سوچنا چاہئے تھا کہ حکومت گرانے کے لیے کثیر الجماعتی اتحاد ٹھیک تھا لیکن بغیر انتخابات کے حکومت بنانا دانشمندی نہیں تھی خصوصاً ایسے موقع پر جب مہنگائی میں اضافہ ناگزیر تھاعوام کو یہ سمجھانا ناممکن ہے کہ مہنگائی کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں ہے۔
اس وقت اسٹاک مارکیٹ نیچے جارہی ہے ڈالر بے قابو ہوچکا ہے آٹا ،دال،سبزیاں،گوشت،مرغی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے لوگوں میں غصے کی کیفیت پیدا ہورہی ہے اورعوام کا رجحان عمران خان کی طرف بڑھ رہاہے موجودہ اتحادی حکومت کا سارا بوجھ مسلم لیگ ن اور خصوصاً وزیر اعظم شہباز شریف پر آگیا ہے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ آئندہ چند روز میں مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے اس میں اضافہ ہوگا جس سے عوام میں موجودہ حکومت کے لیے ناراضگی بڑھتی جارہی ہے دوسری طرف عمران خان کی تحریک انصاف نے عوامی رابطہ مہم کی برق رفتار مہم شروع کر رکھی ہے اور وہ گلی گلی محلہ محلہ اپنے کارکنوں کو متحرک کررہی ہے اور عمران کی موجودہ مہم کے ایسے حیرت انگیز اثرات ہورہے ہیں جس پر یقین مشکل ہے بعض علاقوں سے ایسی اطلاعات مل رہی کہ اس طرح کا جذباتی انداز پہلے تحریک انصاف کے لیے نہیں تھا حالات کی یہ تبدیلی مسلم لیگ ن کو ہر گذرتے لمحے اس کے اپنے حلقوں میں اس کو کمزور کررہی ہے ان حالات میں حکومت کی جانب سے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی آئین شکنی کے الزامات کے نئے مقدمات کے تحت گرفتاری بھی ایک ممکنہ غلطی ہوگی اس کے دو نتائج ہو سکتے ہیں کہ حکومت ایک طویل مدت کی احتجاجی تحریک کو کچلنے میں اپنی توجہ مرکوز رکھے اور ہر لمحہ تنقید کا سامنا کرے جس کا آغاز ہو چکا ہے اور خود تحریک انصاف نے اس کی پیش بندی کرلی ہے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے حکومت میں ہونے کے باوجود اگرحکمران جماعت زمینی حقائق سے غافل رہتی ہے یا ایسے موقع پر ایک سیاسی جماعت کو انتظامی مشینری کے ذریعے کچلنے کی کوشش کرتی ہے جو اپنی رابطہ مہم کے عروج پر ہو تو اس کے منفی نتائج سے حکومت کو نقصان ہو سکتاہے ایک ایسی راہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس سے ملک میں اندرونی استحکام ہو اور عوام بھی مطمئن ہوجائیںخصوصاً ایسے موقع پر جب خطے میں جنگ کی کیفیت ہے اور پاکستان بھی اس کا حصہ ہے۔
بھارت اور امریکا کے تعلقات میں کافی گہرائی آچکی ہے اور بھارت کو چین کے مد مقابل لانے کی کوشش ہورہی ہے بھارت رفتہ رفتہ اپنے ناراض پروسیوں کو قریب لا رہا ہے وہ ایک عرصے سے اس کوشش میں ہے کہ بھارت خطے کی ایک بہت بڑی طاقت کی صورت میں سامنے آئے چین اور امریکا کے درمیان تنائو سے اسے یہ موقع ہاتھ آگیا ہے اور وہ خود کو دفاعی اور سفارتی سطح پر مستحکم کرنے میں مصروف ہے جس کے اثرات پاکستان پر ہوسکتے ہیں نئی حکومت نے اس سلسلے میں اپنی کوئی حکمت عمل تیار نہ کرکے بھی غلطی کی ہے اگر جلد ازجلد عوام کو ریلیف نہ ملامعیشت میں بہتری نہ آئی اور بھرپور سفارتی عمل سے اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر نہ بنایا گیا تو یہ سب کچھ ملکر غلطیوں کی پی ایچ ڈی ہوگی عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کشیدگی اور تصادم کا پیش خیمہ بن سکتاہے سب سے بہتر عمل ایک بڑے سیاسی مفاہمانہ عمل کا ہے جس کی راہیں تلاش کرنا وقت کا تقاضہ ہے اس کے لیے اگر وقتی طور پر حکومت کوپیچھے ہٹنے سے نقصان بھی ہوگا لیکن اس سے بڑا نقصان جبر وتشدد سے ہوگا اس وقت بھی ملک میںتصادم کی کیفیت پیدا کرکے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے اگرریاستی مشینری کو مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا تو موجودہ صورت حال اس کی اس لیے متحمّل نہیں ہوسکتی کہ معاملات بہت آگے جا چکے ہیں ایک صورت یہ ہے کہ ممکنہ مارچ کے لیے امن وامان کی ضمانت لی جائے اور عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینے کے انتظامات کیے جائیں ممکنہ دھرنا گرمی کے موسم کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے تاریخ گواہ ہے تمام دھرنے وقت گذرنے کے ساتھ کمزور ہوتے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر