... loading ...
جو بائیڈن جن کے دوست ہیں، جناب زرداری کے کیا کہنے!
معاشرہ کتنا گل سڑ چکا ہے، اسے سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ یہاں ایسے لوگ بھی چمکتے، ہُمکتے رہتے ہیں۔موصوف جب بولتے ہیںتو رتن ناتھ سرشار کا کے ناول ” فسانہ آزاد” کا کردار” خوجی” ذہن میں اُبھرتا ہے۔”خوجی” اپنی احمقانہ حرکتوں اور طلاقت ِ لسانی سے توجہ کا موضوع رہتا تھا۔ کڈھب خوجی سمجھتا ہے کہ دنیا اسی کے دم قدم سے آباد ہے۔ یوں تو منشی سجاد حسین کا انیسویں صدی کا ناول اور کردار ”حاجی بغلول” بھی جی اُٹھتا ہے۔ ایک” خبطی بوڑھے” کے طور پر جن کی ناول میں کردار نگاری ہوئی۔ جوبائیڈن ، اوباما دور میں نائب صدر کے طور پر جب پاکستان کے صدر زرداری سے ملے تو وہ جو تاثرلے کر اُٹھے وہ کچھ مختلف نہ تھا۔ باب وُڈ ورڈ کی کتاب ”Obama’s Wars” میں اس ملاقات کی تفصیلات موجود ہیں۔
باب وُڈ ورڈ لکھتا ہے کہ” جوبائیڈن اور لینڈسے گراہم 9 جنوری (2009 ) کو بروز جمعہ اسلام آباد پہنچے تو پاکستان کے صدر زرداری نے اُن کے استقبال کے لیے سرخ قالین بچھا رکھے تھے۔پاکستان میں اکثر ان کے لیے مسٹر ٹین پرسینٹ (اعداد وشمار پرانے ہیں) کا لقب استعمال کیا جاتا ہے”۔ جناب زرداری نے اُنہیں پاکستانی اعلیٰ اعزاز ہلالِ پاکستان دیا۔زرداری ، گراہم اور جوبائیڈن تقریب کے بعد بند دروازوں کے پیچھے چلے گئے۔ ملاقات کا تفصیلی احوال کتاب میں پڑھیں، جس میں جو بائیڈن اور گراہم نے زرداری کو امریکی دوستی کی پوری تپش دی۔ اُن کی سخت گفتگو زرداری بھولے تو نہ ہوں گے۔ مصنف نے مگر اس ملاقات کا نقشہ خوب کھینچا ہے: جوبائیڈن اور گراہم کی تلخ باتوں کے جواب میں پاکستانی صدر زرداری نے اپنی مقتول اہلیہ کا رونا شروع کردیا اور کہا کہ پاکستان میں امریکا کی مخالفت بہت زیادہ ہے اگر میں نے امریکا کی کھل کر حمایت کی تو سب لوگ میرے مخالف ہو جائیں گے۔ آپ مجھے مالی امداد دو پھر میں لوگوں کو امریکا کی حمایت میں کھڑاکردوں گا”۔ اس ملاقات کے اہم نکات ذہن میں تازہ کریں تو جناب زرداری نے جو بائیڈن کی جانب سے پاکستان کی انٹیلی جنس اور عسکری اداروں کی شکایات کے جواب میں کہا مالی مدد دو ، میں اداروں میں صفائی کردوں گا، مالی مدد دو، میں لوگوں کو امریکا کی حمایت میں کھڑا کردوں گا۔ مالی مدد دو تو میں اپنے یہاں قدم مضبوط کروں۔ میری اہلیہ دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہاری، ہمیں مالی امداد کی ضرورت ہے۔ بھارت ہمیں ہراساں کررہا ہے، ہمیں مالی امداد کی ضرورت ہے۔ اسی ملاقات میں ڈرون حملوں پر جناب زرداری نے فرمایا کہ ہم مخالفت کرتے رہیں گے، آپ اپنی کارروائی جاری رکھیں،مگر یاد رکھیں ہمیں مالی امداد کی ضرورت ہے۔ باب وُڈ ورڈ لکھتے ہیں کہ جب گراہم اور جوبائیڈن اس ملاقات سے اُٹھے تو وہ سمجھ ہی نہ سکے کہ زرداری آخر کہنا کیا چاہتے ہیں؟یہ دونوں ایک اُلجھے ہوئے ذہن کے ساتھ جب اسلام آباد سے کابل پرواز کررہے تھے تو زرداری کاجو خاکہ اُن کے ذہن میں تھا اور اُن کی گفتگو میں زیر بحث رہا ، وہ وہی خوجی اور حاجی بغلول کے کرداروں سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے۔ مگر جناب زرداری فرماتے ہیں کہ جو بائیڈن اُن کے دوست ہیں، اگر کوئی سازش ہوتی تو وہ اُن سے رابطہ کرتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ رابطہ کرتے تو اس مرتبہ اُنہیں کیسے سمجھاتے؟میر تقی میر نے کہا تھا:
روز آنے پہ نہیں نسبت عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
جو بائیڈن سے اس ملاقات تک وہ صرف مسٹر ٹین پرسینٹ کہلاتے تھے، اب مسٹر سینٹ پرسینٹ ہیں۔جناب زرداری کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سوچنے کا کام بھی پیسوں سے لیتے ہیں۔ ہر معاملے میں اُن کا انداز پہلے سے بڑھ کر” خوجی” قسم کا ہوجاتا ہے۔”خوجی” کا اعتماد جس میں ذہانت اور جہالت دونوں ہی ”خوجی” کی ملکیت ہے۔ پیسوں سے حالات کو بدل کر خود کو ذہین یا پاکستان کا سب سے بڑاسیاست دان باور کرانے کے لیے ”خوجی” کا ہی اعتماد چاہئے۔ جناب زرداری اسی ”خوجی اعتماد” کے ساتھ سارا پیلن سے بھی ستمبر 2008 میں ملے تھے۔ جو بائیڈن کو وہ بھی یاد رہا ہوگا۔ امریکا میں نائب صدر کی خاتون امیدوار سارا پیلن کے سراپا کو دیکھ کر بہہ گئے تھے۔ اُسے ”قتالہ” (gorgeous) قرار دے کر یہ تک کہہ دیا کہ گلے ملتی تو وہ اجتناب نہ کرتے۔ جو بائیڈن جناب زرداری کے متعلق کیا سو چتے ہوں گے، یہ ایک طرف رکھیں، جناب زرداری امریکی سیاست کے احوال میں حصہ دار ہنری کسنجر کو یاد کریں۔ ذوالفقار علی بھٹو جس سفید ہاتھی کی دھمکی کا ذکر کرتے تھے، وہ کسی اورسے نہیں، اسی ہنری کسنجر سے منسوب ہے۔امریکی سفارت کاری کے اسی جِن نے گورنر ہاؤس لاہور میں بھٹو سے کہاتھا:ہم تمہیں بدترین مثال بنادیںگے”۔ جناب زرداری فلم وغیرہ دیکھنے میں مصروف رہے، سیاست میں ذراد یر سے آئے، وگرنہ ہنری کسنجر یہ بات بھی بھٹو سے کرنے کے بجائے موصوف سے ہی کرتے۔
سیاست کے کھیل میں ہرکاروں کی طرح حرکت کرنے والے، پریس کانفرنسوں میں کیا اعتماد دکھاتے ہیں؟ بس یہی توفسانۂ آزاد کا کردار” خوجی” دکھاتا تھا۔ تاریخ رازوں کو تادیر اخفا میںنہیں رہنے دیتی۔ بہت جلد یہ کھیل بھی عریاں ہو جائے گا کہ کس طرح جناب زرداری نے 2008ء میں معاملات مقتدر حلقوں سے ”طے” اور ”تہہ” کیے تھے۔ سوال تب یہ بھی اُٹھیں گے کہ اصل ”سلیکٹڈ” کون تھا؟ سندھ کو زرداری کی جھولی میں ڈالتے ہوئے کیا ”ایمپائر” کا کردار ”نیوٹرل” تھا؟ سیاست میں جوڑتوڑ سے پیپلزپارٹی کو برقرار رکھنے کی بے معنی کوشش میں ”سلیوٹ” کا عمل دخل کتنا ہے؟ بازاری سیاست کی کوئی حد ہوتی ہے۔ جب سیاست میں ہر چیز برائے فروخت ہوں، اقدار پامال ہوں۔ اُصول ، کھنکتے سکوں میں اُگال دانوں میں تھوکے جاتے ہوں۔ اقتدار پر گرفت کے شوق نے پاکستان کو چھوٹا کردیا ہوں۔ ایسے ماحول میں جناب زرداری ہی چمک سکتے ہیں۔ موصوف کی دماغی حالت دیکھیں، پاکستان میں چاروں کھونٹ امریکا کے خلاف نعرے گونجتے ہیں۔ ابھی تک پاکستان، افغانستان کی اُس جنگ سے پوری طرح نکل بھی نہیں سکا، جس میں امریکا نے اُسے جھونکا تھا۔ لوگ خریدے گئے تھے، اقتدار کے سودے ہوئے تھے۔ ابھی تو ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے ہزاروں پاکستانیوں کے گھروں میں ماتم بھی ختم نہیں ہوا۔ ابھی دہشت گردی کے شکار پاکستانیوں کے گھروں میں غم کی تاریکیاں بھی نہیں سمٹیں۔ اور جناب زرداری فرماتے ہیں کہ جوبائیڈن اُن کا دوست ہے، اگر کوئی سازش ہوتی تو اُن سے وہ ضرور رابطہ کرتے۔ جناب زرداری ادب سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا امریکی سازشوں کے لیے رابطے آپ جناب سے کیے جاتے ہیں، جو اس دفعہ نہیں ہوا تو آپ کو یقین نہیں آرہا۔ جو بائیڈن آپ کے دوست ہیں، کیا کہنے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔