... loading ...
بھارت کے بنائے حد بندی کمیشن نے رواں ماہ پانچ مئی کومقبوضہ جموں و کشمیر کی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کر دی ہے جسے بی جے پی کے سوا تمام جماعتوںنے تسلیم کرنے کی بجائے مسترد کردیا ہے کیونکہ سیاسی جغرافیہ تبدیل کرنے کے ساتھ مزہبی اور ثقافتی منظر نامہ بدلنے کی ایک ایسی چال ہے جس سے چناب وادی،جموں کے پیر پنجال اور وادی کشمیرکی مسلم اکثریتی آبادی اقلیت میں بدل جائے گی یہ اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں کشمیریوں سے آزادانہ اور منصفانہ استصوابِ رائے کے وعدوں سے انحراف کی ایک ایسی سازش ہے جس کی تکمیل سے مقبوضہ کشمیر کو ایک ہندوریاست ثابت کرنا مشکل نہیں رہے گا یہ مذہبی تنگ نظری کا ایک ایسا منصوبہ ہے جو عالمی برادری کی بے حسی اورمزہبی تعصب سے کامیابی کے قریب ہے لیکن یہ تعصب خطے کے امن کوہمیشہ کے لیے خطرات کے الائو میں جھونک دے گا ۔
بھارتی عدالتیں ہوں یا سیاسی جماعتیں ،سب کشمیر کو بھارت کا حصہ بنائے رکھنے پر یقین رکھتی ہیں چھ مارچ 2020 میں رنجنا ڈیسائی جو سپریم کورٹ کے ایک سابق جج ہیں کی سربراہی میں حلقہ بندی کے لیے ایک تین رکنی کمیشن بنایا گیا جس نے شاطرانہ عرق ریزی سے ایسا حلقے تشکیل دیے ہیںجہاں سے ہندو امیدوار باآسانی جیت سکیں اِس کے لیے دومرتبہ کمیشن کی مدت میں توسیع بھی دی گئی تاکہ مسلم امیدواروںکے لیے زیادہ سے زیادہ مسائل پیدا کیے جا سکیں اِس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ 2011کی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندی کی گئی ہے جس کے تحت کٹھ پتلی اسمبلی کی نشستیں 83تھیں مگر اُسی آبادی کے تحت ہونے والی موجودہ حلقہ بندی میں سات نشستیں بڑھا کر 83سے بڑھا کر 90کر دی گئیں ہیں شاطرانہ چل چلتے ہوئے جموں میں کل ریاستی آبادی کا 44 فیصد ظاہرکرتے ہوئے 37سے 43جبکہ وادی کشمیر کے باقی حصے میں کل آبادی کا 56فیصد بتانے کے باوجود 46میں صرف ایک اسمبلی نشست کا اضافہ کرتے ہوئے 47کر دیا گیا ساتھ ہی کشمیر کو خیر باد کہہ جانے والے پنڈتوں کے لیے بھی ایک خاتون سمیت دو نشستوں کی سفارش کردی گئی ہے صاف ظاہرہے یہ حلقہ بندی خلوص نہیں بدنیتی پر مبنی ہے اور مقصد لوگوں کو جمہوری حقوق دینا نہیں غاصبانہ قبضہ مستحکم کرنا ہے کمیشن کی ایک اور جانبداری یہ ہے کہ1947 میں آنے والے ہندوفوجیوں کو بھی اسمبلی میں نمائندگی دینے کی تجویز دی گئی ہے یہ مسلم آبادی سے سراسر ناانصافی ہے مگر مزہبی اور انسانی حقوق کی باتیں کرنے والی عالمی برادری چُپ ہے جبکہ اِس مسلہ کے اہم فریق پاکستان میں اقتدار کی رسہ کشی عروج پر ہے اسی لیے بھارت تعصب پر مبنی ناپاک اور شرمناک حرکتوں سے وادی کاسیاسی منظرنامے بدل رہا ہے اگر پاکستان غاصب حکومت کے اقدامات کوبے نقاب کرے تو بھارت یوں ڈھٹائی سے مقبوضہ علاقے کو اپنا حصہ ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہو۔
5اگست2019کے اقدام کے بعدبھارت نے کئی ایسے قوانین بنائے ہیںجو متنازعہ علاقہ ہونے کی بناپر غلط ہیں اِن قوانین کی رو سے بھارت سے لائے گئے ایسے شہریوں کو بھی ریاست کا باشندہ قرار دے دیا گیا ہے جن کا مقبوضہ کشمیر سے کوئی تعلق ہی نہیں ایسے حربوں سے صاف ظاہر ہے بھارت کشمیر ہڑپ کرنا چاہتاہے اب توایسے لوگوں کے لیے اگلے مرحلے میں الگ بستیاں بسانے کا بھی منصوبہ ہے لیکن مودی سرکار کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسے ہی ہتھکنڈوں سے رائے شماری کے لیے کشمیریوں نے 1990میںزوردارمسلح مزاحمت شروع کی اب بھی اگر دیوار سے لگانے اور بنیادی حقوق سلب کرنے کاسلسلہ جاری رہا تو غلامی کا طوق اُتارنے کے لیے کشمیرمیںجذبہ حریت فروغ پائے گا کیونکہ 1947میں یہاں مسلم آبادی کے بدترین قتلِ عام اورتمام تر ہتھکنڈوںاورسازشتوں کے باوجود راجواری،ڈوڈہ،رام بن،پونچھ،بھدرواہ اور کشتواڑکے اضلاع میں نصف سے زائد آبادی آج بھی مسلمان ہے پھربھی جموں کو ہندو اکثریتی علاقہ کہاجارہا ہے اب ہندو امیدواروں کو جتوانے کے لیے مسلم ووٹ فہرستوں سے حذف کرنے کا منصوبہ ہے حلقہ بندی کا عمل اِس سے بھی مشکوک ثابت ہوتا ہے کہ سارے ہندوستان میں یہ عمل2026 میں ہونا ہے لیکن خاص طور پر کشمیر میں قبل ازوقت ہی یہ کام کرنا بذاتِ خود ایک سوالیہ نشان ہے اِس سازش کا پردہ چاک کرنے کی زمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے لیکن یہاں خاموشی کا راج ہے ۔
بھارت کمال ِ مہارت سے روس کے ساتھ امریکا کی آنکھ کا بھی تارا ہے ایک طرف روس ویوکرین جنگ کی مزمت کے لیے پیش ہونے والی قراردادوں کی حمایت یا مخالفت کرنے کی بجائے غیر جانبدار ی کی آڑ میں غیر حاضر رہتا ہے تاکہ روسی ناراضگی سے محفوظ رہے تو ساتھ ہی چین کے خلاف ہونے والے امریکی گھیرائو کابھی اہم حصہ ہے یہ ایسی پالیسی ہے جس نے اُسے خطے کی معاشی و دفاعی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے بات صرف دفاعی و معاشی طاقت بننے تک محدود نہیںبلکہ دونوں طاقتوں کے منظورِ نظر ہونے سے اُس کے عالمی کردارواہمیت میں بھی اضافہ ہواہے دونوں طاقتوں جن کے سفارتی تعلقات میں تنائو ہے اور ایک دوسرے پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں کمال مہارت سے بھارت نے خود کو دونوں کے لیے ناگزیر ثابت کر تے ہوئے روس سے سستے داموں تیل اور کوئلہ خریدنے کے ساتھ امریکی سے جدید ترین ہتھیار حاصل کر رہا ہے روس اور امریکا باہمی نفرتوں کے باوجود بھارت کی نازبرداری پر مجبور ہیں جس کاجنوبی ایشیا پر یہ اثر ہوا ہے کہ مسلہ کشمیر کے حل کے بارے میں بھارتی ناراضگی کے ڈر سے دونوں طاقتیں بات نہیں کرتیں اسی بناپراُسے حلقہ بندی کے زریعے مسلہ کشمیر کو حل طلب کی بجائے حل شدہ ثابت کرنے کی جسارت کاموقع ملا ہے ۔
مقبوضہ جموں و کشمیر تقسیمِ ہند کا ایک ایسا دیرینہ مسئلہ ہے جو آج تک حل طلب ہے 1947کے دوران کشمیر سے جنم لینی والی آزادی کی تحریک نے ثابت کردیا کہ یہ مسلم اکثریتی ریاست بھارت کی محکومی اختیار کرنے پر آمادہ نہیں حریت پسندوں کے وادی میں داخلے سے خوفزدہ بھارت خودیہ مسلہ یو این اولیکر گیا اور عالمی برادری سے وعدہ کیاکہ حالات معمول پر آتے ہی کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے حقِ خوداِرادیت دیا جائے گا 1972میں ہونے والے شملہ معاہدے میں کشمیرایک حل طلب مسئلہ ہے بعد میں ماضی کی تلخیاں بھلا کر دونوں ممالک نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور اٹل بہاری واجپائی نے خاص طور پر لاہور آکر تقسیمِ ہند کے ساتھ پاکستان کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے لاہور امن معاہدہ کیا تو بھی جموں و کشمیر کو ایک متنازعہ مسلہ تسلیم کیا مگر ایک طرف مل کر آگے بڑھنے اور دوطرفہ تجارت بڑھانے کی باتیں ہو تی رہیں تو ساتھ ہی بی جے پی کی ہندوتوا پر یقین رکھنے والی حکومت نے مقبوضہ وادی کو پنجہ استبداد میں رکھنے کے لیے قتل و گرفتاریوں جیسی سفاکانہ کاروائیاں جاری رکھیں جس پر وادی کے طول و عرض میں غم و غصے نے ایسے غیض و غضب کی شکل اختیار کر لی جو کارگل لڑائی کی وجہ بنا مگر عالمی طاقتوں نے یہ کہہ کردوبارہ امن قائم کرا دیا کہ کہ مناسب وقت پر دونوں ممالک کی رضا مندی سے کشمیر کا حل نکالا جائے گا لیکن حل کی بجائے مسلہ کشمیرآج بھی برقرار ہے جس کی حساسیت میں ایک اور اضافہ یہ ہو گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ملک اب جوہری طاقت بن چکے ہیں اگر مسلہ کشمیر حل طلب نہ ہوتاتو شایدجنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہی نہ ہوتی عالمی طاقتوں کی طرفداری اور جانبداری کا نتیجہ ہے کہ 5اگست 2019کو بھارت نے کشمیر پرتسلیم شدہ قراردادوں کے باوجود مقبوضہ وادی کو یکطرفہ طور پر ضم کر لیا ہے یہ فیصلہ عالمی برادری کا منہ چڑانے کے مترادف ہے نئی حلقہ بندی قبضے کو مستقل کرنے کی طرف مزید ایک اورٹھوس قدم ہے عالمی طاقتیں تو اپنے مفادات کی بناپر بھارت کوناراض نہیں کرنا چاہتیںمگرمسئلہ کے ایک اہم فریق کے طورپر پاکستان کو اپنی زمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو نا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔