... loading ...
دوستو،جب صرف پی ٹی وی تھا، تب بھی ہمارے علاوہ پوری دنیا کو معلوم تھا کہ ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے۔ ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بوڑھے افراد نوجوانوں کے مقابلے میں جھوٹی خبروں پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔(اسی لیے ہمیں اپنا بچپن یاد ہے کہ ہمارے بزرگ کیوں ہمیشہ بی بی سی کی خبروں پر یقین کرجاتے تھے، کیوں کہ وہ بزرگ ہوتے تھے، سائنس نے آج ثابت کردیا)۔محققین نے بتایا کہ جھوٹی خبروں کا شکار ہونے کے جسمانی، جذباتی اور مالی نتائج بھی ہوتے ہیں خاص طور پر ان عمر رسیدہ افراد کے لیے جن کے پاس زندگی بھر کی جمع پونجی ہو اور انہیں سنگین طبی مسائل کا سامنا ہو۔یونیورسٹی آف فلوریڈا میں پوسٹ ڈاکٹریٹ نفسیاتی ماہر اور تحقیق کے سرکردہ مصنف، ڈیڈم پیلیوینگلو نے کہا کہ تحقیق کا مقصد سچی اور جھوٹی خبروں کا تعین کرنے میں عمر کے فرق کا پتہ لگانا تھا۔انہوں نے یونیورسٹی کی نیوز ریلیز میں کہا کہ ہم خاص طور پر یہ اس لیے جاننا چاہتے تھے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ زیادہ تر لوگ اپنی علمی صلاحیتوں میں کچھ کمی کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ محصول معلومات پر کارروائی کرنے کی دماغی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔مذکورہ بالا مطالعہ Experimental Psychology جرنل میں شائع ہوا ہے اور تحقیق مئی اور اکتوبر 2020 کے درمیان کی گئی تھی۔
دوستو،بوڑھاپا ویسے تو ایک زحمت ہی ہے، بندہ کسی کام کا نہیں رہتا، لیکن لگتا ہے امریکا میں بوڑھا ہونے کا مطلب ’’لکی‘‘ ہونا ہے۔۔اگر آپ بوڑھے ہیں اور امریکی ہیں تو پھر سمجھ جائیں کہ۔۔بوڑھے تو کام کے ہوتے ہیں۔۔امریکا وقت کی سپر پاور ہے۔وہ دنیا پر حکومت کررہے ہیں۔ان کے سکے کی قدر ہماری معیشت کے اتار چڑھاؤ کو زیروزبر کردیتی ہے۔جو دنیا کی تہذیب بدل رہے ہیں۔گلوبل ورلڈ کے خوابوں میں رنگ بھر رہے ہیں،لیکن بوڑھوں کی قدرکررہے ہیں۔۔ستتر سالہ جو بائیڈن خوش قسمتی سے وہ ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں سماج بوڑھا ہونے نہیں دیتا۔۔جوبائیڈن اگر ہمارے معاشرے میں رہ رہا ہوتا تو کبھی صدارت کے الیکشن کا سوچتا بھی نہیں۔۔بچے اسے سمجھاتے،باباجانی، آپ کے پہلے جوڑوں کا درد ہے،کن چکروں میں پڑرہے ہیں، گھر میں رہیں، ٹی وی دیکھیں، اخبار پڑھیں۔۔دوائیاں وقت پر کھالیا کریں۔۔اور ہاں اگلے ہفتے ڈاکٹر کے پاس جاناہے، آپ کا ماہانہ چیک اپ ہے۔۔۔ہم بوڑھوں سے زیادہ ان کے سرہانے رکھی ادویات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں کہ ان میں کوئی کمی نہ آجائے۔۔اور یہاں ریٹائرڈ بندہ خود کو دھرتی پہ بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔۔آپ خود سوچیں، امریکا میں صدارت بوڑھے کو مل گئی اور یہاں ہم اپنے خاندان کی چھوٹی سی ریاست میں بزرگوں کو ’’گھس بیٹھیا‘‘اور ان کی رائے کوکنٹرول لائن کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔۔
ایک اور تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دفاتر کی آلودہ اور غیرمعیاری فضا سے وہاں کام کرنے والے افراد کی دماغی صلاحیت پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ان کی دماغی اور ذہنی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پی ایم 2.5 کی غیرمعمولی بڑھی ہوئی مقدار ذہانت اور دماغی ٹیسٹ میں ان کی درستگی کو متاثرکرتی ہے اور اس کا اثر دفاتر کی کارکردگی پر بھی ہوتا ہے۔ تحقیق کی روشنی میں کہا گیا ہے کہ دفاتر کی اندرونی ہوا کا معیار بہتر بنانا بہت ضروری ہے تاکہ تازہ ہوا کی آمدورفت جاری رہے۔ہارورڈ ٹی ایچ چین اسکول برائے عوامی صحت نے پہلی مرتبہ دفاتر اور اداروں کی فضائی کیفیات کے درمیانی تعلقات دریافت کیا ہے۔ اس بڑے مطالعے میں کئی ممالک نے حصہ لیا ہے۔ دفاترمیں ہوا کی آمدورفت اور معلق ذرات کے درمیان تعلق سے انکشاف ہوا ہے کہ وہ کارکنوں کی دماغی صلاحیت کو متاثر کررہے ہیں جس کی تصدیق کئی مروجہ ٹیسٹ سے بھی ہوئی ہے۔اس سے قبل جو بھی تحقیق ہوئی ہے اس میں باہر کی فضائی آلودگی اور دماغی صلاحیت پر ان کے اثرات پر غور ہوا ہے لیکن بند کمروں میں ہوا پر کسی نے غور نہیں کیا تھا۔ اس تحقیق میں 300 افراد کو شامل کرکے ایک سال تک تحقیق کی گئی اور دنیا کے چھ ممالک میں 40 عمارات سے ڈیٹا لیا گیا۔ہردفتر میں کئی اقسام کے سینسر لگائے جو اسی وقت پی ایم 2.5، کاربن ڈائی آکسائیڈ، درجہ حرارت اور نمی وغیرہ نوٹ کرتے رہے تھے۔ جیسے ہی دفاتر میں پی ایم 2.5 نامی ذرات اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح ایک خاص پیمانے سے اوپر پہنچی تو اسمارٹ فون پر ایک پیغام پہنچا جس میں دماغی صلاحیت والے ایک چھوٹے سے گیم یا ٹیسٹ پورا کرنے کو کہا گیا۔عام طور پر جب جب دفاتر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پی ایم 2.5 کی مقدار بڑھی اکثر شرکا نے ٹیسٹ میں اپنا ردِ عمل دیر میں درج کرایا۔ ان میں الفاظ کو پہچاننے کا ایک ٹیسٹ تھا جس میں رنگوں کے وجہ سے الفاظ کو پہچاننے کے لیے غور کرنا پڑتا تھا۔ یہ ٹیسٹ اس وقت خراب واقع ہوا جب دفتر کے ماحول میں یہ دو آلودگیوں کا عروج تھا۔ سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کووڈ وبا کے تناظر میں بھی گھروں اور دفاتر میں تازہ ہوا کی آمدورفت کی بہت ضروری ہے۔ اگر ادارے اپنے ملازموں کی صلاحیت بڑھانا چاہتے ہیں تو انہیں چھت کے نیچے ہوا کا معیار بڑھانا ہوگا۔
ہمارے پیارے دوست علیل جبران بڑھاپے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ۔۔بڑھاپا پوچھ کر نہیں آیا اور نہ ہی دھکے دینے سے جاتا ہے۔ہمارے یہاں یہ مرض اور مغرب میں اسے زندگی انجوائے کرنے کا اصل وقت سمجھا جاتا ہے۔۔بڑھاپے میں دانت جانے اور دانائی آنے لگتی ہے۔اولاد اور اعضا جواب دینے لگتے ہیں۔بیوی اور یادداشت کا ساتھ کم ہونے لگتا ہے۔ بڑھاپے کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ حسین لڑکیاں ،انکل کہہ کر پکارنے لگتی ہیں۔ انسان دوچیزیں مشکل سے قبول کرتا ہے، اپنا جرم اور بڑھاپا۔۔جوانی صرف اپنے لیے ہوتی ہے اور بڑھاپا ڈاکٹروں کے لیے۔ جب بار بار اللہ، ڈاکٹر اور بیوی یاد آنے لگیں تو سمجھ لیں آپ بوڑھے ہوچکے ہیں۔بڑھاپے کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ آپ بے ضرر ہوچکے ہیں اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ۔۔یہ تو آپ نے سینکڑوں بار سنا ہوگا، لیکن بوڑھا ہونا اور بوڑھا دکھائی دینا دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ ہر بوڑھے میں ایک بچہ چھپاہوتا ہے اور ہر بچے میں ایک بوڑھا چھپا ہوتا ہے بشرطیکہ وہ لمبی عمر پائے۔۔ بوڑھا ہونا آسان کام نہیں، اس کے لیے برسوں ریاضت ہوتی ہے۔بڑھاپے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بسوں میں بوڑھے کو دیکھ کر سب سیٹ چھوڑ دیتے ہیں ، سوائے سیاست دان کے۔۔ اچھا خاندان اور اچھی حکومت ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہے۔ بوڑھوں کو بندی اورخاندانی منصوبہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی،مگر نیت اور نظر پھر بھی خراب رہتی ہے۔دنیا میں سب سے آسان کام نانا،نانی، دادا ، دادی بننا ہے، کیوں کہ اس میں آپ کی کوئی کوشش نہیں ہوتی،جو کچھ کرنا ہو، آپ کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔انسان کو دوبار رشتوں کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے، بیوی آنے کے بعد یا پھر بڑھاپاآنے کے بعد۔۔بچپن میں ٹیسٹ دیا کرتے تھے یا ٹیسٹ دیکھا کرتے تھے ،بڑھاپے میں ڈاکٹر ٹیسٹ لکھ کر دیتا ہے۔امریکی سیانوں کا خیال ہے کہ بوڑھے کا شادی کرنا ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی ان پڑھ اخبار خریدنا شروع کردے۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔محترم واصف علی واصف فرماتے ہیں۔۔جوانسان حال پر مطمئن نہیں، وہ مستقبل پر بھی نہ ہوگا۔ اطمینان حالات کا نام نہیں، یہ روح کی ایک حالت ہے۔مطمئن آدمی نہ شکایت کرتا ہے نہ تقاضا۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔