وجود

... loading ...

وجود

جھوٹی خبریں

بدھ 11 مئی 2022 جھوٹی خبریں

دوستو،جب صرف پی ٹی وی تھا، تب بھی ہمارے علاوہ پوری دنیا کو معلوم تھا کہ ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے۔ ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بوڑھے افراد نوجوانوں کے مقابلے میں جھوٹی خبروں پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔(اسی لیے ہمیں اپنا بچپن یاد ہے کہ ہمارے بزرگ کیوں ہمیشہ بی بی سی کی خبروں پر یقین کرجاتے تھے، کیوں کہ وہ بزرگ ہوتے تھے، سائنس نے آج ثابت کردیا)۔محققین نے بتایا کہ جھوٹی خبروں کا شکار ہونے کے جسمانی، جذباتی اور مالی نتائج بھی ہوتے ہیں خاص طور پر ان عمر رسیدہ افراد کے لیے جن کے پاس زندگی بھر کی جمع پونجی ہو اور انہیں سنگین طبی مسائل کا سامنا ہو۔یونیورسٹی آف فلوریڈا میں پوسٹ ڈاکٹریٹ نفسیاتی ماہر اور تحقیق کے سرکردہ مصنف، ڈیڈم پیلیوینگلو نے کہا کہ تحقیق کا مقصد سچی اور جھوٹی خبروں کا تعین کرنے میں عمر کے فرق کا پتہ لگانا تھا۔انہوں نے یونیورسٹی کی نیوز ریلیز میں کہا کہ ہم خاص طور پر یہ اس لیے جاننا چاہتے تھے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ زیادہ تر لوگ اپنی علمی صلاحیتوں میں کچھ کمی کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ محصول معلومات پر کارروائی کرنے کی دماغی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔مذکورہ بالا مطالعہ Experimental Psychology جرنل میں شائع ہوا ہے اور تحقیق مئی اور اکتوبر 2020 کے درمیان کی گئی تھی۔
دوستو،بوڑھاپا ویسے تو ایک زحمت ہی ہے، بندہ کسی کام کا نہیں رہتا، لیکن لگتا ہے امریکا میں بوڑھا ہونے کا مطلب ’’لکی‘‘ ہونا ہے۔۔اگر آپ بوڑھے ہیں اور امریکی ہیں تو پھر سمجھ جائیں کہ۔۔بوڑھے تو کام کے ہوتے ہیں۔۔امریکا وقت کی سپر پاور ہے۔وہ دنیا پر حکومت کررہے ہیں۔ان کے سکے کی قدر ہماری معیشت کے اتار چڑھاؤ کو زیروزبر کردیتی ہے۔جو دنیا کی تہذیب بدل رہے ہیں۔گلوبل ورلڈ کے خوابوں میں رنگ بھر رہے ہیں،لیکن بوڑھوں کی قدرکررہے ہیں۔۔ستتر سالہ جو بائیڈن خوش قسمتی سے وہ ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں سماج بوڑھا ہونے نہیں دیتا۔۔جوبائیڈن اگر ہمارے معاشرے میں رہ رہا ہوتا تو کبھی صدارت کے الیکشن کا سوچتا بھی نہیں۔۔بچے اسے سمجھاتے،باباجانی، آپ کے پہلے جوڑوں کا درد ہے،کن چکروں میں پڑرہے ہیں، گھر میں رہیں، ٹی وی دیکھیں، اخبار پڑھیں۔۔دوائیاں وقت پر کھالیا کریں۔۔اور ہاں اگلے ہفتے ڈاکٹر کے پاس جاناہے، آپ کا ماہانہ چیک اپ ہے۔۔۔ہم بوڑھوں سے زیادہ ان کے سرہانے رکھی ادویات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں کہ ان میں کوئی کمی نہ آجائے۔۔اور یہاں ریٹائرڈ بندہ خود کو دھرتی پہ بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔۔آپ خود سوچیں، امریکا میں صدارت بوڑھے کو مل گئی اور یہاں ہم اپنے خاندان کی چھوٹی سی ریاست میں بزرگوں کو ’’گھس بیٹھیا‘‘اور ان کی رائے کوکنٹرول لائن کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔۔
ایک اور تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دفاتر کی آلودہ اور غیرمعیاری فضا سے وہاں کام کرنے والے افراد کی دماغی صلاحیت پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ان کی دماغی اور ذہنی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پی ایم 2.5 کی غیرمعمولی بڑھی ہوئی مقدار ذہانت اور دماغی ٹیسٹ میں ان کی درستگی کو متاثرکرتی ہے اور اس کا اثر دفاتر کی کارکردگی پر بھی ہوتا ہے۔ تحقیق کی روشنی میں کہا گیا ہے کہ دفاتر کی اندرونی ہوا کا معیار بہتر بنانا بہت ضروری ہے تاکہ تازہ ہوا کی آمدورفت جاری رہے۔ہارورڈ ٹی ایچ چین اسکول برائے عوامی صحت نے پہلی مرتبہ دفاتر اور اداروں کی فضائی کیفیات کے درمیانی تعلقات دریافت کیا ہے۔ اس بڑے مطالعے میں کئی ممالک نے حصہ لیا ہے۔ دفاترمیں ہوا کی آمدورفت اور معلق ذرات کے درمیان تعلق سے انکشاف ہوا ہے کہ وہ کارکنوں کی دماغی صلاحیت کو متاثر کررہے ہیں جس کی تصدیق کئی مروجہ ٹیسٹ سے بھی ہوئی ہے۔اس سے قبل جو بھی تحقیق ہوئی ہے اس میں باہر کی فضائی آلودگی اور دماغی صلاحیت پر ان کے اثرات پر غور ہوا ہے لیکن بند کمروں میں ہوا پر کسی نے غور نہیں کیا تھا۔ اس تحقیق میں 300 افراد کو شامل کرکے ایک سال تک تحقیق کی گئی اور دنیا کے چھ ممالک میں 40 عمارات سے ڈیٹا لیا گیا۔ہردفتر میں کئی اقسام کے سینسر لگائے جو اسی وقت پی ایم 2.5، کاربن ڈائی آکسائیڈ، درجہ حرارت اور نمی وغیرہ نوٹ کرتے رہے تھے۔ جیسے ہی دفاتر میں پی ایم 2.5 نامی ذرات اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح ایک خاص پیمانے سے اوپر پہنچی تو اسمارٹ فون پر ایک پیغام پہنچا جس میں دماغی صلاحیت والے ایک چھوٹے سے گیم یا ٹیسٹ پورا کرنے کو کہا گیا۔عام طور پر جب جب دفاتر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پی ایم 2.5 کی مقدار بڑھی اکثر شرکا نے ٹیسٹ میں اپنا ردِ عمل دیر میں درج کرایا۔ ان میں الفاظ کو پہچاننے کا ایک ٹیسٹ تھا جس میں رنگوں کے وجہ سے الفاظ کو پہچاننے کے لیے غور کرنا پڑتا تھا۔ یہ ٹیسٹ اس وقت خراب واقع ہوا جب دفتر کے ماحول میں یہ دو آلودگیوں کا عروج تھا۔ سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کووڈ وبا کے تناظر میں بھی گھروں اور دفاتر میں تازہ ہوا کی آمدورفت کی بہت ضروری ہے۔ اگر ادارے اپنے ملازموں کی صلاحیت بڑھانا چاہتے ہیں تو انہیں چھت کے نیچے ہوا کا معیار بڑھانا ہوگا۔
ہمارے پیارے دوست علیل جبران بڑھاپے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ۔۔بڑھاپا پوچھ کر نہیں آیا اور نہ ہی دھکے دینے سے جاتا ہے۔ہمارے یہاں یہ مرض اور مغرب میں اسے زندگی انجوائے کرنے کا اصل وقت سمجھا جاتا ہے۔۔بڑھاپے میں دانت جانے اور دانائی آنے لگتی ہے۔اولاد اور اعضا جواب دینے لگتے ہیں۔بیوی اور یادداشت کا ساتھ کم ہونے لگتا ہے۔ بڑھاپے کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ حسین لڑکیاں ،انکل کہہ کر پکارنے لگتی ہیں۔ انسان دوچیزیں مشکل سے قبول کرتا ہے، اپنا جرم اور بڑھاپا۔۔جوانی صرف اپنے لیے ہوتی ہے اور بڑھاپا ڈاکٹروں کے لیے۔ جب بار بار اللہ، ڈاکٹر اور بیوی یاد آنے لگیں تو سمجھ لیں آپ بوڑھے ہوچکے ہیں۔بڑھاپے کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ آپ بے ضرر ہوچکے ہیں اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ۔۔یہ تو آپ نے سینکڑوں بار سنا ہوگا، لیکن بوڑھا ہونا اور بوڑھا دکھائی دینا دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ ہر بوڑھے میں ایک بچہ چھپاہوتا ہے اور ہر بچے میں ایک بوڑھا چھپا ہوتا ہے بشرطیکہ وہ لمبی عمر پائے۔۔ بوڑھا ہونا آسان کام نہیں، اس کے لیے برسوں ریاضت ہوتی ہے۔بڑھاپے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بسوں میں بوڑھے کو دیکھ کر سب سیٹ چھوڑ دیتے ہیں ، سوائے سیاست دان کے۔۔ اچھا خاندان اور اچھی حکومت ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہے۔ بوڑھوں کو بندی اورخاندانی منصوبہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی،مگر نیت اور نظر پھر بھی خراب رہتی ہے۔دنیا میں سب سے آسان کام نانا،نانی، دادا ، دادی بننا ہے، کیوں کہ اس میں آپ کی کوئی کوشش نہیں ہوتی،جو کچھ کرنا ہو، آپ کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔انسان کو دوبار رشتوں کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے، بیوی آنے کے بعد یا پھر بڑھاپاآنے کے بعد۔۔بچپن میں ٹیسٹ دیا کرتے تھے یا ٹیسٹ دیکھا کرتے تھے ،بڑھاپے میں ڈاکٹر ٹیسٹ لکھ کر دیتا ہے۔امریکی سیانوں کا خیال ہے کہ بوڑھے کا شادی کرنا ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی ان پڑھ اخبار خریدنا شروع کردے۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔محترم واصف علی واصف فرماتے ہیں۔۔جوانسان حال پر مطمئن نہیں، وہ مستقبل پر بھی نہ ہوگا۔ اطمینان حالات کا نام نہیں، یہ روح کی ایک حالت ہے۔مطمئن آدمی نہ شکایت کرتا ہے نہ تقاضا۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر