... loading ...
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بظاہر دیکھ کرکسی کے بارے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ کیسا شخص ہے بلکہ ساتھ چلنے یا پھر کام پڑنے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ کِس قماش کا ہے مگر چوہدری زاھدرضا بھدرپر یہ کُلیہ صادق نہیں آتا۔ اُنھیں ملتے ہی صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ دوستی میں خودتونقصان تو اُٹھا سکتا ہے لیکن کسی دھوکہ نہیں دے سکتا جیسے چہرے پر ہی لکھا ہو کہ یہ مثالی میزبان اور خداترس شخصیت ہیںاِ ن میں کسی کو دھوکہ دینے کی صلاحیت ہے ہی نہیں یہ درست ہے کہ بحثیت انسان وہ بھی بشری خامیوں سے پاک نہیں مگر اُن میں جو ایک آدھ خامی ہے وہ اُن کی اپنی ذات تک محدود ہے۔ مخلوقِ خداکااِس میں کوئی نقصان نہیں ۔ میراپہلا تعارف ہوا تو میں نے چوہدری سجاد وڑائچ سے بے ساختہ کہا کہ یہ ایک صاف گو انسان ہیں بشری خامیوں کے باوجود اِن کے چہرے پر لکھا ہے کہ یہ نقصان اُٹھا کر بھی دوستی برقرار رکھنے کے قائل ہیں اِس لیے اِن سے تعلق بناتے ہوئے یقین رکھیں کہ یہ کبھی کسی موڑ پر آپ کو دھوکہ نہیں دیں گے۔
چوہدری زاھد رضا بھدر ایک ملنسار اور مہمان نواز شخص ہیں ۔ اِن کا شمار بیلجیئم کے بڑے صاحب ثروت لوگوں میں ہوتا ہے طویل محنت و ریاضت کااُنھیں یہ انعام ملاہے کہ آج اپنااچھاخاصا ایک وسیع کاروبار ہے۔ وہ ایک قانون پسند اور پُرامن شہری ہیں ۔ کہیں بے جا مداخلت کی بجائے صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہیں لیکن اِتنے مہمان نوازہیں کہ پاکستان سے کوئی مہمان آئے اور چوہد ری زاھد رضا بھدر مہمان نوازی نہ کریں ایسا ممکن ہی نہیں ۔ سُر سنگیت سے خاص اُنس رکھتے ، فنکار کی قدر کرتے اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کے بے لوث خدمت گزار ہیں۔ اِن خوبیوں کے تذکرے کا مقصدیہ ہے کہ مہمان نوازی،خداترسی اور ملنساری نے اُنھیں بیلجیئم کی ہردلعزیز شخصیت بنا دیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ بیلجیئم تحریکِ انصاف کے عہدیداروں کے چنائو کا موقع آیا تو چوہدری زاھد رضا بھدر نے بھی صدر کے انتخاب میں حصہ لینے کا عندیہ دیا۔ یہ سُن کر کوئی بھی اُن کے مقابلے پر نہ آیا۔ اپنی مہمان نوازی اور ملنساری کی وجہ سے چوہدری زاھد رضابھدر بلا مقابلہ صدر بن گئے۔ انھوں نے صدر بن کر کسی پر حکم نہیں چلایا بلکہ تمام فیصلے مشاورت سے کرنے کی بناپر صرف دوست احباب ہی نہیں کارکنوں میں بھی عزت و احترام حاصل کیا۔ عہدے سے مفاد حاصل کرنے سے زیادہ دیارِغیر میں جماعت کو منظم و فعال کرنے کے لیے محنت و لگن سے کام کیاجب بھی کوئی جماعت کا اہم رہنما برسلز دورے پر آیا تو چوہدری زاھد رضا بھدر مہمان نوازی کے لیے پیش پیش رہے مگرکبھی ستائش و تحسین کی تمنا نہیں کی جو اُن کی اپنی جماعت سے نیک نیتی ہے۔ عاجزی و انکساری کے پیکر اِتنے کہ بھولے سے بھی کسی کارکن پر رعب جھاڑنے کی کبھی کوشش تک نہیں کی ایک عزت دار کی طرح سب سے عزت سے پیش آتے ہیں۔
یہ جو ہمارے ہاں تصور پایا جاتا ہے کہ بیرونِ ملک رہنے والے بغیر کچھ کیے شب وروز دولت اکٹھی کر لیتے ہیں اِس میں رتی بھر صداقت نہیںآپ کسی کامیاب شخص سے زندگی کے اوراق پلٹنے کی فرمائش کریں زندگی رعنائیوں کی بجائے تمام تر سختیوں اور تلخیوں سے بھری محسوس ہوگی ۔ ہر صاحبِ ثروت اور صاحبِ حیثیت کو اللہ نے محنت،ریاضت اوردیانت کا انعام دیا ہے محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے تو پھرکوئی محنت اور کوشش کرے تو رحیم ،کریم اور رازق ہستی کی طرف سے برکت شاملِ حال ہوجاتی ہے جس سے ترقی کی منازل آسان ہوتی چلی جاتی ہیں۔ چوہدری زاھدرضا بھدر نے بھی یورپ آکر ابتدائی ایام بہت سخت گزارے۔ انھوں نے پاکستان سے اِس لیے رختِ سفر باندھا کہ والد چوہدری ریاست علی ڈویژنل انجینئر ٹیلی فون ہیں میں اگر کسی کمتر عہدے پر کام کروں گا تو لوگ مزاق اُڑائیں گے کہ اِ تنے بڑے آفیسر کا بیٹا دیکھو کیا کام کر رہا ہے ۔ والد تو تھے ہی دیانتدار اور کام سے کام رکھنے والے،انھوں نے بھی صاف بتا دیا زندگی بھرمیں نے دیانتداری سے کام کیا ہے۔ اب آخری ایام میں عہدے سے تمھیںکوئی ناجائز فائدہ نہیں دے سکتا ،مجھ سے کسی بھی غلط کام کی امید مت رکھنا بلکہ اگر حیثیت اور مقام بنانے کی تمنا ہے تو اپنی محنت کے بل بوتے پرہی مقام بنانا ہوگا۔ والد کی بات سن کراُنھوں نے بس اتنی فرمائش کی کہ مجھے یورپ بھیج دیں ۔ اب میں محنت و قابلیت سے ہی مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی کوشش کروں گا والد نے سفر اور ویزے کی راہیں ہموار کر دیں اور وہ جرمنی پہنچ گئے۔
میں نے ابتدا میں ہی ذکر کیا ہے کہ کامیابی محنت و ریاضت کے بغیر نہیں ملتی ہر کامیاب شخص کی کامیابی کا یہی رازہے شروع میںسب کومختلف نوعیت کی تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے جو مایوس ہونے کی بجائے ثابت قدم رہتا ہے ، وہ اپنی منزل حاصل کر لیتا ہے چوہدری زاھدرضا بھدر کو بھی ابتدا میں تکالیف کا سامنا کرناپڑا۔ سب سے پہلا دھچکا یہ لگا کہ جہاں وہ ٹھہرے تھے ایک دن میزبان نے عزیز داری کی پرواہ کیے بغیر صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ روز روز نہانے کی عیاشی چھوڑوہفتے میں ایک دو دن بھی نہانا کافی ہے۔ ناز و نعم میں پرورش پانے والے نوجوان کو یہ سن کر شاک لگا اور پہلی بار احسا س ہوا کہ عملی زندگی آسان نہیں سخت تکلیف دہ ہے اوریہ کہ تیرہویں جماعت میں پڑھائی چھوڑ کر یورپ آنے کا غلط فیصلہ کیا ہے مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ انھوں نے غلط فیصلے پر پچھتانے اور مایوس ہوکر واپس لوٹ جانے کی بجائے اپنے رحیم و کریم مالک سے صبرطلب کیا جس کے بعد سکون سا آگیا اور انھوں نے مشکلات بتاکر گھر والوں کو پریشان کرنے کی بجائے دل لگاکرمحنت کی۔ شب وروز ایک مشین کی طرح کام کیا خودتنگ دستی میں گزارا کر لیا لیکن مدد کے لیے کسی کا پھیلایا دامن خالی نہ لوٹایا۔ کچھ دوست احباب نے اُن کی رحمدلی ،نرمی اور مدد کی خوبی سے ناجائزفائدہ بھی اُٹھایا مگر انھوں نے رویہ تبدیل نہ کیا کچھ عرصہ فرانس رہے پھر بیلجیئم آگئے۔ یہاں اللہ نے اتنا کرم کیا کہ آج دولت ،عزت اور شہرت سمیت کسی چیز کی کمی نہیں رہی ،جب اللہ مہربان ہو تو بگڑے کام بھی درست ہوجاتے ہیں ۔ برسلز میں انھوں نے کسی سے اُدھار لینا تھا ،اُس نے ادائیگی کی بجائے ایک ناکام کاروبار اُن کے حوالے کر دیا لیکن اللہ نے نیک نیتی کا یہ صلہ دیا کہ ایک ناکام کاروبارسے بھی توقع سے بڑھ کر مالی فائدہ ملا ،بے شک مخلوقِ خدا سے پیار کرنے والے کو وہ مالک ارض و سماکبھی رنجیدہ نہیں کر تا۔مثالی میزبان اورخداترس شخصیت چوہدری زاہد رضابھدر برسلز کے ایک ایسے بے لوث خدمت گارہیں جو پاکستانی کمیونٹی کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔