... loading ...
ملک کی مضبوطی طاقتور فوج کے بغیر ممکن نہیںلیکن مضبوط معیشت مضبوطی کے ساتھ خوشحالی کی ضامن ہے تقسیم ہند کے ساتھ ہی مشرقی ہمسائے کی سازشوں نے پاکستان کو مضبوط فوج تیارکرنے کا احساس دلایا لیکن جتنا دھیان دفاع پر دیاویسی توجہ معیشت کو نہیں دفاع کے ساتھ معیشت پر بھی توجہ دی جاتی توزیادہ بہتر ہوتا ملی ابتدامیں کئی دفاعی معاہدوں سیٹواورسینٹو میں شمولیت سے ہتھیاروں کا حصول تو ممکن ہوا مگرعام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے معیشت بہتر بنانے کا اہم کام نظر اندازکر دیا گیا اسی عدم توجہی سے سقوطِ ڈھاکہ کا صدمہ برداشت کرناپڑا معاشی غیر ہمواری سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی اسی ناانصافی نے بنگالیوں کو علیحدگی کی روش دکھائی مگر چین جو ایک ایسا بڑا ملک ہے جہاںمعاشرتی تقسیم کے بے پناہ مواقع ہونے کے باوجودمضبوط معیشت نے ایسی کسی تقسیم کو ملکی وحدت کے لیے خطرہ نہیں بننے دیا بلکہ آج جب ساری دنیاکو کساد بازاری کا سامنا ہے چین نے گزشتہ ایک دہائی میں نہ صرف غربت کا شکار نصف آبادی کو دیگر خوشحال علاقوں کے ہم پلہ لاکھڑاکیا ہے بلکہ دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کے زریعے اپنا عالمی کردار بھی بہتر بنارہاہے مگر پاکستان 75 برس کا ہوچکا پھر بھی معیشت کو خطرات کا سامنا ہے بجٹ خسارہ بڑھنے کے ساتھ قرضوں کے حجم میں خوفناک حدتک اضافہ ہو چکا ہے لیکن حقیقی معاشی پالیسیاں بنانے کی بجائے حکمرانوں کے پیشِ نظرصرف انتخاب میں کامیابی سب سے اہم ہے معاشی بدحالی میں حکومتوں کی تبدیلی کا بھی بڑا عمل دخل ہے اسی بناپر اقتدار سنبھالتے ہی ہر حکمران عوامی ریلیف کے نام پر چند ایک اشیا پر سبسڈی دے کر عوام کے دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے سبسڈی کے لیے بیرونِ ملک سے قرضے تو لیے جانے لگے ہیںلیکن معیشت کی بحالی پر پھربھی کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔
دفاع کی طرح معیشت بھی فوری توجہ کی طالب ہے جب خارجہ پالیسی کے توسط سے عیاشی کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں لیکن ہمارامائنڈ سیٹ ابھی تک برقرار ہے جسے فوری بدلنے کی ضرورت ہے اسی کی دہائی میں افغانستان پر روسی حملے کے خلاف ہمیں خدمات فراہم کرنے کے عوض ہتھیاراورکچھ مالی مدد حاصل ہوئی اسی دوران پاکستان نے جوہری صلاحیت بھی حاصل کی لیکن امریکہ اور مغربی ممالک کی مہربانیوں کا معیشت سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے خاطرخواہ فائدہ نہ اُٹھایا جا سکا اگر پاکستان دفاع کے ساتھ معاشی بحالی پر بھی توجہ دیتا توآج حالات یوں دگرگوں نہ ہوتے توانائی کے حصول پر ملکی خزانے کا کباڑہ نہ ہورہا ہوتا نیز مسلہ کشمیرکے حل کے حوالے سے بھی کچھ پیش رفت ہو چکی ہوتی اصل میں ہماری قیادت نے مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی ساری توجہ امریکی فرمائش پرروس کے خلاف لڑائی پر رہی لیکن جس کی فرمائشیں پوری کرتے جانی و مالی نقصان اُٹھایا گیا اور اپنے لیے خارجی مسائل بڑھائے گئے اسی نے روس توڑنے کا مطلب پورا ہونے کے بعد نہ صرف معاشی مسائل کے بھنور میں تنہا چھوڑ دیابلکہ دفاعی امداد روکنے کے ساتھ فوجی تربیت کا سلسلہ بھی روک دیا اب چاہیے تو یہ تھا کہ اِس سے سبق حاصل کرتے مگر امریکہ کو خوش کرنے اور دوبارہ چہیتا بننے کے منصوبے بنانے لگے ۔
پرویز مشرف دور میں ناراض امریکہ کو ایک بار پھر ہماری ضرورت محسوس ہوئی مگر اِس دفعہ اُس نے محض ایک دھمکی سے ہی اپنامقصدحاصل کرلیا ہوائی اڈے دینے اور ڈرون حملوں سے نقصان اُٹھانے کے باوجود ہم اسی میں خوش رہے کہ امریکہ ہم سے خوش ہے اسی خوشی میں معاشی مسائل گھمبیر صورت اختیار کرتے گئے شوکت عزیز جیسا ماہر اپنی صلاحتیں معیشت کی بحالی کی بجائے پرویز مشرف کو خوش رکھنے کے لیے ہی استعمال کرتا رہا مگرافغانستان سے رُخصت ہونے سے قبل امریکہ اور نیٹو اتحادنے ہماری مضبوط فوج کی صلاحیت و استعداد کم کرنے پر خاص توجہ دی فوج اور عوام میں خیلج بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے اسی بناپر آج حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ معاشی ناہمواری کے ساتھ دفاعی صلاحیت میں کمی آرہی ہے فوجی قوت میں اضافہ کرنے کے ساتھ معیشت کو بحال اورمضبوط بنانے کے لیے قرضوں کے حجم میں فوری کمی لانااشد ضروری ہے پہلے ہی پچھتر برس ضائع کر چکے اب معیشت کی بحالی کاکام ہنگامی بنیادوںپر کرنے کی ضرورت ہے۔
ایوب خان دور ِ اقتدارمیں ملکی معیشت بہتر بنانے پر کچھ کام ہوالیکن ضیاالحق اور پرویز مشرف دورمیں آنے والی ڈالروں کی ریل پیل کو معاشی خوشحالی نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ ڈالر امداداور قرضوں کی صورت تھے معاشی خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ درآمدات کی بجائے برآمدات میں اضافہ کیا جائے برآمدات کامال تیارکرنے کے لیے نئے کارخانے لگائے جائیں جس کے لیے ہُنر مندافرادی تیار کرنے پر توجہ دی جائے کیونکہ صنعتیں رواں رکھنے میں ہُنرمند افرادی قوت کا اہم کردار ہے آئی ٹی کے شعبے پر توجہ دینے سے برآمدات میں قدرے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اسی طرح زراعت پر توجہ دیکر خوردنی تیل،گندم اورچینی درآمدکرنے پر اُٹھنے والے اخراجات کم کیے جاسکتے ہیں خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ترسیلاتِ زراورٹیکس وصولیوں میں بہتری کا رجحان ہے جسے پُرتعیش درآمدی اشیاکی نظر کرنے کی بجائے مقامی پیداوارمیں اضافہ کرنے پر خرچ کیا جائے دنیا میں طاقت کے میدان اب صرف فوجی نہیں رہے معاشی بھی ہیں دفاعی لحاظ سے کوئی طاقتور ملک اگر معاشی میدان میںکمزورہوتو اُسے عالمی سطح پر زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی دور کیوں جائیں اپنے ملک کے حالات ہی دیکھ لیں ہماراملک ایک جوہری طاقت ہے پھر بھی جوبھی اقتدار میں آتا ہے ملک کی معاشی ناہمورای دورکرنے کے لیے امیر ممالک سے امداد لینا پڑتی ہے اور قائل کرنے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن اِس حوالے سے بھی اب ہمارے پاس مواقع کم ہونے لگے ہیں سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اورچین کے سواکوئی اور ایسا ملک نہیں جو ہماری معاشی ضروریات پوری کرنے پر آمادہ ہو عمران خان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شہباز شریف بھی دوممالک سے مالی مدد کی یقین دہانیاں لے چکے اب چین کا دورہ کسی وقت متوقع ہے لیکن یہ سب عارضی سہارے ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کو مستقل بنیادوں پراستوار کیا جائے جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے موجودہ بیوروکریسی میں معاشی بحالی کی صلاحیت ہی نہیں اِس کے لیے کچھ نیا کرنے کے ساتھ معاشی منصوبہ بندی کرناہوگی۔
خوش قسمتی سے بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں چین کے لیے پاکستان بہت اہم ہے اُسے بھی مغربی علاقوں کو سامان کی ترسیل اورتجارتی گزرگاہ بنانے کے لیے گوادرکی صورت میں بندرگاہ دستیاب ہے اسی لیے سی پیک کی سرمایہ کاری سے دونوں ملک بہت قریب آچکے ہیں لیکن منصوبوں پر کام کی رفتار بہت سُست ہے دہشت گردوں کے سرپرست بیرونی عناصر کی شہ پر ہونے والے حملوں کی بناپر ہزاروں چینی ورکر واپس اپنے ملک لوٹ گئے ہیں جن کا اعتماد بحال کرنانہایت ضروری ہے تاکہ وہ واپس آکر اپنی زمہ داریاں پوری کریں خوش قسمتی سے سی پیک معاشی کے ساتھ اہم دفاعی منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے ہماری دگرگوں معیشت بحال ہو سکتی ہے اچھی بات یہ ہے کہ تمام تر مسائل کے باوجود چین کی پاکستان میں دلچسپی کم نہیں ہوئی سی پیک کے تحت کئی چینی کمپنیاں مزید 28 ارب ڈالرکے منصوبے شروع کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں جن میں 19ارب ڈالر کی لاگت سے گوادرآئل ریفائنری کے علاوہ سیمنٹ پلانٹ،بجلی کا سامان بنانے ،ملک میںفائبرآپٹک کا نیٹ ورک قائم کرنے،موبائل فون بنانے،لوہے ،دھات اور کاغذ کودوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے کارخانے لگانے جیسے 16منصوبے زیرِ غور ہیں یہ سویلین اور عسکری قیادت کی ذمہ داری ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے نہ صرف سازگار ماحول دیا جائے بلکہ منصوبوں کوبدعنوانی کی نظر ہونے سے بھی بچایا جائے یادرہے چین کا تعاون معیشت کی مستقل بحالی کے لیے اہم ہے اِس کے سوا ہمارے پاس مزید آپشن نہیں یہ موقع کھونا نہیں چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔