... loading ...
اقتدارکی تبدیلی کے باوجود سیاست میںٹھہرائو آنے کی بجائے نہ صرف سیاسی حدت میں اضافہ ہوتاجارہاہے بلکہ اب معاشرے میں سیاسی کے ساتھ مزہبی تقسیم کا اندیشہ بھی حقیقت کاروپ دھارنے لگا ہے جب تک سیاسی قیادت اِس ز ہرناکی کوبڑھانے کی بجائے ملک وقوم کے وسیع تر مفاد کا خیال نہیں کرے گی تب تک نہ تو سیاسی حدت میں کمی آسکتی ہے اور نہ ہی معاشرے میں بڑھتی مزہبی تقسیم کا عمل رُک سکتا ہے اگر ملکی سیاسی منظر نامے پر نگاہ دوڑائی جائے تومایوسی کی بات یہ ہے کہ کوئی ایسا چہرہ نظر نہیں آتا جوغیر متنازعہ اور سب کے لیے قابلِ قبول ہو جو اِس تقسیم کی راہ مسدود کرنے میں معاون ہوآجاکر سیاسی قیادت ہی رویوں میں لچک لاکر تقسیم کی خیلج کا عمل سُست کر سکتی ہے کیونکہ تفرقہ کی شکار مزہبی قیادت سے یہ توقع نہیںجب سیاستدان بے لچک رویے اپناتے اور بات چیت کرتے ہیں تو غیر جمہوری تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی ہے اِس وقت سیاسی منظر نامے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کی کیفیت ہے جسے کسی صورت مثالی نہیں کہہ سکتے اِسے سازگاربنانے کی زمہ داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ سیاسی ومزہبی تقسیم برقرار رہنے سے ملک انتشار کا شکاراور سیاستدان کمزور ہیں ایسے ہی حالات میں غیر جمہوری قوتیں تقویت حاصل کرتی ہیں۔
مسجدِ نبوی واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے بحثیت مسلمان سب کے اِس واقعہ سے دل دکھے اور سبھی شرمسار ہیں دیارِ نبیﷺ کا ایک تقدس اور احترام ہے جس کا ہر مسلمان پابند ہے لیکن اِس آڑ میں عمران خان،شیخ رشید ،شہبازگل،راشد شفیق ،انیل مسرت،قاسم سوری سمیت 150 افراد کے خلاف جس نے بھی مقدمہ درج کرانے کی تجویز دی اور پھر جس نے حوصلہ افزائی اور تائید کرتے ہوئے اندراجِ مقدمہ کا حکم دیا ایسا کرکے اُس نے نہ تو کوئی اسلام کی خدمت کی ہے اور نہ ہی پاکستان کا بھلا کیا ہے ایک تو دیارِ بنیﷺ میں نعرے بازی سے دنیا پرہمارے سیاسی اختلافات سے آشکارہوئے دوم سب کو معلوم ہو گیا کہ ہم سیاسی تقسیم میں اِس حد تک گر چکے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے مزہب اور وطن دونوں کو نظر اندازکر نے پر بھی آمادہ ہیں سوم جو ہوا وہ غلط ہوا غلط کواب درست اور غلط ثابت کرتے ہوئے بھی دونوں طرف سے تمام حدیں پھیلانگی جا رہی ہیں ایسے اطوار کسی صورت مذہب اور ملک و ملت کے لیے سود مند نہیںاسلام آباد ہائیکورٹ نے ابتدائی حکم میں اسپیکر کو پارلیمنٹرین کو ہراساں نہ کرنے کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے مگر حکومت کاروائی کرنے کے لیے اتنی بے قرار وبے چین ہے کہ گرفتاریاں کرنے ،ریمانڈ لینے اور سزادینے کا عمل بھی شروع کر دیا ہے جس سے اخلاص کی بجائے بدنیتی کا ایساتاثربن رہاہے کہ شہبازشریف کے پا س فیصلوں کا اختیار نہیں بلکہ یہ اختیار کسی اور کے پاس ہے جواپنے لیے سیاسی میدان خالی کرانے کے لیے حکومت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیاسی اختلافِ رائے رکھنے والوں کا ناطقہ بند کرنے پر یقین رکھتے ہیں عمران خان حکومت کے لیے شیخ رشید ، فوادچوہدری ،شہزاد اکبر ،شہبازگل نے مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ کیااسی وجہ سے پی ٹی آئی وقت سے پہلے کوچہ اقتدار سے بے دخل ہوئی اگروہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادا ر بن کر سیاسی مصالحت کی کوششوں کوسبوتاژنہ کرتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے خیر سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہ کیا اور سب کو لے ڈوبے اب ویساہی کردار اداکرنے میں رانا ثنا اللہ اورمریم اورنگزیب مصروف ہیں شیدے ٹلی کی ٹلی بجانے اور عمران خان کی گرفتاری کے امکان کی بات سے رانا ثنا اللہ نے کوئی نیک نامی حاصل نہیں کی ملک کی مقبول جماعت کے سربراہ کو فتنہ کہہ کر جلد کچلنے کے عزم سے مریم نواز نے بھی ایک ا چھا اور پختہ کارسیاستدان ہونے کا ثبوت نہیں دیاجب سعودی حکومت زمہ داران کا تعین کرنے اور سزا دینے کا عمل شروع کر چکی ہے تو پاکستان میں مسائل بڑھانے کے عمل کا کوئی جواز نہیں رہتابہتر یہی ہے جتنا جلدممکن ہو وزیراعظم کسی پر تکیہ کرنے کی بجائے خود فیصلے کریں وگرنہ ایک اور سیاسی دھچکہ لگ سکتا ہے جو سیاست کے ساتھ ملکی معیشت کا کباڑہ کر سکتا ہے ۔
ملک کی مزہبی قیادت نے مثالی کردار ادا کی بجائے ہمیشہ تفرقہ بازی کوہوادے کر اپنا قد بڑھانے اوراہمیت واحترام حاصل کرنے میں دلچسپی لی ہے سیاسی منظر نامہ ہو یا مزہبی حوالے سے مولانا مودودی جیسے دین سے مخلص اب موجود نہیں اسی لیے حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جے یو آئی کے ایک وزیر نے یہاں تک جسارت کرڈالی ہے کہ اپنے دفتر میں آویزاں بانی پاکستان قائد ِ اعظم کی تصویر ڈھانپ کر مزہبی اورآزادی دونوں حوالے سے کے ایک ایسے متنازع کردار کی تصویر لگا دی جس سے ملک کی اکثریت پسند کی بجائے نفرت کرتی ہے ایسے واقعات سے موجودہ حکمرانوں کی بھی نیک نامی متاثر ہو رہی ہے مولانا فضل الرحمن تو اپنے کارندوں سے بھی چارقدم آگے چلے گئے ہیں انھوں نے جمعہ کو یومِ حُرمتِ رسولﷺ منانے کا اعلان کر دیا ہے یہ سیاسی تقسیم کو مذہب کا رنگ دینے کی سوچی سمجھی سازش ہے کیونکہ کے پی کے میں بلدیاتی انتخاب کے حالیہ مرحلے کے نتائج میں تحریکِ انصاف نے خیرہ کن کامیابی حاصل کرتے ہوئے جے یو آئی کو پچھاڑکر رکھ دیا ہے اسی وجہ سے نکتہ دان کہتے ہیں کہ جے یو آئی نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کے ساتھ اب منبر و محراب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے تاکہ جمعہ کے اجتماع سے امام خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی قیادت کو لعن و ملامت کریں مگر یہ منصوبہ اِس لیے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا کیونکہ اسلامو فوبیا کے خلاف عمران خان کی کاوشوں کادنیا اعتراف کرتی ہے انھی کاوشوں سے یو این او نے اسلاموفوبیا کے خلاف دن منانے کا فیصلہ کیا جے یو آئی کی قیادت سیاسی مقاصد کے لیے مزہب کے ستعمال سے تو شاید ہی فائدہ اُٹھا سکے کیونکہ ملک میں مولانا فضل الرحمٰن اور طاہراشرفی کے نکتہ نظر سے حمایت کرنے والوں سے زیادہ تعداد اختلاف کرنے والوں کی ہے البتہ یہ عمل معاشرے میں پہلے سے موجود مذہبی تقسیم کی خلیج کو مزیدگہراکرنے کاباعث بن جائے گا ۔
مسجدِ نبویﷺ میں جوا ہواوہ ہر حوالے سے غلط ہے دیارِ نبی ﷺ میں اُنچی آواز سے بولنا بھی جائز نہیں لیکن ایک تو یہ جو واقعہ ہوا وہ مسجد کی حدود میں نہیںبازار میں پیش آیاہے مزیدیہ کہ اے صاحبانِ فہم و دانش زرا یہ تو بتائیں کیااِس عظیم مسجد کے اندرخلیفہ وقت کا خطبہ کے دوران کپڑے کے جوڑے پر محاسبہ نہیں ہوا؟ اسی طرح حق مہر کی مقدار مقررکرنے پرایک عورت نے خلیفہ کو ٹوک کر یہ آوازانہیں کسا کہ آپ حق مہر فکس کرنے والے کون ہوتے ہیں؟نیزکیا کعبہ کے غلاف سے لپٹے منافقین کے خلاف سزائوں کے احکامات جاری نہیں ہوئے؟اسی مسجد میں منافقوں کے خلاف بلند آواز میں تقریریں بھی کی گئی تو کیا ہمارے مخصوص فکر کے مزہبی رہنما کیا حرم پاک میں لٹیروں کو گلدستے پیش کرنا اور ہار پہنانا چاہتے ہیں؟چلیں یہ سارے معاملات ایک طرف رکھ کر ایک اور سوال پوچھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ بازار میں چور چور کی صدا لگانا غلط ہے تو مسجد کے احاطے میں بلاول کے لیے زندہ باد اور بھٹو کے حق میں نعرے لگاناکیونکر جائز ہوگیا؟2019میں عمران خان کے خلاف اسی جگہ نعرے بازی ہوئی تو نعرے لگانے والوں کی نہ صرف داد و تحسین سے حوصلہ افزائی کی گئی بلکہ مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹس میں بے پایاں خوشی کا ظہار کیا پھر بھی یہی کہیں گے کہ جو ہواغلط ہواہے اور آئندہ ایسے واقعات کے تداراک کے لیے سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانا چاہیے کیونکہ سیاسی ومزہبی تقسیم بڑھاکرسیاسی مفاد کشید کرنے کاعمل انتہائی پست حرکت ہے اور جو بھی ایسا کرے گا وہ تادیر خودبھی محفوظ نہیں رہ سکتا جس کا اظہار نمازِ عید کے اجتماعات میں ن لیگ کے رہنمائوں کی خوف سے عدم شرکت سے ہوتا ہے بہتر یہی ہے کہ سیاسی تقسیم بڑھانے کے لیے مذہب کے استعمال سے گریزکیا جائے اور مولانا فضل الرحمٰن جیسے سیاسی طالع آزما کوسیاسی معاملات میں مذہبی اقدار کا مزاق اڑانے سے روکاجائے اگر پرچوں اور پکڑ دھکڑ کی سیاست جلد ترک نہ کی گئی تو مستقبل میں اِس کی زہرناکی سب کواپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔