... loading ...
عدنان عادل
چوبیس اپریل کو فرانس میں صدارتی الیکشن کا دوسرا اور آخری مرحلہ مکمل ہوگیا۔ موجودہ عہد کے نیپولین سمجھے جانے والے صدرایمانوئیل میخواںاگلی پانچ برس کی مدت کے لیے دوبارہ صدر منتخب ہوگئے ۔انہوں نے انتہائی دائیںبازو کی خاتون اُمیدوارمَرین لا پین کو سترہ فیصد زیادہ ووٹ لے کر شکست سے دوچار کیا۔ یہ خاصی برتری ہے لیکن فرانس کے سیاق و سباق میں نہیں۔ صدارتی الیکشن کے اعداد و شمار سے واضح ہے کہ فرانس کی سیاست میں نسل پرستی ‘ انتہا پسندی کے رجحانات پہلے کی نسبت بڑھ گئے ہیں۔حالانکہ یہ وہ ملک ہے جوماضی میں لبرل اور ترقی پسندنظریات کا مرکزتھا۔پانچ سال پہلے میخواںتقریباً دو گنے مارجن سے فتحیاب ہوئے تھے۔ اس مرتبہ لا پین کو گزشتہ الیکشن کی نسبت آٹھ فیصد زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ مسلمانوں ‘ مہاجرین کی کھلی دشمن اورسفید فام نسل پرست لا پین کو شکست ہوگئی لیکن ان کی پارٹی نے پہلے کسی الیکشن کے مقابلہ میں زیادہ ووٹ حاصل کیے ۔ایک کروڑ تینتیس لاکھ۔ ووٹ ڈالنے والوں کی شرح خاصی کم رہی۔منفی ووٹنگ ہوئی ۔ بعض ووٹروں نے میخواں کو صرف اس لیے ووٹ دیا کہ انتہائی دائیں بازو کی لا پین ناکام ہوجائیں۔ فرانس کی آبادی تقریبا ًپونے سات کروڑ ہے۔ تقریباً اٹھائیس فیصد یعنی ایک کروڑ سینتیس لاکھ ووٹروں نے ووٹ نہیں ڈالا۔ بائیس لاکھ افرادنے احتجاج کے طور پرکسی جماعت کے نشان پر ٹھپہ لگائے بغیر خالی بیلٹ پیپر ڈالے۔ یہ سب ووٹ لا پین کے ووٹوں کے ساتھ جمع کرلیے جائیں تو میخواں کے حاصل کردہ ووٹوں سے زیادہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ چالیس فیصد نوجوانوں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔فرانس میں نیم صدارتی‘ نیم پارلیمانی نظام رائج ہے ۔جون میںپارلیمان کے انتخابات ہوں گے۔ آثار ہیں کہ میخواں کی ’لا رپوبلیک آں ماخش ‘پارٹی ان الیکشن میں سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ دائیں اور بائیں بازو کی پرانی سیاسی جماعتیں علاقائی اور بلدیاتی سطح پر مضبوط ہیں۔ فرانس کے سینٹ میں اُن کا غلبہ ہے۔ (فرانسیسی زبان میں ’ر‘ کی آواز نہیں ہوتی اس لیے میکراں کہنا غلط ہے۔ صحیح تلفظ میخواں ہے۔ اسی طرح فرانس کو فرانسیسی ’لا فونس‘ کہتے ہیں۔ )
میخواں نے آج سے پانچ برس پہلے سنہ دو ہزار سترہ کووادی سیاست میں قدم رکھا اور فوراً کامیاب ہوگئے۔اُس وقت وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں تھے۔ ان کاپہلی بار صدر منتخب ہونا ایک حادثاتی واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ فرانس میںدائیںبازو اور بائیںبازو کی سیاست میں ایک خلا تھا جسے میخواں کی درمیانی راہ اپنانے والی نئی لبرل جماعت ’آں ماخش ‘نے پُر کردیا۔بڑے بڑے کاروباری اداروں نے ان کی مدد کی۔ اُن کی پارٹی بہت حد تک ان کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔میخواں کو ایک نیم آمرانہ قسم کا سیاستدان سمجھا جاتا ہے۔ وہ متحرک اور آگے بڑھنے کے عزم سے بھرپور لیکن خود پسند اور مغرورا نسان ہیں۔آج کے دور کا نیپولین کہہ لیں۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ میخواں نے انتہائی دائیںبازو کا مقابلہ کرنے کی خاطر اپنا موقف دائیں بازو کی جماعتوں کے قریب تر کرلیا۔ مہاجرین خاص طور سے مسلمانوں کی تنقید اور مخالفت بڑھا دی تاکہ مسلمان مخالف جذبات کو کیش کرواسکیں۔ فرانس میں یورپ کے کسی اور ملک سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔انہوں نے دائیںاور بائیں کے درمیان میں رہنے والے لبرل طبقہ (لبرل سینٹر)کو خوش کرنے کے لیے محنت کش طبقہ کے مفادات کی قربانی دی۔امیروں پر ٹیکس کی شرح کم کردی۔دیہی محنت کشوں نے ایندھن پرنئے ٹیکس کے خلاف ییلو ویسٹ (حفاظتی پیلے بنیان) کی تحریک چلائی۔ جب میخواں انتخابی مہم چلا رہے تھے تو فرانس کی کمپنیوں کے ملازمین اُجرت میں اضافہ کے لیے ہڑتال پر تھے۔ وقتی طور پر محنت کش‘ مزدور طبقہ کو راضی کرنے کی غرض سے میخواں نے انہیں ایک سو یورو کا امدادی چیک دیا اور وعدہ کیا کہ وہ ریٹائرمینٹ عمر باسٹھ سال سے بڑھا کر سڑسٹھ ( 67)کردیں گے۔تاکہ محنت کش زیادہ دیر تک برسرِ روزگار رہیں۔
امانوئیل میخواں ستائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین کو مضبوط اوردنیا کا طاقتور مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ وہ یورپی اتحاد کو امریکہ اور چین کی طرح عالمی طاقت دیکھنا چاہتے ہیں جو تزویراتی طور پر خود مختار ہو یعنی اس کا اپنے دفاع اور سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار ختم ہوجائے۔توانائی (تیل‘ گیس) کے لیے روس کی رسد پرتکیہ نہ ہو۔یورپی کمپنیوں کا منافع کمانے کو چین پر مکمل دارومدار نہ ہو۔ میخواں کی خواہش ہے کہ یورپ کا اپنا دفاعی نظام اتنا مضبوط ہو کہ اگر روس کے صدر پیوٹن یوکرین کی طرح کسی اور یورپی ملک پر حملہ آور ہوں تو یورپ امریکہ کی طرف دیکھنے کے بجائے خود اس ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اسی طرح معاشی میدان اور جدید ٹیکنالوجی کے میدانوں میں یورپ خو دکفالت کی طرف بڑھے خاص طور سے جدید ترین ٹیکنالوجی میں جیسے مائکرو چپ‘ مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم۔ لیکن اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے فرانس کو جرمنی کی شراکت چاہیے۔فرانس اور جرمنی یورپ کی دو بڑی طاقتور اقوام ہیں۔ یورپ کی سربراہی یہ دونوںممالک مل کر انجام دے سکتے ہیں۔ میخواں اگلے ماہ اپنا پہلا دورہ جرمنی کا کریں گے جہاں جرمن چانسلر اولف شولزمعتدل بائیںبازو سے تعلق رکھتے ہیں۔ شولز کا نعرہ بھی یورپی یونین کو مضبوط بنانے کا ہے۔ وہ اپنی پیش رو انگلا مرکل کی نسبت یورپی اتحادکے بارے میں زیادہ پُرجوش ہیں۔
تاہم یورپ کے عوام یورپی یونین کے حوالہ سے منقسم ہیں۔ یورپ بھر میںتنگ نظر قوم پرست ‘نسل پرست زیادہ مضبوط ہوتے جارہے ہیں جو یورپی یونین کے بڑھتے ہوئے کردار کے خلاف ہیں۔فرانس کے صدارتی الیکشن سے اسی ناراضی کا اظہار ہوتا ہے۔ یورپ کا محنت کش طبقہ سمجھتا ہے کہ یورپی یونین کے مرکزی نظام کے باعث اس کے مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔ سنہ دو ہزار آٹھ میں شدید مالی بحران اور کساد بازاری آئی تھی۔ اس کے بعد امیر وں کی دولت میں اضافہ ہوتا گیا۔ غریب زیادہ غریب ہوگئے۔ اس پر مستزاد کورونا وبا نے کم آمدن طبقہ کو مزید نقصان پہنچایا۔یورپ میںضروری اشیا کی مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ یوکرین کی جنگ کے بعد گیس ‘ ایندھن کی قیمتیں زیادہ ہوگئی ہیں۔ لوگ یورپی یونین کی خاطر قربانیاں دینے کی بجائے مہنگائی کا خاتمہ اور اپنے معاشی اور سماجی مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں تیسرے نمبر پر بائیں بازو کے امیدوار ’ژاں لُو میلاںشُو‘ تھے۔ اگر کمیونسٹ پارٹی ‘ سوشلسٹ پارٹی اور گرین پارٹی ان کی حمایت کرتیں تو وہ نسل پرست لا پین سے آگے بڑھ جاتے لیکن فرانس میں بایاں بازو تقسیم در تقسیم ہے۔ میلاں شُو نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی جماعت کو پارلیمان میں اکثریت دلوائیں تاکہ وہ وزیراعظم بن کر محنت کش طبقہ کے مفادات کا تحفظ کرسکیں۔فرانس یورپ کا اہم ملک ہے ۔یہ عالمی سرمایہ داری نظام اور مغربی سامراج کا اہم رکن ہے۔ اسلاموفوبیا کابڑا مرکز ہے۔ افریقی ممالک میں اس کا خاص اثر و رسوخ ہے۔بہت سے افریقی ممالک میں اس کی کٹھ پتلی حکوتیں قائم ہیں۔ بھارت کو جدید ترین اسلحہ کی فراہمی میں فرانس کا مرکزی کردار ہے۔ آنے والے دنوں میں یورپی ممالک کے روس ‘ چین اور امریکہ سے تعلقات کی سمت متعین کرنے میں صدر میخواں کی پالیسیاںبہت اہمیت کی حامل ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔