... loading ...
دوستو،’’شبِ قدر‘‘ فارسی لفظ ہے،جس کے معنی ہیں’’رات‘‘اور ’’قدر‘‘یا تو تقدیرسے ہے جس کے معنی مقرر کرنا،تجویز کرنا،اور تقدیر الٰہی کے ہیں،تو شب قدر کے معنی تقدیر کی رات کے ہیں،اور بقول قتادہ اس رات میں ہر آدمی کا رزق وروزی مقرر کیا جاتا ہے،عمر لکھی جاتی ہے،ہر طرح کے فیصلے لکھ کر ذمہ دار فرشتوں کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں، شبِ قدر شرف و برکت والی رات ہے، اس کو شبِ قدر اس لیے کہتے ہیں کہ اس شب میں سال بھر کے اَحکام نافذ کیے جاتے ہیں اور فرشتوں کو سال بھر کے کاموں اورخدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں نیک اعمال مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں ان کی قدر کی جاتی ہے اس لیے اس کو شبِ قدر کہتے ہیں۔
اَحادیث میں اس شب کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اس رات میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرکے عبادت کی تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے سابقہ (صغیرہ) گناہ بخش دیتا ہے۔ (بخاری،الحدیث:53)۔۔حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رمضان کا مہینہ آیا توحضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک تمہارے پاس یہ مہینہ آیا ہے اور اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،جوشخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ تمام نیکیوں سے محروم رہا اور محروم وہی رہے گا جس کی قسمت میں محرومی ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الصیام، الحدیث:4461) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ یہ رات عبادت میں گزارے اور اس رات میں کثرت سے اِستغفار کرے۔۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں عبادت کے ذوق و شوق کو بام کمال تک پہنچانے کے لیے لیلتہ القدر کو مخفی رکھا گیا۔ اگرچہ یہ رات عوام الناس کی نظروں سے پوشیدہ ہے تاہم خواص اس رات سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ بارگاہ ایزدی میں مستقل اور مسلسل حاضری اور حضوری کا شرف پانے والے اس رات کی برکتوں سے محروم نہیں رہ سکتے۔ ان کی نظر میں تو ہر وہ رات قابل قدر ہے جس میں مخلوق او خالق کے درمیان ٹوٹا ہوا رشتہ بحال ہو جائے۔ حدیث شریف میں واضح ارشاد ہے کہ (لیلتہ القدر) کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو، وہ رات پانچ طاق راتوں میں کوئی بھی ہوسکتی ہے ۔۔حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ۔۔ اللہ تعالیٰ نے لیلتہ القدر پر پردہ ڈال دیا ہے۔۔لہذا اس رات کو صرف 27 کی شب سے منسوب کرنا کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ستائیسویں شب کو ہوتی ہے مناسب نہیں۔علماکی اکثریت کاغالب گمان یہی ہے کہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہی شب قدر ہوتی ہے، لیکن ا س حوالے سے ٹھوس دلائل موجود نہیں، ویسے بھی جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمادیا کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوںمیں تلاش کرو تو پھر اس کے آگے کسی بھی عالم، مفتی کا کوئی بھی دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔۔
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں،اللّٰہ عَزَّوَجَل َنے شب ِقدر کو چند وجوہ کی بناء پر پوشیدہ رکھا ہے۔اس کی مثالیں دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ۔۔جس طرح دیگر اَشیاء کو پوشیدہ رکھا،مثلاً اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے اپنی رضا کو اطاعتوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں رغبت حاصل کریں۔ اپنے غضب کو گناہوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ ہر گناہ سے بچتے رہیں۔اپنے ولی کو لوگوں میں پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں۔ دعاء کی قبولیت کو دعاؤں میں پوشیدہ رکھاتا کہ وہ سب دعاؤں میں مبالغہ کریں ۔ اسمِ اعظم کو اَسماء میں پوشیدہ رکھا تاکہ وہ سب اَسماء کی تعظیم کریں۔اورنمازِ وُسطیٰ کو نمازوں میں پوشیدہ رکھا تاکہ تمام نمازوں کی پابندی کریں ۔تو بہ کی قبولیت کوپوشیدہ رکھاتاکہ بندہ توبہ کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے اور موت کا وقت پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ خوف کھاتا رہے، اسی طرح شب ِقدر کوبھی پوشیدہ رکھاتا کہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں۔۔امام رازی کا مزید کہنا ہے کہ ۔۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے،’’اگر میں شبِ قدر کو مُعَیَّن کردیتا اور یہ کہ میں گناہ پر تیری جرات کو بھی جانتا ہوں تواگرکبھی شہوت تجھے اس رات میں گناہ کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہوجاتا تو تیرا اس رات کو جاننے کے باوجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے زیادہ سخت ہوتا۔ پس اِس وجہ سے میں نے اسے پوشیدہ رکھا۔۔گویا کہ ارشاد فرمایا میں نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ شرعی احکام کا پابند بندہ اس رات کی طلب میں محنت کرے اور اس محنت کا ثواب کمائے۔جب بندے کو شبِ قدر کا یقین حاصل نہ ہوگا تووہ رمضان کی ہر رات میں اس امید پراللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں کوشش کرے گا کہ ہوسکتا ہے کہ یہی رات شب ِقدر ہو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شب قدر کیوں عطا ہوئی؟؟شب قدر کے حصول کا سب سے اہم سبب رحمۃ للعالمین،خاتم النبیین،سید المرسلین حضرت محمدﷺ نے اپنی امت کو سابقہ امتوں کے لوگوں کی عمروں سے آگاہ فرمایا جو کہ بہت طویل تھیں،آپﷺ نے سوچا کہ پہلی امتوں کی عمریں بہت لمبی ہیں، جب کہ میری امت کے لوگوں کی عمریں بہت تھوڑی،اگر وہ نیک اعمال میں ان (پہلی امتوں) کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن ہے،تو اسی کی تلافی میں یہ رات عطا کی گئی۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسو ل اکرمﷺ نے صحابہ کرامؓ کے سامنے بنی اسرائیل کے چار انبیاء حضرت ایوبؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت حزقیلؑ اور حضرت یوشعؑ کا ذکر کرتے فرمایا کہ یہ حضرات80/80 سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہے اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابہ کرامؓ کو ان برگزیدہ ہستیوں پر بہت رشک آیا۔امام قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ اس وقت جبرائیل علیہ السلام آپؐ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔’’اے نبی محترمﷺ! آپؐ کی امت کے لوگ ان سابقہ لوگوں کی اسی سالہ عبادت پر رشک کر رہے ہیں تو آپؐ کے رب نے آپؐ کو اس سے بہتر عطا فرما دیا ہے اور پھر سورۃ القدر تلاوت کی۔ اس پر نبی کریمﷺ کا چہرہ مبارک فرطِ مسرت سے چمک اٹھا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبﷺ کے طفیل امت محمدی پر کرم فرما کر امت کو لیلۃ القدر جیسا تحفہ عنایت فرمایا اور اس میں عبادت کو اسّی نہیں تراسی سال چار ماہ سے بھی بڑھ کر قرار دیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع اور بے حساب ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔رمضان المبارک کی طاق راتوں کے لیے یہ دعا خود نبی محترمﷺ نے بتائی ہے،اسے پڑھنا نہ صرف سنت رسول ﷺ ہے بلکہ نجات کا ذریعہ بھی۔۔اَللَّہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔۔(ترجمہ)اے اللہ آپ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں مجھے معاف کر دیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔