... loading ...
یوکرین پر روسی افواج کے حملے کو دو ماہ کا عرصہ ہونے کو آیا ہے ،لیکن ابھی تک اس جنگ میں فاتح اور مفتوح کاحتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔بظاہر اِس جنگ میں روس کا پلڑا ہر لحاظ سے بھاری دکھائی دے رہا ہے اور یوکرین کے اہم ترین علاقے مکمل طور پر روسی افواج کے قبضہ میںجاچکے ہیں ،لیکن اِس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں ہے کہ یوکرینی افواج نے روس کے خلاف اپنی مزاحمت ترک کردی ہے۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جن علاقوں پر ابھی تک روس کا قبضہ نہیں ہوسکا وہاں روسی افواج کو یوکرین کی جانب سے پہلے سے بھی زیادہ شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ کہنے کو تو دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات بھی جاری ہیں اور دونوں فریقین کی جانب سے ایک سے زائد بار اِس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدہ کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں ۔ایک طرف اس طرح کی حوصلہ افزا خبریں آرہی ہیں تو دوسری جانب یہ مصدقہ اطلاعات بھی تواتر کے ساتھ موصول ہورہی ہیںکہ چند روز کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر سے روس نے یوکرین کے مشرقی علاقے میں راتے گئے فضائی حملے شروع کردیے ہیں ۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی حال میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق روسی وزارت دفاع نے بتایا کہ مشرقی یوکرین میں گزشتہ ایک دو، روز میں درجنوں فضائی حملے کیے گئے ہیں اوراعلیٰ معیار کے فضا ئی میزائلوں سے ڈونباس کے مختلف علاقوں میں یوکرین کے 13 اہم مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔اِس فضائی کارروائی میں یوکرینی افواج کے 60 ملٹری اثاثوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ مشرقی فرنٹ لائن پر قصبے پر بھی فضائی کارروائیاں کی گئی ہیں۔یوکرین پر تازہ ترین فضائی حملوں کے متعلق روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگوکا کہنا ہے کہ’’ ماسکو مشرقی یوکرین کو آزادکرنا چاہتا ہے مگر مغربی طاقتیں خفیہ طور پر کیف کو بھاری اسلحہ و بارود فراہم کرتے ہوئے ہمارے مفادات کو چیلنج کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔مغربی ممالک کو اُن کی اِس حرکت پر سبق سکھانے کے لیے ماسکو نے اپنے فضائی اور زمینی حملوں میں مزید تیزی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔کیونکہ ہم عوامی جمہوری ریاستیں ڈونیٹسک اور لوگانسک کو آزاد کرنے کے اپنے منصوبے پر عمل درآمد کروائے بغیر جنگ بندی پر کسی بھی صورت آمادہ نہیں ہوںگے‘‘۔یاد رہے کہ روس نے یوکرینی باغیوں کے مذکورہ بالا دونوں خطوں کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔
دوسری جانب یوکرین کی مسلح افواج کے سربراہ نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ حالیہ چند دنوں میں روسی فضائیہ نے اپنی کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے اور اس وقت روسی افواج یوکرین کی پوری سرحد پر ہرجانب سے شدید حملے کر رہی ہے‘‘۔اہم بات یہ ہے کہ یوکرینی دارالحکومت کیف سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر کریمینیا کی آبادی 18 ہزار سے زائد ہے اورروس کے نئے حملوں کے بعد مشرقی یوکرین میں روسی فورسز کے قبضے میں جانے والا یہ پہلا شہر ہے۔کریمینیا پر روسی افواج کے قبضہ کی تصدیق کرتے ہوئے لوہانسک ریجن کے گورنر سہریے گیڈائی کا کہنا تھا کہ ’’ کریمینیا روسیوں کے قبضے میں ہے اور وہ شہر میں داخل ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے محافظوں کو دستبردار ہونا پڑا، وہ نئی پوزیشن میں چلے گئے ہیں اور روسی فوج سے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ روسی فورسز نے ہر طرف سے حملے کیے تھے۔حالات اتنے گھمبیر ہوچکے ہیں کہ اَب تو شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد کا تعین کرنا بھی ممکن نہیں رہاہے‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ماسکو کی طرف سے وائٹ ہاؤس کو ایک دھمکی آمیز مراسلہ بھی ارسال کیا گیا ہے جس میں روس نے امریکا کو وارننگ دی ہے کہ وہ اس کے اتحادی یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنا بند کردیں۔اگر ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو پھر سارے خطے میں بڑی تباہی پھیل سکتی اور بدترین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور روس اُن نیٹو ممالک کے خلاف بھی کارروائی کرسکتاہے ،جو ممالک یوکرین کو خفیہ طور پر مہلک اسلحہ پہنچا رہے ہیں ‘‘۔ اِس دھمکی آمیز مراسلہ پر معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی حالیہ اشاعت میں لکھا ہے کہ’’ یہ مراسلہ ماسکو کی جانب سے ایک ایسے وقت میں لکھا گیا ہے جب امریکی صدر جوبائیڈن نے آٹھ ملین ڈالر کے جدید ہتھیاروں سمیت اقتصادی امداد کا پیکیج منظور کیا۔اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی صدر جوبائیڈن ماسکو کی جانب سے دھمکی آمیز مراسلہ موصول ہونے کے بعد بھی یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنا جاری رکھے گا؟۔ خاص طور پر اُس وقت جب کہ روس بھی یوکرین میں آباد روسی علیحدگی پسندوں کو یوکرینی افواج سے لڑنے کے لیے مہلک ہتھیار فراہم کر رہا ہے‘‘۔
ہماری دانست میں امریکا نے روس کو یوکرین میں زیادہ عرصہ تک مصروف جنگ رکھنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ بلکہ بعض دفاعی تجزیہ کار تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پینٹاگون روس کو یوکرین کی سرزمین پرگوریلا جنگ میں الجھا دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں نیٹو کا کردار بہت اہم ہے۔بظاہر روس ان سازشوں کو سمجھ رہا ہے مگر روس کی غلطی یہ ہے کہ چونکہ جنگ اس نے شروع کی تھی لہٰذا ،اَب یہ جنگ ختم بھی اس کو ہی کرنا ہوگی۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے چین اور روس نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی مقامی کرنسی میں دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کا آغاز کر دیاہے۔جس نے سامراجی ایوانوں میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیداکردی ہے۔ جبکہ ایک عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یوکرین کی مسلح افواج کے جنرل اسٹاف انٹیلی جنس نے دعویٰ کیا ہے کہ اعلیٰ روسی حکام نے اپنے فوجیوں کو 9 مئی تک جنگ ختم کرنے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔روسی فوجیوں کو 9 مئی تک جنگ روکنے کی ہدایت اس لیے کی گئی ہے ۔دراصل روس ہر سال 9 مئی کو 1941 سے 1945 تک جاری رہنے والی جنگ کے خاتمے کا جشن مناتا ہے اور روس 9 مئی کو عظیم حب الوطنی کے دن کے طور پر یاد رکھتا ہے کیوں کہ اس روز جرمنی کی افواج نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے تھے۔بہر کیف دنیا کے اَمن کے لیے تو یہ ہی بہتر ہوگا کہ یوکرین جنگ جلد ازجلد اپنے اختتام کو پہنچے اور اگر 9 مئی کو روس نے یوکرین جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر یقینا آنے والے ایام میں یوکرین پر روسی افواج کے حملے شدید سے شدید تر ہوتے جائیں گے کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اپنے اہداف حاصل کیے بغیر تو کسی بھی صورت یوکرین جنگ کا اختتام نہیں کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔