وجود

... loading ...

وجود

کون کہتاہے موت آئی تومرجاؤں گا

پیر 04 اپریل 2022 کون کہتاہے موت آئی تومرجاؤں گا

سو کر اٹھا محسوس ہوا گھروالوں کی عجب کیفیت ہے چولہے میں دھواں ہے نہ ناشتے کی کوئی تیاری ۔۔میں نے پوچھا اماں!ناشتے میں کیاہے؟ ۔۔انہوں نے کوئی جواب نہ دیا مجھے لگا جیسے اماں کی آنکھوںمیں آنسو ہوں۔والد صاحب کی طرف دیکھا افسردہ افسردہ ،غمگین،دل گرفتہ۔۔ادھر ادھر نظر دوڑائی تو بڑے بھائی ریاض ایک کونے میں کھڑے رو رہے تھے میںنے ان کا ہاتھ تھام کر دریافت کیاآپ کیوں رورہے ہیں ؟ انہوںنے کوئی جواب نہ دیا البتہ ان کے رونے کی آواز مزیدبلند ہوگئی چارپائی پر بیٹھے بھائی نسیم کی بھی یہی حالت تھی ۔۔دل میں سوچا الہی کیا افتاد آن پڑی ہے کہ ہر کوئی پریشان پریشان ہے بتاتا بھی کچھ نہیں شاید کوئی رشتہ دار عزیز وفات پاگیاہے منہ ہاتھ دھو کر گھرسے باہر نکلا تو یوں لگا میاںچنوںکا ہر شہری سہماسہما،ڈرا ڈرا اور سوگوارہے کچھ آگے بڑھا تو ایک خبطی قسم کا بوڑھا ننگی گالیاں دے رہا تھاکبھی کبھی وہ جیوے جیوے کا نعرہ لگاتا پھر گالیاں دینے میں مصروف ہو جاتا درجنوںبچے خبطی کے ارد گرد جمع تھے شاید ان کی دانست میں کوئی تماشاہورہا تھااسی اثناء میں ایک واقف کار لڑکے نے میرا ہاتھ پکڑا اور کھینچتاہوا ایک طرف لے گیا موڑ مڑتے ہی ایک عجوم پر نظر پڑی ان میں بچوںکی تعداد سب سے زیادہ تھی ان کے ارد گرد جمع لوگ کچھ کھا رہے تھے ہم بھی آہستہ آہستہ ان کے پاس پہنچ گئے معلوم ہوایہاں حلوہ بانٹا جارہا ہے سوچا شاید کوئی نذر نیاز ہے یا پھر ختم شریف اسی دوران سپید دودھ سے بالوں والا فرشتہ صورت ایک بابا آکر ہمارے قریب آکھڑا ہواوہ بلند آواز میں چیخ چیخ کر کہنے لگاشرم کرو! حیا کرو! موت پر اتنا جشن ۔
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا
وہاں مجھے علم ہوا کہ آج صبح معزول وزیر ِ اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی اسی وجہ سے میرے گھر کی فضا میں یاسیت رچی ہوئی تھی شہر کے بیشتر لوگ سوگوار تھے اور یہاں کچھ لوگ ان کی موت پر حلوے بانٹ رہے تھے۔۔ایک مقبول ترین قومی رہنما کی اس انداز میںموت ۔۔ایک سانحہ سے کم نہیں
پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑی طلسماتی شخصیت ذوالفقارعلی بھٹو بلاشبہ حضرت قائد ِ اعظم ؒ کے بعد سب سے بڑے لیڈر بن کر ابھرے۔’’ آیا اور چھا گیا ‘‘کا مقولہ صحیح معنوںپرذوالفقارعلی بھٹوپر صادق آتاہے ان کی آمدسے قبل سیاست جاگیرداروں،حکومتی منظور ِ نظر لوگوں ۔۔اور۔۔وڈیروںکے گھرکی لونڈی سمجھی جاتی تھی وہ قومی امور کے فیصلے اپنے ڈرائنگ روموںمیں بیٹھ کر کیا کرتے تھے اور کسی کو دم مارنے کی بھی تاب نہ تھی ذوالفقارعلی بھٹونے سیاست کو عوامی رنگ دیا انہوںنے سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر ہوٹلوں،تھروں،ٹی سٹالوں اور باربروںکے حمام میں لا پھینکااور پاکستان کی تاریخ کے طاقتور ترین سیاستدان بن گئے انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی جس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑڈالے ۔۔بڑے بڑے بھاری بھر کم سیاستدانوں کے مقابلے پرPPP کے امیدوار ایسے تھے جن کو محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا بلکہ لوگ انہیں مذاق کرتے تھے نتیجہ آیا تو بڑے بڑے برج الٹ گئے یوں سمجھئے سیاسی انقلاب آگیا ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتیشخصیت کی بدولت پیپلزپارٹی کے غیر معروف امیدواروں نے مخالفین کی ضمانتیں ضبط کروادیں 1977ء کے الیکشن میں امیدواروںکی شخصیت، سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہوگئے بھٹوکا نام جس نام کے ساتھ نتھی ہوگیا معتبرہوگیاوہ دنیا کے پہلے سول چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر بھی رہے۔۔۔صدر ِ پاکستان بھی اور وزیر ِ اعظم کے عہدے پر فائزرہے ان کے دورحکومت میں طاقتور وزیرِ اعظم کاتصور ابھرا جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت ملی قوم سقوط ِ ڈھاکہ کے باعث شکست خوردہ تھی۔زخم ہرے تھے دور دور تک ان کے پایہ کا کوئی لیڈر نہ تھااس صورت ِ حال نے انہیں ایک مطع العنان حکمران بنا دیا پارٹی کے دیگر رہنمائوںکے لیے اختلاف رائے بھی جرم بن گیا خود پیپلزپارٹی کے لوگ کہنے لگے بھٹوکی شخصیت تضادات کا مجموعہ ہے۔شاید اسی لیے متعدد قریبی ساتھی معراج محمد خان، جے اے رحیم، مختارراناوغیرہ۔۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور ِ حکومت میں ان کا ساتھ چھوڑ گئے ۔۔۔ان خوبیوں یا خامیوں کے باوجود ان کے پاکستان پر بہت سے احسانات ہیں 1977ء کا متفقہ آئین ذوالفقار علی بھٹو کا ہی کارنامہ ہے،اسلامی سربراہی کانفرنس،پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز،اسلامک بلاک کی تشکیل،تیل کو ہتھیارکے طورپر استعمال کرنے کی سوچ،قادیانیوںکو اقلیت قرار دینا اور ایک لاکھ پاکستانی جنگی قیدیوںکی رہائی ۔۔۔ان کی بہترین کاوشیں قراردی جا سکتی ہیں۔ یہ بات اکثرسننے میں آ تی رہی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی قسمت کا فیصلہ اسی روز ہوگیا تھا جس روزپاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیادرکھی گئی تھی بھٹو نے کہا تھاہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹمی پروگرام ہر قیمت پر جاری رہے گا اسلامی بلاک کے ایک محرک شاہ فیصل کو ایک سازش کے تحت بھتیجے کے ہاتھوں شہید کروادیا گیادوسرے محرک کو منظر سے ہٹانے کیلیے پھانسی دیدی گئی پیپلزپارٹی کے رہنماایک عرصہ سے یہ بھی کہہ رہے ہیں بھٹوکی پھانسی عدالتی قتل ہے بہرحال اس بات میں سچائی ہے یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج سے41سال قبل اس لیڈر کوموت دیدی گئی۔۔جو غریبوںکی بات کرتا تھا۔ جس نے پاکستان کی سیاست اور سیاست کاانداز بدل کر رکھ دیا۔۔جس تمام مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا خواب دیکھا۔۔۔جو دل سے چاہتا تھا اسلامک بلاک کی کرنسی ،دفاع اور تجارت مشترکہ ہو ۔ لوگ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ بھٹو اتنا بڑا لیڈر تھا کہ اس کی شخصیت کے پاکستانی سیاست پر اب تلک اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔۔اس کی حمایت اور مخالفت میں اب بھی ووٹ ملتے ہیںحضرت قائد ِ اعظم ؒ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کانام آج بھی معتبرہے وہ اب اس دنیا میں نہیں لیکن وہ لاکھوں،کروڑوں لوگوںکے دلوںمیں آج بھی زندہ ہیںغالب خیال ہے کہ قیامت تک زندہ رہیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹونے پاکستان،جمہوریت اور سیاست کیلیے اپنی جان قربان کردی لیکن اصولوںپر سمجھوتہ کرنا گوارا نہ کیا۔یہ بھی کہا جاتاہے وہ پاکستان کے ایک متنازعہ کردار تھے۔ ۔ان پر پاکستان توڑنے کاالزام بھی لگایا جاتاہے ۔یہ بھی کہا جا سکتاہے ذوالفقار علی بھٹوکا کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے بغیر صنعتیںقومی تحویل میں لیناملکی معیشت،تجارت اورکاروبار کو بے انتہا نقصان کا موجب بنا اس کے بعدکاروباری لوگوںنے کسی حکومت پراعتبارکرنا گناہ سمجھ لیاان ساری باتوںسے صرف ِ نظرپیپلزپارٹی کے بانی اپنے مخصوص نظریات،غریبوںسے محبت اور اپنی طلسماتی شخصیت کے باعث ہمیشہ زندہ رہیںگے۔جنرل ضیاء الحق سمیت ان کے کٹر مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ لاکھ کوششوںکے باوجود پیپلزپارٹی ختم کیا جا سکا نہ بھٹو لوگوںکے دلوںسے کھرچے جا سکے۔ جب بھی4اپریل آتاہے لگتاہے سپید دودھیا بالوں والا فرشتہ صورت وہی بابا میرے کان میں سرگوشی کرتاہے
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا
اور میں تائیدمیںسر ہلاکر رہ جاتاہوںکہ واقعی زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے او ربھٹو اپنی تربت سے فکری اندز میں آج بھی اپنی برسی کے موقعہ پر دنیا کے طول و عرض سے آئے لوگوں سے مخاطب تو ہوتے ہوں گے
کون کہتاہے، موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر