وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان میں بھی عدم اعتماد کی گونج

بدھ 30 مارچ 2022 بلوچستان میں بھی عدم اعتماد کی گونج

ملک کے اندر سیاست اور حکومتی ایوانوں میں زلزلہ معمہ ہے نہ اسے سمجھنے میں کسی طرح کی دشواری ہونی چاہیے ۔میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف اکٹھ ،بعد ازاں دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی جام کمال خان عالیانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی سازش امروز کے کھیل کے مماثل ہے۔اب بلوچستان عوامی پارٹی اور شازین بگٹی وغیرہ کا نواز لیگ اورپیپلز پارٹی کی جانب لپکنے سے معاملے کی پوری اور اور واضح تفہیم ہوتی ہے۔تحریک انصاف کے منحرف اراکین کا اسلام آباد کے سندھ ہا س میں پناہ گزین ہونا یا چند ایک کا ادھر ادھر گوشی نشین ہونا بلوچستان کے اندر کروائے جانے والے تجربے کے عین مطابق ہوا ہے۔ جہاں پی ڈی ایم کی جماعتیں ،جمعیت علمااسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اس غیبی کھیل کا شعوری طور حصہ بنی ۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اس منظر نامے پر بغلیں بجارہی تھیں۔بلکہ پیپلز پارٹی کے نواب ثنااللہ زہری اور جنرل عبدالقادر بلوچ عبدالقدوس بزنجو کا کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ دیا ۔ عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ پر یہ سارے اراکین اسمبلی عدم اعتماد پیش ہونے کے ایک دن قبل تک یعنی جام کمال کے مستعفی ہونے کے دن تک مقیم رہیں۔اسی دوران جان جمالی سخت علیل ہوکر سی ایم ایچ داخل کرائے گئے جو بعد ازاں مزید اور بہتر علاج کے لیے کراچی لے جائے گئے۔ان عوامی نمائندوں نے اس خلوت کے لیے جواز باپ پارٹی کے چار اراکین اسمبلی لیلی ترین، حاجی اکبر آسکانی، بشری رند اور ماہ جبین شیران کا منظر سے غائب ہونا پیش کیا ، جو کسی کے کہنے پر اسلام آباد چلے گئے تھے۔جس کے بعد باپ پارٹی کے جام مخالف اراکین اسمبلی،جے یوآئی ،پشتون خوا میپ اور بلوچستان عوامی پارٹی کو جام کمال کے خلاف اسمبلی کے ان اراکین کیاغوا کئے جانے کے شور مچانے کا کہا گیا۔ گویایہ سب کچھ جام مخالف کھیل کا حصہ تھا بدیہی طور جام مخالفین کو معاملہ سیاسی ایشو بنانے کی ہدایت کی گئی۔ چناں چہ اس طرح سب قدوس بزنجو کی رہائش گاہ منتقل ہوگئے اور چند دن تک وہاں محفلیں سجی رہیں۔ چناں چہ منظر سے غائب ہونے والے اراکین اسلام آباد میں نمودار ہوئے اور معا قدوس بزنجو کی رہائشگاہ پہنچ گئے۔یوں جام کمال مستعفی ہونے پر مجبور کیے گئے ۔
گویا اب بھی سیاست اشاروں کی پابند ہے۔ عبدالقدوس بزنجو نے وزیراعلی بننے کے کچھ عرصہ بعد اکبر آسکانی سے وزارت لے لی۔ اس شخص کا دامن بد عنوانی سے پاک نہیں ہے ۔ترقی و منصوبہ بندی کے وزیر ظہور احمد بلیدی چونکہ وزارت اعلی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے، انہیں شاید اب اپنے کئے کا احسا س ہوا ہے ،اس بناعبدالقدوس بزنجو حکومت کے خلاف بولنا شروع کیا اورواپس جام کمال کے حلقہ میں شامل ہوئے۔ ظہور بلیدی نے حکومت اور وزراکی بد عنوانی کے خلاف لب کشائی کی ہے ۔ بجا کہا ہے کہ ملازمتیں فروخت ہورہی ہیں اور اربوں روپے فنڈز کی بندر بانت ہوئی ہے۔ اس طرح ظہور بلیدی بھی کابینہ سے الگ کردیے گئے۔ اس سارے منظر نامے میں عبدالرحمان کھیتران ، اسد بلوچ ،نور محمد دمڑ ،نصیب اللہ مری ،بشری رند سمیت چند وزرا،بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علمااسلام اور پختونخوا میپ کے وارے نیارے ہیں ۔انہونی صوبائی حکومت کے ترجمان کی تقرر کی بھی ہوئی۔ نہ جانے کس کی ایماو ہدایت پر فرح عظیم شاہ کا بطور حکومت کے ترجمان تقرر کرکیکوئٹہ بھیجی گئی ہے۔یہ خاتون2002کی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست پر رکن بنی تھی۔ اسے ٹکٹ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) نے دیا تھا۔ غرض بہت جلد بہت سارے اراکین اسمبلی عبدالقدوس بزنجو سے متنفر ہوگئے۔ وہاں وفاق میں سیاست کے بدلا کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کو تحریک انصاف کے خلاف جانے کا ازن ہوا ۔جہاں جام کمال خان نے رہنمائی کی ۔ باپ پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی جام کمال کے ہم خیال ٹھہرے ۔قومی اسمبلی میں بی اے پی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی ہیں،جام کمال نے کہا کہ خالد مگسی کے پاس فیصلے کا اختیار ہے۔ بی اے پی کے اندر صدارت کا معاملے کا احوال یہ ہے کہ جام کمال ہی پارٹی صدر تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ یعنی ظہور بلیدی قائم مقام صدارت سے متعلق اپنے دعوے سے پیچھے ہٹ گئے۔ عبدالقدوس بزنجو وغیرہ نے کہدہ بابر کو سامنے لانے کی کوشش کی اور انٹرا پارٹی انتخابات کی بات کہہ ڈالی تو انہیں ایسے کسی اقدام سے گریز کی ہدایت آئی ۔ سینٹ کے اندر بی اے پی کے کا پارلیمانی لیڈر سینیٹر انوار الحق کاکڑ ہیں۔ عبدلقدوس بزنجو کے حلقہ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سعید ہاشمی انوار الحق کاکڑ کے خلاف سازش کی تاڑ میں تھے۔ ظہور بلیدی سے کہا تھا کہ بطور پارلیمانی لیڈر ان کا یعنی سعید ہاشمی کا نوٹیفکیشن جاری کریں۔انوار الحق کاکڑ تعلیم یافتہ اور بیان و کلام پر قادر پارلیمنٹرین ہیں ۔ دراصل ناکام سازش کا مقصد انوار الحق کاکڑ کو راہ سے ہٹانا تھا۔ اب اتوار20مارچ2022 کو ہونے والے ریکوڈک معاہدے کا بوجھ اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتیں جمعیت علمااسلام، بی این پی مینگل اپنے کاندھوں سے اتارنے سعی کررہی ہیں۔ حالاں کہ یہ ریکوڈک پر بلوچستان اسمبلی میں27دسمبر2021کو ان کیمرا بریفنگ میں شریک تھی۔ اور اس پورا عرصہ کوئی اختلافی نقطہ نظر پیش نہیں کیا ہے۔ اب معاہدہ پر دستخط کے بعد خصوصا سردار اختر مینگل اور اس کی جماعت مخالفانہ واویلا شروع کرچکی ہے ۔
قدوس بزنجو نے بار بار دوہرایا ہے کہ حزب اختلاف کو اعتماد میں لے کر معاہدہ کیا ہے ۔اسلام آباد میں معاہدے پر دستخط سے ایک روز پہلے کوئٹہ میں بلوچستان کابینہ نے خصوصی اجلاس میں اس کی منظوری دی ۔ نئے معاہدے کے تحت ریکوڈک پر کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کا حصہ 50 فیصد ہو گا جبکہ بلوچستان کی حکومت کو اس منصوبے کا 25 فیصد ملے گا اور 25 فیصد وفاق کے زیر انتظام تین اداروں کے پاس جائے گا۔2011میں بلوچستان حکومت کی جانب سے ٹیتھیان کاپر کمپنی ( ٹی سی سی )کے ساتھ معاہدہ ختم کردیاگیا تھا ۔جس پر کمپنی نے عالمی فورمز سے رجوع کیا جہاں پاکستان کے خلاف تقریبا سود ملا کر 11 ارب ڈالرز کے جرمانے عائد کئے گئے ۔ ٹی سی سی دو کمپنیوں کی مشترکہ ملکیت تھی جس میں سے کینیڈا کی بیرک گولڈ کمپنی دوبارہ کام کرنے پر رضامند ہوگئی، جبکہ دوسری شراکت دار کمپنی” چلی” کی انٹافوگسٹا باہر ریکوڈک منصوبے سے علیحدہ ہو چکی ہے۔حکومت پاکستان اب انٹا فوگسٹا کو تقریبا 95کروڑ ڈالر ادا کرے گی ۔جس کے بدلے میں وہ اپنے حصے کے 3 ارب روپے سے زائد جرمانے کا کیس واپس لے لے گی۔حکومت کے مطابق نئے معاہدے سے نہ صرف 11 ارب ڈالر کا جرمانہ ختم ہوا ہے، بلکہ اب بیرک گولڈ اوراس کی شراکت دارکمپنیاں 10 ارب ڈالرسے زیادہ سرمایہ کاری کریں گی۔ جس سے بلوچستان میں ملازمتوں کے آٹھ ہزار مواقع پیدا ہوں گے۔معاہدے سے انکم فلو100 ارب ڈالرسے زیادہ ہے۔بتایا جارہا ہے کہ کینیڈین کمپنی 100سال تک 100مربع کلومیٹر سے ذخائر نکال سکے گی۔بیرک گولڈ نے معاہدے کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے کہ جرمانے کی تلافی اس صورت میں کی جائے گی جب تمام شرائط کو پورا کیا جائے گا اورمعاہدے میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت کے علاوہ سپریم کورٹ کو شامل کیا جائے گا۔کمپنی نے توقع ظاہر کی کہ منصوبے سے پیداوار پانچ سے چھ سالوں میں آنا شروع ہو جائے گی۔حکومت اس معاہدے کے فوائد گنوارہی ہیں جبکہ اس کے برعکس مختلف سیاسی جماعتیں اور شخصیات نے معاہدہ ریکوڈک و ذخائر پر ڈاکا قرار دیا ہے۔جام کما ل خان عالیانی بھی کہہ چکے ہیں کہ
ریکوڈک منصوبے میں ابتک بلوچستان کا حصہ واضح نہیں ہے۔
بہر کیف بلوچستان کے اندر ایک بار پھر عدم اعتماد لانے کی گونج ہے۔ جمعیت علمااسلام کو کچھ کچھ سابقہ غلطی کا احساس ہوا ہے ۔البتہ بلوچستان نیشنل پارٹی اپنے کئے پر بالکل نادم نہیں۔
قومی سیاست کا یہ پہلو انتہائی شرمناک ہے کہ وہ لوگ جن سے کل نواز شریف کے خلاف بغاوت کرائی گئی، آج انہیں پھر سے عمران خان کے خلاف استعمال کرتے ہوئے دوبارہ نواز شریف وغیرہ کی صفوں کو تقویت دی ہے۔ جام کمال خان اور خالد مگسی اس سیاست میں کل بھی شامل تھے آج پھر اس معیوب سیاست کا حصہ بنے ہیں ۔
حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے کسی رکن نے اپنے قائد عمران خان کی حمایت میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا ہے۔ جام کمال خان کے حکومت کے خلاف البتہ عمران خان نے نے بھی دراصل باغیوں ،جے یو آئی ،بلوچستان نیشنل پارٹی ،پشتونخوا میپ اور پیپلز پارٹی کی دراصل معاونت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر