وجود

... loading ...

وجود

جوڑ توڑ کی سیاست کا مستقبل؟

پیر 28 مارچ 2022 جوڑ توڑ کی سیاست کا مستقبل؟

سابق صدر ِ پاکستان جناب آصف علی زردری اگر جوڑ توڑ کی سیاست کے بادشاہ کہلاتے ہیں تو دوسری جانب وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان بھی احتجاجی سیاست کے جادوگر کی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں ۔ یاد رہے کہ جوڑ توڑ کی سیاست کی بساط خفیہ راہ داریوں اور ڈرائنگ روم کے بند کمروں میں بچھائی جاتی ہے ۔جبکہ احتجاجی سیاست کو پنپنے اور نشوونما کے لیے پرہجوم سڑکوں کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ جوڑ توڑ کی سیاست کا بنیادی وصف ہی معاملہ فہمی ،خاموشی اور مکمل رازداری میں پنہاں ہے تواس کے بالکل برعکس احتجاجی سیاست کا شناختی نشان برانگیختہ جذبات ، شورشرابا اورعوامی طاقت کے مظاہرے ہیں ۔سادہ الفاظ میں یوں جان لیجیے کہ جوڑ توڑ کی سیاست میں حکومت کرنے کے اُصول چند زیرک اور گھاگ سیاست دان آپس میں مل جل کر باآسانی طے کر سکتے ہیں جبکہ احتجاجی سیاست کے علم بردار کے لیے اپنے اقتدار کا فارمولا عوامی خواہشات اور اُمنگوں کے مطابق ترتیب دینا ازحد ضروری ہوتاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے جوڑ توڑ کی سیاست کا ماہر کبھی کبھی بھی احتجاجی سیاست کے میدان میں غیر معمولی ’’سیاسی کارکردگی‘‘ کا مظاہرہ نہیں کرسکتا بالکل ویسے ہی احتجاجی سیاست کے سرخیل کے لیے بھی کسی ڈرائنگ روم کے بند کمرے میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حسبِ منشا سیاسی نتائج و عواقب حاصل کرپانا کم و بیش ناممکن ہی ہوتاہے۔ اگر آپ کو ہماری اس بات پر ذرہ برابر بھی شک و شبہ ہوتو سرِ دست وفاقی دالحکومت اسلام آباد میں حکومت اور حزب ِ اختلاف کی جماعتوں کے مابین جاری زبردست معرکہ آرائی کو باریک بینی سے ملاحظہ فرمالیں ۔ کیونکہ اقتدار پانے اور حکومت بچانے کی یہ جنگ بلاشبہ، جوڑ توڑ کی سیاست اور احتجاجی سیاست کے درمیان ہونے والی مخاصمت کا سب سے بہترین نمونہ قرار دی جاسکتی ہے کہ جس میں حزب اختلاف کی جملہ سیاسی جماعتیں آصف علی زرداری کی قیادت میں یکسو ہوکر جوڑ توڑ کی سیاست کے ذریعے وزیراعظم پاکستان کو اُن کے عہدہ سے معذول کرنا چاہتی ہیں تو وہیں دوسری جانب عمران خان مشہورزمانہ احتجاجی سیاست کے بل بوتے پر اپنی گرتی ہوئی حکومت کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں ۔
واضح رہے کہ ہماری پاکستانی سیاست میں اَب تک کا سب سے زیادہ مشہور معروف مقولہ یہ ہے کہ ’’احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے ذریعے سے کبھی بھی حکومت نہیں گرائی جاسکتی ‘‘۔حیران کن طور پر پاکستانی سیاست میں اَب تک ہوا بھی سب کچھ اسی مقولہ کے عین مطابق ہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں احتجاج اور دھرنے جمہوری نظام کی رخصتی کا باعث تو ضرور بنے ہیں لیکن اِن کے ذریعے سے پرامن تبدیلی اقتدار کبھی بھی ممکن نہ ہوسکا ۔ چونکہ حزبِ اختلاف کی ساری جماعتیںمذکورہ بالا ’’سیاسی قول ‘‘ پر کامل ایمان و اعتقاد رکھتی ہیں ، اس لیے انہوں نے عمران خان کو وزیراعظم کے منصب سے ہٹانے کے لیے احتجاجی سیاست کا مشکل راستہ اختیار کرنے کے بجائے اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے ایک ایسا آسان اور سہل آئینی راستہ اختیار کیا ہے ۔جس کی کامیابی اور ناکامی کا تمام تر انحصار جوڑ توڑ کی سیاست پر منحصر ہے اور یہ تو آپ سب اچھی طرح سے جانتے ہی ہوں گے کہ حزب اختلاف کے جملہ قائدین بالخصوص جناب آصف علی زرداری جوڑ توڑ کی سیاست میںیدطولیٰ رکھتے ہیں ۔
بظاہر تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کا سیدھا سادا اور آسان سا فارمولا تو یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی جوڑ توڑ کی سیاست کے ذریعے حزب اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے بچھائی گئی سیاسی بساط کو اُن پر ہی پلٹ دینے کی کوشش کریں ۔لیکن اِ س طرز سیاست کو اختیار کرنے میں بہرحال ایک خطرہ ضرور عمران خان کے لیے یہ موجود ہوگا کہ چونکہ وہ جوڑ توڑ کی سیاست میں اُتنی مہارت اور تجربہ نہیں رکھتے ،جس قدر مہارت اس کھیل میں مولانا فضل الرحمن ،شہباز شریف ، چوہدری برادران اور بالخصوص آصف علی زرداری کو حاصل ہے ،اس لیے عمران خان کے لیے جوڑ توڑ کی سیاست کی مدد سے حزب اختلاف کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانا آسان نہ ہوگا۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اپنے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے احتجاجی و عوامی سیاست کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے اور ابتدائی طور پر اُن کی یہ حکمت عملی اس لحاظ سے خاصی کامیاب دکھائی دیتی ہے کہ انہوں نے حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کو جوڑ توڑ کی سیاست کے میدان سے نکال کر اپنے من پسند احتجاجی سیاست کے میدان میں کھڑا ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا بھی یہ ہی خیال ہے کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے فی الوقت احتجاجی سیاست کے میدان میں خود کو نہیں اُتارنا چاہیے تھا۔ نیز 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے تحریک انصاف کے کامیاب اور تاریخی جلسہ نے بھی ثابت کردیا ہے کہ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کو عمران خان کے جلسہ کے مقابلے میں اپنی سیاسی جلسیاں کرنے کی سیاسی غلطی ہرگز نہیں دہرانی چاہیے تھی۔
بہرکیف کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان تحریک عدم اعتماد جیسے خالص پارلیمانی معاملہ کو عوام کی عدالت میں کھینچ لانے میں پوری طرح سے کامیاب رہے ہیں ۔ اَب اُن کی اس عوامی واردات کے اثرات تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی پر کس طرح سے پڑتے ہیں ،اس کا اندازہ تو اُسی دن ہوسکے گا جب تحریک عدم اعتماد کامیابی یا ناکامی سے دوچار ہوگی ۔ اگر حالیہ سیاسی تناظر میں حزب اختلاف کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد، ناکامی سے دوچار ہوجاتی ہے تو اِس میں فیصلہ کن کردار احتجاجی سیاست کا ہوگااور پھر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ’’احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں سے بھلے ہی کوئی حکومت گرائی نہ جاسکتی ہو لیکن اِن کی مدد سے اپنی حکومت بچائی ضرور جاسکتی ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر