وجود

... loading ...

وجود

آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا پورا نظام موجود،اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے،سپریم کورٹ

جمعرات 24 مارچ 2022 آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا پورا نظام موجود،اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے،سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح کیلئے دائر صدارتی آرٹیکل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ہے کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں،آرٹیکل 63 اے کی روح کو نظر انداز نہیں کرسکتے، عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں، ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں، عدالت نے آرٹیکل 55 کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر رکن اسمبلی کے ڈالے گئے ووٹ پر یہ کہنا کہ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کی توہین ہے، آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے۔سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔عدالت نے صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری جواب طلب کرلیا ہے ۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ ڈال کر شمار نہ کیا جانا توہین آمیز ہے، آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین میں پارٹی سربراہ نہیں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنایا گیا ہے، پارٹی کی مجموعی رائے انفرادی رائے سے بالاتر ہوتی ہے، سیاسی نظام کے استحکام کے لیے اجتماعی رائے ضروری ہوتی ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کے لیے آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک تشریح تو یہ ہے کہ انحراف کرنے والے کا ووٹ شمار نہ ہو۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ڈی سیٹ ہونے تک ووٹ شمار ہو سکتا ہے، اٹھارہویں ترمیم میں ووٹ شمار نہ کرنے کا کہیں ذکر نہیں۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ کسی کو ووٹ ڈالنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ضمیر کی آواز نہیں کہ اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں نے عدم اعتماد کیا اور حکومت بدل گئی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ بلوچستان میں دونوں گروپ باپ پارٹی کے دعویدار تھے، سب سے زیادہ باضمیر تو مستعفی ہونے والا ہوتا ہے، پارٹی ٹکٹ پر اسمبلی آنے والا پارٹی ڈسپلن کا پابند ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی روح کو نظر انداز نہیں کرسکتے، عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں، ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں، عدالت نے آرٹیکل 55 کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔انہوں نے استفسار کیا کہ منحرف اراکین کی نااہلی کتنی ہوتی ہے، نااہلی کا اطلاق کب سے شروع ہوگا؟ ہمیں اس پر دلائل دیں کہ ہر معاملہ پارلیمنٹ خود کیوں نہ طے کرے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہر رکن ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالے تو نظام کیسے چلے گا، جس پر جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ آرٹیکل 63 (4) کے تحت رکنیت ختم ہونا نااہلی ہے، آرٹیکل 63 (4) بہت واضح ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل سوال ہی آرٹیکل 63 (4) واضح نہ ہونے کا ہے، خلاف آئین انحراف کرنے والے کی تعریف نہیں کی جاسکتی، جو آئین میں نہیں لکھا اسے زبردستی نہیں پڑھا جاسکتا، آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کہتا ہے کہ رکن اسمبلی کو ایماندار اور امین ہونا چاہیے، کیا پارٹی سے انحراف کرنے پر انعام ملنا چاہیے؟ کیا خیانت کرنے والے امین ہو سکتے ہیں؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، ووٹ اگر ڈل سکتا ہے تو شمار بھی ہو سکتا ہے، اگر حکومت کے پاس جواب ہے تو عدالت سے سوال کیوں پوچھ رہی ہے، اگر اس نقطے سے متفق ہیں تو اس سوال کو واپس لے لیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹ پارٹی کے خلاف ڈالے بغیر آرٹیکل 63 اے قابل عمل نہیں ہوگا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کی ڈیکلریشن پر کیا انکوائری کرے گا، کیا الیکشن کمیشن تعین کرے گا کہ پارٹی سے انحراف درست ہے کہ نہیں، کیا الیکشن کمیشن کا کام صرف یہ دیکھنا ہوگا کی طریقہ کار پر عمل ہوا یا نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف درست نہیں ہو سکتا۔ سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ آج بھی گزشتہ سماعت والا ہی مسئلہ ہے، مناسب ہوگا کہ وکلا اور دیگر افراد باہر چلے جائیں، جو کھڑے ہیں وہ لاؤنج میں سماعت سن لیں، اس سے پہلے کہ عدالت کو سختی سے باہر نکالنا پڑے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب پہلے آپ کو سنیں گے، ہم نے سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کر رکھے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں ہم صوبوں کو بھی نوٹس جاری کریں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں، عدالت چاہیے تو صوبوں کو نوٹس جاری کر سکتی ہے، صوبوں میں موجود سیاسی جماعتیں پہلے ہی کیس کا حصہ ہیں۔اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ میرے خیال میں صوبوں کا کردار نہیں، ہر عدالت کی صوابدید ہے، وزارت اعلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں جمع نہیں ہیں۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے معاونت کے لیے تمام صوبوں کو نوٹس جاری کر دیئے۔رضا ربانی نے کہا کہ میری درخواست پر اعتراض عائد کر دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رضا ربانی صاحب ہم دیکھ لیتے ہیں، آپ کو بھی سنیں گے، پہلے جلسے کے خلاف کیس سن لیتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے حکام کو جلسے سے متعلق عدالتی احکامات سے آگاہ کیا، جے یو آئی (ف) اور تحریک انصاف نے جلسے کے لیے درخواستیں دیں، جے یو آئی (ف) نے درخواست میں دھرنے کا کہا ہے، جے یو آئی (ف) کہتی ہے کشمیر ہائی وے پر دھرنا دیں گے، قانون کے مطابق ووٹنگ کے دوران دھرنا نہیں دیا جاسکتا، قانون کہتا ہے 48 گھنٹے پہلے جگہ خالی کرنی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! ہم نے آئین اور قانون کو دیکھنا ہے، ہم انتظامی امور میں مداخلت نہیں کر سکتے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ ہدایت دے کہ ماحول پرامن رہے۔جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ درخواست میں ہم نے کہا ہے کہ ہم پرامن رہیں گے، درخواست کا فیصلہ انتظامیہ کو کرنے دیں۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ سے ڈرتے ہیں، جس پر کمرہ عدالت میں موجود لوگ مسکرادیئے ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یو آئی(ف)اور پی آئی ٹی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی، کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو راستہ ایئرپورٹ کو جاتا ہے، کشمیر ہائی وے سے گزر کر ہی تمام جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد آتے ہیں، قانون ووٹنگ سے 48 گھنٹے پہلے مہم ختم کرنے کا پابند کرتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں، معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہوگی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جمہوری عمل کا مقصد روز مرہ امور کو متاثر کرنا نہیں ہوتا۔وکیل جے یو آئی ف کامران مرتضی نے کہا کہ درخواست میں واضح کیا ہے کہ قانون پر عمل کریں گے، ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہوگا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یو آئی ف پرامن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔سماعت کے دوران عدالت نے ڈی سی اسلام آباد اور آئی جی اسلام آباد کو کمرہ عدالت سے جانے کی ہدایت دے دی۔عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ صوبائی حکومت کا سندھ ہاس واقعے پر پولیس نے بیان ریکارڈ کرا دیا، آئی جی اسلام آباد سندھ حکومت کے موقف پر قانون کے مطابق کارروائی کرے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جے یو آئی ف نے درخواست دی اور کہا کہ وہ کشمیر ہائی وے پر جلسہ کریں گے، بتایا گیا کہ جے یو آئی ف نے جلسے کے بعد کشمیر ہائی وے پر دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے، جے یو آئی ف کے وکیل نے کہا دھرنا پرامن ہوگا۔عدالت نے کہا کہ جے یو آئی قانون کے مطابق دھرنے و مظاہرے کرے۔دوران سماعت سپریم کورٹ نے حکومت کی ٹائیگر فورس اور ڈنڈا بردار فورس پر تشویش کا اظہار کیا۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ٹائیگر فورس، ڈنڈا بردار فورس بدقسمتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ پولیس قانون کے مطابق کارروائی کر رہی ہے، صوبائی حکومتیں بھی تحریری طور پر اپنے جوابات جمع کروائیں، تحریری جوابات آنے پر صدارتی ریفرنس پر سماعت میں آسانی ہوگی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ ہاس میں حکومتی اراکین نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا کہا، انہوں نے 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ ضمیر تنگ کر رہا ہے تو مستعفی ہو جائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ 1992 کے بعد سے بہت کچھ ہو چکا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بہت کچھ ہوا لیکن اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس پر دی گئی رائے پر سختی سے عملدرآمد کی پابندی پر دلائل دوں گا، منحرف اراکین کے ٹی وی پر انٹرویو چلے، سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت پارٹی منشور پر الیکشن جیتنے والا پارٹی وفاداری تبدیل کرے تو اسے استعفی دینا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ فیصلہ 1999 کا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا جی بالکل اور اب 2022 ہے، میں آئینی ڈھانچے پر دلائل دوں گا۔بینچ کے رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا ذکر ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈیکلریشن پارٹی سربراہ جاری نہیں کر سکتا، اس کے لیے فورمز موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں، وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد پر ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا ذکر ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی ہیڈنگ ہی نااہلی سے متعلق ہے، نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے، آرٹیکل 62، 63 اور 62 اے کو الگ الگ نہیں پڑھا جاسکتا، عدالت پارلیمانی نظام کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے چکی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پارٹی نظام کی بنیاد ہیں، عدالت نے ماضی میں پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کی آبزرویشن دی، عدالت نے کہا کہ مسلم لیگ بطور جماعت کام نہ کرتی تو پاکستان نہ بنتا، عدالت نے کہا کہ مسلم لیگ کے ارکان آزادانہ الیکشن لڑتے تو پاکستان نہ بن پاتا، آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں ایک خاندانی حیثیت حاصل ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 ایک ساتھ ہیں، آپ کی ہر دلیل ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 19 ہر شخص کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ دراصل رکن قومی اسمبلی اور عام شہری کے ووٹ کے حق میں فرق کی بات کر رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ رکن کا ڈالا گیا ووٹ واپس نہیں ہو سکتا، آرٹیکل 17 (2) انفرادی ووٹ کے بجائے سیاسی جماعت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، پارلیمانی نظام حکومت میں انفرادی سیاسی جماعت کی کوئی قانون سازی میں اہمیت نہیں ہوتی، پارٹی رجسٹریشن کیس میں سپریم کورٹ نے اصول طے کیا ہوا ہے کہ انفرادی ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ووٹ کا حق رکن اسمبلی کو ملتا ہے، نہ کہ سیاسی جماعت کو۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کی پالیسی کے خلاف ووٹ درحقیقت سیاسی جماعت کو کمزور کرتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں دی گی آبزرویشن بہت اہمیت کی حامل ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کا مینڈیٹ ایوان میں اجتماعی حیثیت میں سامنے آتا ہے، سیاسی جماعتیں عوام کے لیے ایوان میں قانون سازی کرتی ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 4 مواقع پر اراکین اسمبلی پر پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی ہے، پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کے لیے آرٹیکل 63 اے لایا گیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں، ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ سیاسی جماعت کو ایک ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔جسٹس منیب اختر نے کیا کہ جمہوری نظام میں سیاسی جماعت کمزور ہو تو جمہوری نظام متاثر ہو جائے گا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ امریکا میں صدارتی نظام کے باوجود ایک سینیٹر آزاد حیثیت سے نہیں ہوتا، جنرل ضیا نے سیاسی جماعتوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیاکہ سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر انتخابات جیتنے والے اور آزاد رکن قومی اسمبلی میں کیا تفریق ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد رکن کو اگر اس جماعت کا منشور قبول نہیں تو اسے پھر استعفی دے دینا چاہیے، 5سال کی اسمبلی میں ڈھائی سال بعد کشتی تبدیل نہیں کی جا سکتی۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ ہم سے تاحیات نااہلی مانگ رہے ہیں؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ موجودہ حکومت کی بہت کم اکثریت ہے، ایک جہاز کو ڈبو کر دوسرے میں بیٹھیں گے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے اچھے برے کی تمیز کے بغیر پارٹی حکم پر عمل کرنے کی بات کرتا ہے، اصل مسئلہ ہی یہی ہے، اراکین کے ادھر ادھر جانے سے تباہی پھیلے گی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ 63 اے اور 62 اے کو اکٹھا پڑھا جائے، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی دلیل بھی فلور کراسنگ پر ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا کوئی رکن یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا ووٹ پالیسی کے خلاف ہے لیکن اس سے کوئی متاثر نہ ہو؟جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ پارٹی سربراہ کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم پارٹی سربراہ کو بادشاہ نہیں بنانا چاہتے، لیکن ہم پارٹی سربراہ کو لوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے؟ زیادہ تر جمہوری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں، کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جاسکتا ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ چھلانگیں لگتی رہیں تو معمول کی قانون سازی بھی نہیں ہوسکتی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چیئر ہی چلتی رہے گی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف 63 اے کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سب نے اپنی مرضی کی تو سیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی، انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔کیس کی سماعت آک ڈیڑھ بجے تک ملتوی کردی گئی ہے ۔


متعلقہ خبریں


قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر