... loading ...
29فروری2020ء کے قطر معاہدہ پر دستخط کے بعد افغان صدر اشرف غنی اور کابینہ اپنا اقتدار بچانے کی تگ دو اور مزید کسی امید کا سہارا لینے کی بجائے اقتدار چھوڑنے کا اعلان کرتی تونوبت فرار کی ذلت و شرمندگی کی نہ آتی۔15اگست2021ء کو طالبان کو کابل میں داخل ہونے کی حاجت پیش آئی ہی اس لیے کہ ایوان صدر خالی ہوچکا تھا۔ چناں چہ دار الخلافہ کے انaدر غیر یقینی صورتحال کے احتمال کے پیش نظراقدام کرنے پڑے ۔ اشرف غنی اپنے جرائم سے با خبر تھے۔ انہیں قتل یا قید کئے جانے کا خوف لاحق تھا۔ حالاں کہ اقتدار ہاتھ میں لینے و الوں کی انہیں کسی قسم کے انتقام کا نشانہ بنانے کا سرے سے نیت تھی ہی نہیں ۔دراصل اشرف غنی کے فرار میں بھی فسق و فساد مضمر تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کابل طوائف الملوکی لپیٹ میں آئے۔ چناں چہ ان بد خواہوں کے مقاصد پورے نہ ہوئے۔طالبان کسی لحاظ سے غافل نہ رہے،اپنی رٹ کے قیام کو یقینی بنایا۔ رفتہ رفتہ دوسرے صوبوں اور شہروں میں جنگجویانہ امکانات کو ختم کرتے رہیں۔ بلکہ جون2021ء کو امریکی صدر جوبائیڈن ن کی جانب سے 31اگست تک افغانستان سے مکمل انخلاء کے اعلان سے قبل ہی طالبان نے پیشقدمی شروع کرتے ہوئے ملک کے ایک غالب حصے پر کنٹرول حاصل کرلیا ،ایسا حفظ ماتقدم کے طور پر کیا گیا۔اور کابل میں داخل ہونے کے بعد شمال کی جانب مزید قدم بڑھانے شروع کئے۔ یہاں تک کہ پنجشیر کو تصرف میں لے لیا، جس سے غنیم نے بہت ساری توقعات وابستہ کر رکھے تھے۔اس وقت پورے افغانستان پر کابل حکومت کی عملداری قائم ہے۔ گزشتہ دنوں دار الحکومت کابل میں گھر گھر تلاشی مہم ختم ہوئی۔ بھاری اسلحہ برآمد کرکے کابل کے شہریوں کو غیر مسلح کردیا۔ اس نوع کا آپریشن دیگر صوبوں اور شہروں میں بھی تکمیل کو پہنچایا گیا۔یعنی بالترتیب شہروں، قصبوں اور دیہات کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مہم چل رہی ہے۔ پنجشیر کے اندر حالیہ دنوں میں بھی کئی مقامات پر بھاری اسلحہ تحویل میں لیا جاچکا ہے۔ پنجشیر میں احمد مسعود اور بامیان میں کمانڈر عبدالغنی علی پور کی جانب سے مسلح نقل و حمل کی اطلاع پر ان علاقوں میں مزید عسکری کمک پہنچائی گئی ہے۔
علی پور اشرف غنی دور میں فوجی ہیلی کاپٹر مار گراچکے ہیں،امریکی حمایت یافتہ حکومت اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکی ہے ۔ نئی افغان حکومت سردست نظم و ضبط اور عملداری قائم کرنے کے مقاصد میں کامیاب ہوئی ۔ تمام وزارتیں اور سرکاری محکمے احتساب کی چھڑی کے نیچے کام کررہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی باوجود مشکلات کے جاری رکھی ہے ۔ تعلیمی اداروں میں بھی درس و تدریس کا عمل جاری رکھا ہے۔ نیز لڑکیوں کے اسکول بھی کھول دیے گئے ۔ اس حوالے سے مزید اقدامات کئے جارہے ہیں۔ قومی فوج اور پولیس کی تشکیل و تربیت بدستور ہورہی ہے۔ فضائیہ کی تشکیل نو بھی ہوئی ہے۔ نئی حکومت نے نسلی اور علاقائیت کے تعصبات کی بنیاد پر سیاست کو بیچ سے نکال دیا ہے۔ اگرچہ بیرون ملک بیٹھے رشید دوستم، احمد مسعود ، امر اللہ صالح اور اس منش کے دوسرے بڑے ان تعصبات کو ہوا دینے کی کوشش میں ہیں۔مگر موجودہ حکومت شر و تخریب کا یہ پہلو نگاہ میں رکھی ہوئی ہے۔ امریکی تسلط کے بیس سالوں میں یہ شخصیات اور گروہ کابل کی حکومتوں پر غالب رہے۔حامدکرزئی اور اشرف غنی نے جنرل قسیم فہیم اور رشید دوستم جیسے گمراہ و سفاک لوگوں کو مارشل کے عہدے دیے۔شمالی مسلح جتھے کابل کی شاہراہوں پر گشت کرتے، ہوائی فائرنگ اورہلڑ بازی کرتے۔ عام شہریوں کو تو چھوڑیے ، حکومتی لوگ و نمائندے ان کے شرسے محفوظ نہ تھے۔ احمد شاہ مسعود ، برہان الدین ربانی، جنرل قسیم فہیم، عبدالعلی مزاری وغیرہ کی برسی کے تمام اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کئے جاتے ۔ بادی النظر میں افغانستان کی تقسیم صاف نمایاں تھی۔ روسی قبضہ کے دور میں ایسی ہی تقسیم واضح تھی۔ جن کے آگے گلبدین حکمتیار سد راہ تھے ۔تب کے آخری صدر، ڈاکٹر نجیب ان” پرچمی” جنرلوں اور سیاستدانوں کے آگے بچھے ہوئے اور مکمل حصار میں تھے ۔ ڈاکٹر نجیب نے ملک سے فرار کی کوشش کی تو ان ہی جتھوں نے اسے ایئر پورٹ جانے نہ دیا ۔ اس برتری اور ملک کی تقسیم کے منصوبوں کے پیش نظر کمیونسٹ رجیم کے جنرل شاہنواز تنئی نے بغاوت کردی تھی۔ صبغت اللہ مجددی اور برہان الدین ربانی کی عبوری حکومتوں میں یہ گروہ مزید مضبوط ہوئے۔ برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود ان کے حصہ تھے۔ دوستم کی جانب سے مشکلات پیدا کرنے پر بر ہان الدین ربانی نے دوستم کو پیغام بھیجا کہ صدیوں بعد پہلی مرتبہ اقتدارشمال کی اقلیتوں کے ہاتھ لگا ہے، اس لیے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چا ہیے۔ ان عبوری حکومتوں کے دوران بھی ملک کی تقسیم اور ریشہ دوانیوں کے آگے حزب اسلامی کھڑی رہی۔ ہمسایہ ممالک سمیت روس و امریکا حزب اسلامی کواقتدا ر سے دور رکھنے کی خاطر شمال کے جتھوں کی پشت پر تھے۔ یوں طوائف الملوکی کا دور دوراں ہوا۔ قریب تھاکہ افغانستان عملاً تقسیم ہوجاتا۔ ملا محمدعمر مجاہدنے نمودارہوکراشرارکے خواب پورے ہونے نہیں دیے ۔ اورپھر 15اگست2021ء کو ہیبت اللہ اخوندازدہ کی قیادت میں کابل پر کنٹرول اور پھر پنجشیر ہاتھ میں لے کر ایک مرتبہ پھر ان کی 20سالوں کی تقسیم و تخریب کے منصوبے خاک میں مل گئے ۔ اور افغانستان سے فرا رکے بعد جنرل بسم اللہ نے افغانستان کی تقسیم کی بات کہہ ہی ڈالی۔ کہا کہ ” ہماراآخری آپشن اور فیصلہ افغانستان کی تقسیم کا ہوگا۔ ” بسم اللہ محمدی اشرف غنی حکومت میں وزیر دفاع تھے۔2002ء سے2010ء تک افغان فوج کے سربراہ اور2010سے2012ء تک افغانستان کے وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ جنرل بسم اللہ احمد شاہ مسعود کے قریبی ساتھی تھے ۔برتری کی سوچ و رعب تھا کہ 9 مارچ 2020ء کوعبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کے مقابل متوازی طور حلف اٹھاکر خود کو افغانستان کا صدر قرار دیا ۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے اندر بھی بعض سیاسی حلقے ہنوز افغانستان میں ا ان ہی مسلح جتھوں، ڈھونگ و تماشا جمہوریت ،غبن، لوٹ مار اور مارا ماری کے نظام کی احیاء کی بات کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان ا ضطراری اور بحرانی دور سے گزر رہا ہے،جو مزید کسی آزمائش کا متحمل نہیں ہو سکتا۔یقینا مقدم افغانستان کی وحدت اور استحکام ہے ۔