وجود

... loading ...

وجود

حجاب پر عدالتی پابندی سے بے چینی

پیر 21 مارچ 2022 حجاب پر عدالتی پابندی سے بے چینی

۔

حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے نے مسلمانوں میں ایسی ہی بے چینی پیدا کردی ہے جیسی برسوں پہلے شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیدا ہوئی تھی۔جس طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کو شریعت میں مداخلت قرار دیا گیا تھا، اسی طرح ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کو دین میں مداخلت اور اسلام کی غلط تشریح قرار دیا جارہا ہے ۔عدالت عالیہ نے طویل بحث ومباحثے کے بعد اپنے حتمی فیصلے میں حجاب کو اسلام کا لازمی جز تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر عائد کی گئی پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے عدالت نے کہا ہے کہاسکول کی وردی کا ضابطہ ایک مناسب پابندی ہے جو آئین سے تسلیم شدہ ہے ۔طالبات اس پر طالبات اعتراض نہیں کرسکتیں۔چیف جسٹس رتوراج اوستھی، جسٹس نیائے مورتی اور جسٹس جی ایم قاضی کی بنچ نے اس سلسلہ میں عدالت عالیہ میں دائرکی گئی تمام عرضیاں بھی خارج کردیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ یکم جنوری کو کرناٹک کے شہر اڈپی کے ایک پری یونیورسٹی کالج کی چھ طالبات نے حجاب پہن کر کلاسوں میں داخل ہونے سے روکنے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔ بعدازاں معاملے کے طول پکڑنے کے بعد کرناٹک سرکارنے ایسے کپڑے پہننے پر پابندی لگادی تھی جس سے اسکول اور کالج میں یکسانیت اوریکجہتی متاثر ہوتی ہے یا امن عامہ میں خلل پڑتا ہے ۔ مسلم طالبات نے اس حکم نامہ کو عدالت عالیہ میں چیلنج کیا تھا’ جس پر فیصلہ ان کے خلاف آیا ہے ۔عدالت عالیہ نے اس معاملے کو طول دئیے جانے پر اپنی ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ جس طریقے سے حجاب تنازعہ سامنے آیا ہے ، اس سے اس بحث کو تقویت ملتی ہے کہ کچھنادیدہ ہاتھ سماجی امن اور ہم آہنگی کو بگاڑنے کے درپہ ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدالت عالیہ نے حجاب کے خلاف فیصلہ سناتے وقت ان عناصر کی نشان دہی نہیں کی جو اس معاملے میں خدائی فوجدار بن کر سامنے آئے اور جنھوں نے کالج کی طالبات اورانتظامیہ کے درمیان ایک قضیہ کو ہندو مسلم تنازع بناکر فرقہ وارانہ منافرت پھیلائی اور عین اسمبلی انتخابات کے درمیان اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی۔
یہ بات اب عام ہوچکی ہے کہ جب بھی مسلمانوں یا اسلام سے متعلق کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو ملک میں سرگرم فاشسٹ عناصر مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ ایسے ہر موقع پر سرکاری مشنری اور کسی حد تک انصاف قایم کرنے والے ادارے بھی فسطائی عناصر کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس معاملے میں بھی بالکل ایسا ہی ہوا ہے ۔ جب مسلم طالبات حجاب پہننے کے اپنے دستوری حق پر زور دے رہی تھیں تو فرقہ پرست عناصر بھگوا شال اور رام نامی دوپٹے پہن کر کالجوں میں داخل ہوئے اور مسلم طالبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ اس دوران ایک طالبہ مسکان نے جب بھگوا دھاری طلباء کی طرف سے جے ‘شری رام’ کے نعروں کے درمیان ‘نعرہ تکبیر’ بلند کیا تو ملک میں ایک عجیب وغریب صورتحال پیدا ہوگئی اور یہ طالبہ مسلم طالبات کے لیے ایک رول ماڈل بن گئی۔ کئی ملی تنظیموں نے اس پر لاکھوں کے انعام کی بارش کردی اور اسے سرپربٹھایا گیا۔اس طرح حجاب کے مسئلہ نے اتنا طول پکڑا کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی باحجاب طالبات کا اسکولوں میں داخل ہونا مشکل ہوگیا۔ جگہ جگہ ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور انھیں بے حجاب کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ اس میں وہ طاقتیں پیش پیش تھیں، جنھیں اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں سے خدا واسطے کا بیر ہے اور وہ ہر اس علامت کو مٹانے پر کمربستہ ہیں جس سے اسلامی تہذیب اور معاشرت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعدحجاب کے خلاف محاذ آرائی میں کئی گنا اضافہ ہوگیاہے ، کیونکہ اس فیصلے کو ملک گیر سطح پر نافذ کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پرتمام ہی مسلم جماعتوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالت عالیہ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات اور شرعی احکامات خلاف ہے ۔ یہ فیصلہ دستور کی دفعہ 15 کی بھی خلاف ورزی ہے ، جو مذہب،نسل، ذات پات اورزبان کی بنیاد پر ہرقسم کی تفریق کے خلاف ہے ۔ پرسنل لاء بورڈ نے مزید کہا ہے کہجو احکام یا فرض واجب ہوتے ہیں، وہ لازم ہوتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی گناہ ہے ۔ اس لحاظ سے حجاب ایک لازمی حکم ہے ۔ اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام کے دائرے سے نہیں نکلتا، لیکن وہ گناہ گار ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حجاب اسلام کالازمی حصہ نہیں ہے ۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بیان کاقابل ذکر حصہ وہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بہت سے مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے روزے اور نماز سے دور ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم نہیں ہیں۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے بہت سے مسائل دین سے دوری کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت میں حجاب پر طویل بحث کے دوران مسلمانوں کی بے عملی اور دین سے دوری کی بھی متعدد مثالیں پیش کی گئیں۔ اگر واقعی اس ملک میں مسلمان اپنی زندگی دینی شعائر کے تحت گزار رہے ہوتے تو کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے میں اس کا عکس صاف نظر آتا، لیکن جیسا کہ پرسنل لاء بورڈ نے کہا ہے کہ مسلمانوں کی بے عملی یا بے دینی کو شرعی احکام میں مثال نہیں بنایا جاسکتا، اس لیے دین کی غلط تشریح ناقابل قبول ہے ۔اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یونیفارم مقرر کرنے کا حق اسکولوں کی حد تک ہے اور جو معاملہ ہائی کورٹ گیا ہے وہ اسکول نہیں بلکہ کالج کا تھا، اس لیے ضابطہ کے مطابق انتظامیہ کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں تھا۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں ایک طالبہ کی طرف سے چیلنج کردیا گیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں اس معاملے کے فیصل ہونے تک صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے ۔باشعور لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ اڈپی کالج کی طالبات اور انتظامیہ کے درمیان حجاب پر جوتنازعہ تھا، اسے کچھ سمجھدار لوگوں کو مقامی طورپر ہی گفتگو سے حل کرلینا چاہئے تھا۔ اس معاملہ میں کیمپس فرنٹ جیسی تنظیم کی شمولیت بھی بہت سے سوالوں کو جنم دیتی ہے ۔ اگر یہ معاملہ بات چیت سے حل ہوجاتا تو یقینا نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔ ہائی کورٹ
کے فیصلے کے بعد مسلمانوں کے شدید ردعمل اور احتجاج کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اب ان کی انرجی اسی طرح سڑکوں پر ضائع ہوگی جس طرح شاہ بانو معاملے میں ہوئی تھی۔ اس احتجاج کا نتیجہ حالانکہ پارلیمنٹ سے مسلم مطلقہ قانون کی صورت میں برآمد ہوا تھا جسے مسلمانوں نے اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیا تھا مگر المیہ یہ ہے کہ عدالتیں آج بھی اس قانون کے خلاف فیصلے صادر کررہی ہیں۔ لوگ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں اس ملک میں مسلمانوں کو یونہی الجھاکر رکھنا چاہتی ہیں اوران کی شدیدخواہش یہی ہے کہ مسلمانوں کی قوت یونہی احتجاج کرتے ہوئے ضائع ہوجائے تاکہ وہ کوئی مثبت اور تعمیری کام کرکے سرخرو نہ ہوسکیں۔ بہرحال اس کی تحقیق بے حد ضروری ہے کہ فسطائی ٹولہ کے اس ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانے میں ہمارے اپنے کون کون شریک ہیں اور انھیں غذا کہاں سے مل رہی ہے ؟ہماری رائے میں حجاب معاملے کو عدالت میں لے جانا سب سے بڑی غلطی تھی اور ایسا کرکے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک بڑی پریشانی کھڑی کرلی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر