... loading ...
گزشتہ دنوں وفاقی درالحکومت اسلام آباد میں موجود سندھ ہاؤس پر تحریک انصاف کے کارکنان نے جس انداز میں دھاوا بولا ہے اور پھر جس طرح سے پی ٹی آئی کے مشتعل مظاہرین نے تحریک انصاف کے منحرف ارکان ِ اسمبلی کے خلاف ہاتھوں میں لوٹے اور ڈنڈے اُٹھاکر احتجاج کرتے ہوئے منظم طور پر سندھ ہاؤس کا مرکزی دروازہ توڑ کر عمارت کے اندر داخل ہوئے ہیں ،اُس سے کم ازکم ایک بات تو پوری طرح سے واضح ہوگئی ہے کہ تحریک عدم اعتماد والے دن جس سیاسی تصادم کے ہونے کا اندیشہ اور خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا ،اُس تصادم کا آغاز ابھی سے ہوچکا ہے۔ نیز سندھ ہاؤس پر دھاوا بولنے والے پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی فہیم خان کا یہ کہنا بھی عین قرین قیاس محسوس ہوتا ہے کہ ’’ یہ ٹریلر ہے ، فلم ابھی باقی ہے‘‘۔
پاکستانی عوام کے لیے تو سب سے زیادہ فکر مندی اور تشویش کی بات یہ ہے کہ جب حکومت اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے سیاسی تصادم کا ٹریلر اتنا خوف ناک ہے تو پھر تحریک عدم اعتماد والے دن چلنے والی پوری فلم کس قدر ہول ناک یا پھر الم ناک ہوگی ۔ اس کا کچھ کچھ اندازہ مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کے اُس بیان سے بخوبی لگایا جاسکتاہے ، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے جلسے ملتوی کردیں ، کوئی مرگیا یا مروادیا گیا تو سب پچھتائیں گے‘‘۔بہرحال چوہدری شجاعت کے بیان سے صاف جھلک رہا ہے کہ وفاقی درالحکومت میں سیاسی حالات کی گرما گرمی دیکھ کر مسلم لیگ ق نے تو ابھی سے ہی پچھتانا شروع کردیا ہے ۔کیونکہ تحریک عدم اعتماد کی جو بساط چوہدری برادران نے حزب اختلاف کے ساتھ مل کر وزیراعظم پاکستان عمران خان سے سیاسی و انتظامی مفادات کشید کرنے کے لیئے بچھائی تھی ، وہ اَب اُن پر اُلٹ چکی ہے۔
باخبر ذرائع تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عد م اعتماد پیش کرنے کی دیرینہ خواہش بھلے ہی حزب اختلاف کی جماعتوں کی تھی ،لیکن پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کی آب یاری کے لیئے تمام تر مناسب سیاسی ماحول اور کھاد مسلم لیگ ق نے ہی مہیا کی ہے ۔ شاید چوہدری برادران کے’’سیاسی ذہن‘‘ میں یہ’’ خناس‘‘ تھا کہ جیسے ہی عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی اوربعد ازاں جوں ہی اُن تک پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے منحرف ہونے کی خفیہ خبر پہنچائی جائے گی تو اگلے ہی لمحے عمران خان اپنی وزاتِ عظمیٰ کو بچانے کے لیئے سیاسی اور غیر سیاسی مدد کے لیے چوہدری برادران کے درِ سیاست پرسر کے بل بھاگے چلے آئیں گے۔
چوہدری برادران کی دانست میں یہ ہی وہ سنہری سیاسی موقع ہوگا جب مسلم لیگ ق، وزیراعظم پاکستان سے اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنوانے کے عوض سیاسی اُجرت میں کچھ بہت بڑا یعنی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ مانگنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ یوں اگلے قومی انتخابات سے قبل صرف 7 قومی اسمبلی کی نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ ق کی سیاسی جھولی میں اسپیکر پنجاب اسمبلی اورتین بڑی وزراتوں کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب کا عالی شان عہدہ بھی آگرے گا۔جس کے بل بوتے پر چوہدری برداران اپنے راج پاٹ کو اگلے پانچ سال کے لیئے صوبہ پنجاب کے علاوہ وفاق میں بھی محفوظ فرمالیں گے۔
مگر چوہدری برادارن کی سیاسی اُمیدوں پر منوں اوس اُس وقت پڑی کہ جب عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیئے کچھ نہ کچھ سیاسی سلسلہ جنبانی اپنی حکومت کی تمام اتحادی جماعتوں کے ساتھ ہی دراز رکھتے رہے،بس ! اگر اس بار منہ نہیں لگایا تو صرف چوہدری برادران کو نہیں لگایا۔ جس کاشکوہ چوہدری پرویز الہی نے نجی ٹی و ی چینل کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں یہ کہہ کر کیا کہ ’’چونکہ عمران خان ہمیں وزرات اعلیٰ پنجاب کا عہدہ دینے پر راضی نہیں ہیں ،اس لیئے اتحادی جماعتوں کا سوفیصد جھکاؤاپوزیشن کی طرف ہے‘‘۔ اس کا جواب عمران خان نے یہ کہہ کر دیا کہ ’’ میں اپنی حکومت چھوڑ دوں گا لیکن کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گا‘‘۔عمران خان کے اسی حرفِ انکار کا بدلہ چکانے کے لیئے ہی چوہدری پرویز الہی نے سندھ ہاؤس میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کے موجود ہونے کا انکشاف کیا ۔
یاد رہے کہ پرویز الہی کے انکشاف کے بعد ہی سندھ ہاؤس میں چھپے ہوئے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی منظر عام پر آنے پر مجبور ہوئے یا انہیں جان بوجھ کر ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت منظر عام لایا گیا۔ سندھ ہاؤس پر پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کی طاقت کا باجماعت مظاہر ہ کروانے کا بنیادی مقصد وحید یہ تھا کہ عمران خان پر اچھی طرح سے واضح ہوجائے کہ اُن کی اندرونی صفوں میں ایک بہت بڑا سیاسی شگاف پڑ چکا ہے ۔اس لیے اَب بہتر یہ ہی ہوگا کہ عمران خان چوہدری برادران سے رجوع فرمالیں ۔ کیونکہ مسلم لیگ ق کی قیادت کا ابھی بھی یہ دعوی ہے کہ اگر عمران خان اُنہیں وزارت اعلیٰ پنجاب کا منصب تفویض کرنے کا وعدہ کرلیتے ہیں تواپوزیشن کی تحریک عد اعتماد کو ناکام بنوانا اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔
بظاہر تحریک عدم اعتماد کے ڈرامے میں مرکزی کردار آصف علی زرداری ، شہباز شریف ، مولانا فضل لرحمن اور بلاول بھٹو زرداری کے دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت احوال یہ ہے کہ اس سارے ڈرامے کے اصل ہدایت کار چوہدری برادران ہیں ۔ اس لیئے اگر تحریک عد م اعتماد کا ڈرامہ فلاپ ہوتا ہے تو سب سے زیادہ سیاسی نقصان بھی چوہدری برادران کا ہی ہوگااور اس بات کا اندازہ مسلم لیگ ق کی قیادت کو بخوبی ہوچکا ہے ۔ شاید یہ ہی وجہ عمران خان کے کسی سے بھی بلیک میل نہ ہونے کے اعلان سے اس وقت جس قدر پریشان چوہدری برادران ہیں ،اتنی تشویش تو اپوزیشن رہنماؤں کو بھی نہیں ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ اور چھانگا مانگا کے عنوان سے بدنام تو سندھ ہاؤس ہورہاہے ،لیکن تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے سارے سیاسی فائدے چوہدری برادران سمیٹنے کے فراق میں نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ فلور کراسنگ کے انسداد کے لیے آئین میں شامل کی گئی ترمیم متعارف کروانے کا تمام تر سہرا پاکستان پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کے سر بندھتاہے۔لیکن اَب جب کہ پیپلزپارٹی اور سندھ ہاؤس کا ہی نام بار بار، ہارس ٹریڈنگ کے لیے زبان زدِ عام ہے توکیا اِسے ہم پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ ہاؤس کے لیے نیک نامی سمجھیں یا باعثِ ننگ و عار؟
٭٭٭٭٭٭٭