وجود

... loading ...

وجود

عمران خان وزیر اعظم رہیں گے یا نہیں ؟

اتوار 20 مارچ 2022 عمران خان وزیر اعظم رہیں گے یا نہیں ؟

پاکستان کے سیاسی افق پر ایک ہی سوال گردش کررہا ہے کہ عمران خان وزیراعظم رہیں گے یا نہیں؟ پاکستان میں وزیر اعظم کا عہدہ ہمیشہ شدیدتنازعات اوربے یقینی کیفیت کا شکار رہاہے بہت کم وزیر اعظم اپنے عہدے کی مدت پوری کر نے میں کامیاب رہے اس وقت سب سے زیادہ بے یقینی کی کیفیت ہے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی درخواست دی ہے اور ساتھ ہی عدم اعتماد کی تحریک بھی جمع کرادی ہے اب اسپیکر اسد قیصر کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس کب ہوگا عمومی خیال یہی ہے کہ اجلاس چوبیس مارچ کو ہوگا اور ستائیس مارچ کو عدم اعتماد پر رائے شماری ہوگی اگر اپوزیشن کی قرارداد کی حمایت وہاں موجود ایک سو بہتر ارکان کریں گے تو وزیر اعظم اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے البتہ صدر مملکت انہیں نئے وزیر اعظم کے انتخاب تک نگران وزیر اعظم کے طور پر کام کرنے کی ہدایت کرسکتے ہیں اس وقت اپوزیشن کے پا س ایک سو باسٹھ ارکان ہیں اگر مسلم لیگ قا ئد اعظم کے پانچ اور متحدہ قومی مومنٹ کے سات ارکان اپوزیشن کی حمایت کردیں اور اپوزیشن کے تمام اراکین حاضر ہوکر عدم اعتماد کی حمایت کریں تو عمران خان وزیر اعظم نہیں رہیں گے لیکن اپوزیشن کے ارکان میں سے چھ ارکان بھی غیر حاضر ہوئے اور پی ٹی آئی کا کو ئی رکن منحرف نہ ہوا تو عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی وزیراعظم عمران خان کو اگر ان کے براہ راست ماتحت ادارے صحیح رپورٹ دے رہیں ہونگے تو وہ عدم اعتماد سے نمٹنے کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد برقرار کھ سکیں گے او ر اپنے اتحادیو ں کی حمایت بھی حاصل کرلیں گے لیکن اگر کسی وجہ سے انہیں مطلوبہ معلومات حاصل نہ ہوسکیں تو وہ اندھیرے میں رہ کر اپنے عہدے کوبرقرار نہ رکھ سکیں گے پاکستان میں سیاسی رسہ کشی کا کھیل ہمہ وقت جاری رہتا ہے اور عوام کے اصل مسائل پس پشت چلے جاتے ہیںبڑھتی ہوئی آبادی پاکستان میں غربت ،بے روزگاری کو مزید فروغ دے رہی ہے کچی آبادیوں کا پھیلائو بڑھ رہا ہے ٹریفک کے مسائل میں اضافہ ہورہاہے تعلیم ،صحت اور صفائی کی سہولیات انتہائی محدود ہیں جدید دنیا کے تقاضوں اور ایجادات سے ہم آہنگی نہیں ہے موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی سے نمٹنے کی تیاریاں نہیں ہیں ملک میں مسائل حل کرنے کے منصوبوں کے بجائے سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے اس وقت سب کی توجہ کا مرکز عدم اعتماد کی تحریک ہے اور اس کی گونج ہر جگہ سنی جاسکتی ہے۔
اپوزیشن کی جماعتوں کو اپنی عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں اقتدار کے حصول کے دیگر مرحلوں سے گذرنا ہوگا جس میں پنجاب کی حکومت کی تبدیلی سب سے پیچیدہ مسئلہ ہوگا اور اگر عمران خان عثمان بزدار کی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو اپوزیشن کے لیے وزیر اعظم کا عہدہ محض وفاق کے معاملات تک ہوگا اور اس کی عملداری صوبوں میں نہیں ہوگی اگر اپوزیشن کی تحریک ناکام ہوگئی تو وزیر اعظم عمران خان کے لیے آئندہ انتخابات تک کوئی چیلنج نہ ہوگا ،اگر اپوزیشن صوبوں اور مرکز میں ایسی صورت حال پیدا کرتی ہے کہ فوری طور پر انتخابات ہوجائیں تو ممکنہ طور پر یہ انتخابات جولائی میں ہونگے اس دوران تحریک انصاف اپنی یکجہتی کو برقرار رکھ کر موثر مہم چلانے میں کامیاب ہو گئی تو کوئی بعید نہیںکہ دوبارہ اقتدار میں آجائے پاکستان میں عمومی طور پر اقتد ار چھورنے والی جماعت فوری طور پر واپس نہیں آتی لیکن یہ کوئی حتمی بات نہیں اقتدار کی رسہ کشی کاکھیل جاری ہے فی الحال جوڑتوڑ اور ملا قا توںکا تماشہ جاری ہے ،سب نتیجے کے منتظر ہیںاس ساری صورت حال کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں جس سے تصادم کا خطرہ ہے ایسی صورت میں پوری بساط الٹ سکتی ہے فی الوقت حکومت اپنے ناراض ارکان سے خطرہ محسوس کر رہی ہے کہ کہیں وہ عدم اعتماد کی حمایت نہ کردیں لہٰذا پوری کوشش یہ ہے کہ ناراض ارکان کو منالیا جائے اوراتحادی جماعتوں کو بھی اپوزیشن کے ساتھ معاہدے سے روکا جائے اس پورے کھیل کو یہاں تک پہنچانے میں بنیادی کردار پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف زرداری کا ہے تحریک کی کامیابی کی صورت میں اگر شہباز شریف یا شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنتے ہیں تو ایسی صورت میں اصل وزیر اعظم آصف زرداری اور نواز شریف ہونگے جن کی کسی بات کو رد کرنا نئے وزیر اعظم کے لیے انتہائی مشکل ہوگا اس وقت متحدہ قومی موومنٹ کو پیپلزپارٹی نے جو پیشکش کی ہے اس پر ایم کیو ایم کو عملدرامد کی ضمانت درکار ہے پیپلز پارٹی سندھ کے شہری علاقوں کے باشندوں کو سرکاری ملازمتوں میں چالیس فیصد کوٹہ دینے پر آمادگی ظاہر کررہی ہے مردم شماری میں شفافیت کے لیے آمادہ ہے متحدہ کو سندھ حکومت میں حصہ دینے اور کراچی کے ایڈمنسٹر کا عہدہ دینے کے لیے بھی آمادہ ہوسکتی ہے لیکن کیا اس معاہدے پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہوسکے گا خصوصاً متحدہ قومی مومنٹ کے حامی اس بات کو قبول کریں گے کہ پیپلز پارٹی سے معاہدہ کر لیا جائے اس وقت ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اسی بات کا فیصلہ کرنے والی ہے ایم کیوایم کو اس پر بھی غور کرنا ہے کے نئی حکومت کے خدو خال کیا ہونگے اور وہ کب تک اپنا اقتدار برقررار رکھ سکے گی اگر آنے والی نئی حکومت کاخاتمہ ہوگیا تو سند ھ میں کیا ہوگا کیا ایم کیوایم اور پی پی پی کے تعلقات برقرار رہ سکیں گے ماضی کے تلخ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طویل عرصے تک یہ تعلق برقرار نہ رہے گادونوں جانب سے تحمل اوردانشمندی سے کام لیا گیا تو ممکن ہوگا کہ یہ معاہدہ دیر تک قائم رہے سندھ کے بعد دوسرا اہم مسئلہ پنجاب کاہے جہاں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اگلا دنگل لگنے والا ہے بار بار عثمان بزدار کی تبدیلی کی بات ہوتی رہی ہے اور کہا جاتا رہا ہے کہ عمران خان عثمان بزدار کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پنجاب کے موجودہ وزیر اعلٰی کی تبدیلی آسان نہیں ہے اگر عمران خان وزیر اعلٰی کی تبدیلی کی کوشش کریں گے تو اس میں انہیں ناکامی بھی ہو سکتی ہے یعنی ان کا نامزد وزیر اعلٰی اپنا عہدہ حاصل کرنے میںناکام بھی ہوسکتا ہے موجودہ وزیر اعلٰی کے مستعفی ہونے کی صورت میں نئے وزیر اعلیٰ کے لیے جو انتخاب ہوگا اس میں اسی طرح کا جوڑ توڑ ہو سکتا ہے جو اس وقت عدم اعتماد میں ہورہا ہے اس لیے پنجاب بھی ہاتھ سے نکل سکتاہے عثمان بزدار کو اب تک برقرار رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔
ُُُُُُُُُُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر