... loading ...
پاکستان کے سیاسی افق پر ایک ہی سوال گردش کررہا ہے کہ عمران خان وزیراعظم رہیں گے یا نہیں؟ پاکستان میں وزیر اعظم کا عہدہ ہمیشہ شدیدتنازعات اوربے یقینی کیفیت کا شکار رہاہے بہت کم وزیر اعظم اپنے عہدے کی مدت پوری کر نے میں کامیاب رہے اس وقت سب سے زیادہ بے یقینی کی کیفیت ہے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی درخواست دی ہے اور ساتھ ہی عدم اعتماد کی تحریک بھی جمع کرادی ہے اب اسپیکر اسد قیصر کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس کب ہوگا عمومی خیال یہی ہے کہ اجلاس چوبیس مارچ کو ہوگا اور ستائیس مارچ کو عدم اعتماد پر رائے شماری ہوگی اگر اپوزیشن کی قرارداد کی حمایت وہاں موجود ایک سو بہتر ارکان کریں گے تو وزیر اعظم اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے البتہ صدر مملکت انہیں نئے وزیر اعظم کے انتخاب تک نگران وزیر اعظم کے طور پر کام کرنے کی ہدایت کرسکتے ہیں اس وقت اپوزیشن کے پا س ایک سو باسٹھ ارکان ہیں اگر مسلم لیگ قا ئد اعظم کے پانچ اور متحدہ قومی مومنٹ کے سات ارکان اپوزیشن کی حمایت کردیں اور اپوزیشن کے تمام اراکین حاضر ہوکر عدم اعتماد کی حمایت کریں تو عمران خان وزیر اعظم نہیں رہیں گے لیکن اپوزیشن کے ارکان میں سے چھ ارکان بھی غیر حاضر ہوئے اور پی ٹی آئی کا کو ئی رکن منحرف نہ ہوا تو عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی وزیراعظم عمران خان کو اگر ان کے براہ راست ماتحت ادارے صحیح رپورٹ دے رہیں ہونگے تو وہ عدم اعتماد سے نمٹنے کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد برقرار کھ سکیں گے او ر اپنے اتحادیو ں کی حمایت بھی حاصل کرلیں گے لیکن اگر کسی وجہ سے انہیں مطلوبہ معلومات حاصل نہ ہوسکیں تو وہ اندھیرے میں رہ کر اپنے عہدے کوبرقرار نہ رکھ سکیں گے پاکستان میں سیاسی رسہ کشی کا کھیل ہمہ وقت جاری رہتا ہے اور عوام کے اصل مسائل پس پشت چلے جاتے ہیںبڑھتی ہوئی آبادی پاکستان میں غربت ،بے روزگاری کو مزید فروغ دے رہی ہے کچی آبادیوں کا پھیلائو بڑھ رہا ہے ٹریفک کے مسائل میں اضافہ ہورہاہے تعلیم ،صحت اور صفائی کی سہولیات انتہائی محدود ہیں جدید دنیا کے تقاضوں اور ایجادات سے ہم آہنگی نہیں ہے موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی سے نمٹنے کی تیاریاں نہیں ہیں ملک میں مسائل حل کرنے کے منصوبوں کے بجائے سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے اس وقت سب کی توجہ کا مرکز عدم اعتماد کی تحریک ہے اور اس کی گونج ہر جگہ سنی جاسکتی ہے۔
اپوزیشن کی جماعتوں کو اپنی عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں اقتدار کے حصول کے دیگر مرحلوں سے گذرنا ہوگا جس میں پنجاب کی حکومت کی تبدیلی سب سے پیچیدہ مسئلہ ہوگا اور اگر عمران خان عثمان بزدار کی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو اپوزیشن کے لیے وزیر اعظم کا عہدہ محض وفاق کے معاملات تک ہوگا اور اس کی عملداری صوبوں میں نہیں ہوگی اگر اپوزیشن کی تحریک ناکام ہوگئی تو وزیر اعظم عمران خان کے لیے آئندہ انتخابات تک کوئی چیلنج نہ ہوگا ،اگر اپوزیشن صوبوں اور مرکز میں ایسی صورت حال پیدا کرتی ہے کہ فوری طور پر انتخابات ہوجائیں تو ممکنہ طور پر یہ انتخابات جولائی میں ہونگے اس دوران تحریک انصاف اپنی یکجہتی کو برقرار رکھ کر موثر مہم چلانے میں کامیاب ہو گئی تو کوئی بعید نہیںکہ دوبارہ اقتدار میں آجائے پاکستان میں عمومی طور پر اقتد ار چھورنے والی جماعت فوری طور پر واپس نہیں آتی لیکن یہ کوئی حتمی بات نہیں اقتدار کی رسہ کشی کاکھیل جاری ہے فی الحال جوڑتوڑ اور ملا قا توںکا تماشہ جاری ہے ،سب نتیجے کے منتظر ہیںاس ساری صورت حال کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں جس سے تصادم کا خطرہ ہے ایسی صورت میں پوری بساط الٹ سکتی ہے فی الوقت حکومت اپنے ناراض ارکان سے خطرہ محسوس کر رہی ہے کہ کہیں وہ عدم اعتماد کی حمایت نہ کردیں لہٰذا پوری کوشش یہ ہے کہ ناراض ارکان کو منالیا جائے اوراتحادی جماعتوں کو بھی اپوزیشن کے ساتھ معاہدے سے روکا جائے اس پورے کھیل کو یہاں تک پہنچانے میں بنیادی کردار پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف زرداری کا ہے تحریک کی کامیابی کی صورت میں اگر شہباز شریف یا شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنتے ہیں تو ایسی صورت میں اصل وزیر اعظم آصف زرداری اور نواز شریف ہونگے جن کی کسی بات کو رد کرنا نئے وزیر اعظم کے لیے انتہائی مشکل ہوگا اس وقت متحدہ قومی موومنٹ کو پیپلزپارٹی نے جو پیشکش کی ہے اس پر ایم کیو ایم کو عملدرامد کی ضمانت درکار ہے پیپلز پارٹی سندھ کے شہری علاقوں کے باشندوں کو سرکاری ملازمتوں میں چالیس فیصد کوٹہ دینے پر آمادگی ظاہر کررہی ہے مردم شماری میں شفافیت کے لیے آمادہ ہے متحدہ کو سندھ حکومت میں حصہ دینے اور کراچی کے ایڈمنسٹر کا عہدہ دینے کے لیے بھی آمادہ ہوسکتی ہے لیکن کیا اس معاہدے پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہوسکے گا خصوصاً متحدہ قومی مومنٹ کے حامی اس بات کو قبول کریں گے کہ پیپلز پارٹی سے معاہدہ کر لیا جائے اس وقت ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اسی بات کا فیصلہ کرنے والی ہے ایم کیوایم کو اس پر بھی غور کرنا ہے کے نئی حکومت کے خدو خال کیا ہونگے اور وہ کب تک اپنا اقتدار برقررار رکھ سکے گی اگر آنے والی نئی حکومت کاخاتمہ ہوگیا تو سند ھ میں کیا ہوگا کیا ایم کیوایم اور پی پی پی کے تعلقات برقرار رہ سکیں گے ماضی کے تلخ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طویل عرصے تک یہ تعلق برقرار نہ رہے گادونوں جانب سے تحمل اوردانشمندی سے کام لیا گیا تو ممکن ہوگا کہ یہ معاہدہ دیر تک قائم رہے سندھ کے بعد دوسرا اہم مسئلہ پنجاب کاہے جہاں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اگلا دنگل لگنے والا ہے بار بار عثمان بزدار کی تبدیلی کی بات ہوتی رہی ہے اور کہا جاتا رہا ہے کہ عمران خان عثمان بزدار کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پنجاب کے موجودہ وزیر اعلٰی کی تبدیلی آسان نہیں ہے اگر عمران خان وزیر اعلٰی کی تبدیلی کی کوشش کریں گے تو اس میں انہیں ناکامی بھی ہو سکتی ہے یعنی ان کا نامزد وزیر اعلٰی اپنا عہدہ حاصل کرنے میںناکام بھی ہوسکتا ہے موجودہ وزیر اعلٰی کے مستعفی ہونے کی صورت میں نئے وزیر اعلیٰ کے لیے جو انتخاب ہوگا اس میں اسی طرح کا جوڑ توڑ ہو سکتا ہے جو اس وقت عدم اعتماد میں ہورہا ہے اس لیے پنجاب بھی ہاتھ سے نکل سکتاہے عثمان بزدار کو اب تک برقرار رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔
ُُُُُُُُُُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔