... loading ...
پاکستانی سیاست میں حزب اختلاف کی جانب سے ایک منتخب اور جمہوری وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا ہرگز کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔لیکن اگر حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم کو واقعی اُن کے عہدے سے ہٹانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یقینا یہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک منفرد اور تاریخ سازواقعہ ہوگا۔یعنی آنے والے چند دنوں میں یا تو متحدہ اپوزیشن مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں تاریخ کا دھارا بدل کر اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے اَمر کروالے گی یا پھر حزب اختلاف کی تمام جماعتیں تاریخ کے کوڑے دان میں جاپڑیں گی ۔ اقتدار کے بے رحم کھیل کا آغاز ہوچکا ہے اور سیاسی جوڑ توڑ اپنے بامِ عروج پر ہے ۔دونوں فریقین مقابلے کو جیتنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ ناز نخرے جن کے اُٹھائے جارہے ہیں وہ حکومتِ وقت کے اتحادی ہیں ۔ کیونکہ ایک عام تاثر یہ پایا جاتاہے کہ اگر اپوزیشن کے گھاگ اور تجربہ کار رہنما تحریک انصاف کی حکومت کے چار ، پانچ اتحادی جماعتوں میں سے زیادہ نہیں بس دو ، تین جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو تحریک عدم اعتماد کو باآسانی کامیابی سے ہم کنار کروایا جاسکتاہے ۔گویا تحریک عدم اعتماد کے اِس شطرنجی کھیل میں مرکزی اہمیت پیادوں کو حاصل ہوچکی ہے اور سیاست کے بادشاہ کہلانے والے اَب چاہے اُن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہو، یا مسلم لیگ ن سے یا پھر پیپلزپارٹی سے اپنی اپنی’’عزتِ سیاست‘‘ بچانے کے لیے پیادوں کے قدموں میں سربسجود ہیں ۔
دوسری جانب ہماری سیاست کے پیادے بھی الا ماشاء اللہ اپنی اچانک بڑھ جانے والی قدروقیمت سے اچھی طرح سے آگاہ ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے وہ بھی ’’گرمی بازار ‘‘ دیکھ کر اپنے دام حکومت اور اپوزیشن دونوں کی’’سیاسی بساط‘‘ اور اپنی’’سیاسی اوقات ‘‘سے کہیں بڑھ چڑھ کر لگارہے ہیں ۔ بھاؤ تاؤ کے معاملات اِس نہج پر آ پہنچے ہیںکہ 5 سیٹیں رکھنے والی مسلم لیگ ق ،وزراتِ اعلیٰ پنجاب مانگ رہی ہے اور اپوزیشن نے اُن کی یہ مانگ بھرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ نیز متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی 7 سیٹوں کے عوض پیپلزپارٹی سے صوبہ سندھ کی حکومت میں 4 من چاہی وزارتیں ، سرکاری ملازمتوں میں 40 فیصد کوٹہ اور ترقیاتی فنڈز میں 30 فیصد حصہ نقد تحریری یقین دہانی کے ساتھ طلب فرمالیا ہے، جس پر آصف علی زرداری نیم رضامند بھی ہوچکے ہیں۔ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے اپوزیشن رہنماؤں کو اپنے 5 ووٹ صوبہ بلوچستان کا اقتدار اعلیٰ الف سے لے کر یے تک کی یقین دہانی پر دینے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔
متحدہ اپوزیشن کے برعکس اگر تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیئے حکومتی حکمت عملی کی بات جائے تو بقول منیر نیازی صرف یہ ہی کہا جاسکتاہے ’’کہ حرکت تیز تر ہے ۔۔۔ اور سفر آہستہ آہستہ‘‘۔یعنی جہاں اپوزیشن اپنی تحریک عدم اعتماد کو پاس کروانے کے لیے تمام سیاسی مال و متاع حکومتی اتحادیوں کے قدموں میں ڈھیر کر چکی ہے ،وہیں تحریک انصاف ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکی کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار جیسے بھاری بھرکم پتھر کا بوجھ اپنے سر سے اُتارنا ہے یا اِس کے وزن تلے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اقتدار کو چکنا چور ہوتے ہوئے دیکھتے رہنا ہے۔ شنید ہے کہ عمران خان اپنے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کی وزارتِ اعلیٰ کو بھی بچانا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی تحریک عدم اعتماد کی دست برد سے اپنا اقتدار اعلیٰ بھی محفوظ رکھنے کی راہیں تلاش کررہے ہیں ۔ اگر خدانخواستہ یہ خبر درست ہے تو پھر حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات خوب روشن سمجھئے ۔
واضح ر ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانے کے لیے جس قدر سیاسی قوت کا مظاہرہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دیکھنے میں آرہا ، ویسی سیاسی کوششیں اور جد و جہدپاکستان تحریک انصاف کے اہم ترین رہنماؤں کی جانب سے دکھائی نہیں دیتیں ۔ جس کا واضح ثبوت تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کی جانب سے مسلم لیگ ق کی قیادت پر ہونے والی مسلسل کڑی تنقید ہے ۔ مانا کہ مسلم لیگ ق، اہم ترین حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود تحریک عدم اعتماد کے معاملہ پر کچھ زیادہ ہی اپوزیشن کی طرف مائل بہ کرم دکھائی دیتی ہے اور سیاسی اخلاقیات کے نقطہ نگاہ سے مسلم لیگ ق کا یہ سیاسی طرزِ عمل قطعی غیر مناسب ہے اور تحریک انصاف کے کارکنان میں چوہدری برادران کی اِس مبینہ بلیک میلنگ کو لے کر سخت غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے مگر اِن تمام تلخ حقائق کے باوجودحالیہ صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما مسلم لیگ ق، کی قیادت پر تنقید کرنے سے حتی المقدور گریزکریں کیونکہ چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی کی جیب میں موجود 5 ووٹ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب اور ناکام کروانے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں حکومت اور اُن کی اتحادی جماعتوں کے اراکین قومی اسمبلی کے بکنے اور خریدنے کی باتیں تو پورے شد و مد کے ساتھ کی جارہی ہیں لیکن ہمارا میڈیا اپوزیشن جماعتوں کے اراکین قومی اسمبلی کی بابت کوئی خبر بریک نہیں کررہا کہ اَب تک اِن میں سے کتنے اراکین بک چکے ہیں یا بکنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ کیونکہ پاکستانی سیاست کی تاریخ تو اَب تک یہ ہی بتاتی ہے کہ حکومت ِ وقت کے خلاف حزب ِ اختلاف کی پیش کردہ عد م اعتماد کی تحریکیں ناکامی سے دوچار ہی فقط اس لیے ہوتی رہی ہیں کہ عین آخری لمحات میں اپوزیشن کے اراکین اپنا ووٹ بیچ کر اپنے دام کھرے کرلیتے ہیں۔ اگر آئین میں درج فلور کراسنگ کے قانون کی رو سے بھی جائزہ لیا جائے تو حکومتی اراکین قومی اسمبلی کی بہ نسبت اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کے لیے بکنا زیادہ آسان ہوگا۔ یعنی بکنے والے اپوزیشن رکن کو صرف ایوان میں نہ آنے کا صر ف ایک جھوٹا سچا بہانہ اور جواز تراشنا ہوگا۔ جبکہ اگر کوئی حکومتی رکن ،تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ کھڑا ہوتاہے تو اس کا اپنی منتخب نشست سے ہاتھ دھونا کم و بیش یقینی ہے۔ اس لیے میرا مشورہ تو یہ ہی ہو گا کہ جناب آصف علی زرداری ، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو حکومتی اراکین قومی اسمبلی کو خریدنے کے بجائے اپنے صفوں سے بک کر حکومتی صف میں شامل ہونے والے اراکین ِ قومی اسمبلی کی فکر کرنی چاہیے۔مزید’’ نیشنل ہارس ٹریڈنگ شو ‘‘کے اختتام پرساری قوم کو معلوم ہو ہی جائے گا کہ بکنے والے گھوڑے کون تھے اور خریدنے والے گدھے کون ہیں؟
٭٭٭٭٭٭٭